اسلام
ابن تیمیہ کا فتویٰ
بعض لوگ انبیاء کرام اور اولیاء و شہداء کے مزاروں کی طرف سفر کرنے کو حرام و ناجائز بتاتے ہیں۔ چنانچہ وہابیوں کے مورث اعلیٰ ابن تیمیہ نے تو کھلے الفاظ میں یہ فتویٰ دے دیا کہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ کے قصد سے سفر کرنا گناہ ہے اس لئے اس سفر میں نمازوں کے اندر قصر جائز نہیں۔ (معاذ اﷲ)
ابن تیمیہ کے اس فتویٰ سے شام و مصر میں بہت بڑا فتنہ برپا ہو گیا۔ چنانچہ شامیوں نے ابن تیمیہ کے بارے میں علماء حق سے استفتاء طلب کیا اور علامہ برہان بن کاح فزاری نے تقریباً چالیس سطروں میں فتویٰ لکھ کر ابن تیمیہ کو ”کافر” بتایا اور علامہ شہاب بن جہبل نے اس فتویٰ پر اپنی مہر تصدیق لگائی۔ پھر مصر میں یہی فتویٰ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی،چاروں مذاہب کے قاضیوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ چنانچہ علامہ بدر بن جماعہ شافعی نے اس پر یہ فیصلہ تحریر فرمایا کہ ابن تیمیہ کو ایسے فتاویٰ باطلہ سے بزجر وتوبیخ منع کیا جائے اگر باز نہ آئے تو اس کو قید کردیا جائے اورمحمد بن الجریری حنفی نے یہ حکم دیا کہ اسی وقت بلا کسی شرط کے اُس کو قید کیا جائے اور محمدبن ابی بکر مالکی نے یہ حکم دیا کہ اس کو اس قسم کی زجرو توبیخ کی جائے کہ وہ ایسے مفاسد سے باز آ جائے اور احمد بن عمر مقدسی حنبلی نے بھی ایسا ہی حکم لکھا نتیجہ یہ ہوا کہ ابن تیمیہ شعبان ۷۲۶ھ میں دمشق کے قلعہ کے اندر قید کیا گیا اور جیل خانہ ہی میں ۲۰ ذوالقعد ۷۲۸ھ کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوا۔مواخذہ اخروی ابھی باقی ہے۔(1)(منقول ازسیرت رسول عربی ص۵۳۳)