اسلام

حضور شیخ الاسلام کافیض رواں

حضور شیخ الاسلام کافیض رواں

حضرت مولانا محمد رفیق احمد ازہری صاحب 

الجامعۃ النوریہ مڑوال بنگلور،کرناٹک۔

شہنشاہ مطلق رب ذو الجلال نے اپنی قدرت کاملہ سے کائنات کو ہر طرح کی زیب و  زینت سے آراستہ فرماکر بنی نوع انسان کا مسکن بنایا اور ان کی رہبری و رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل کو رشد و ہدایت کا پیامبر بنا کر خاکدان گیتی پر مبعوث فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام تا نبئی آخر الزماں خاتم پیغمبراں ﷺ ہر نبی کی بعثت اسی مقصد کی خاطر ہوتی رہی ۔نبی آخر الزماں ﷺ کے بعد گمگشتگان راہ کو چراغ ہدایت سے روشن کرنے کے لیے صحابہ ،تابعین و ائمہ مجتہدین کو پسند فرمایا ۔اس اہم فریضہ کی تکمیل کے لیے صاحبان علم و حکمت ،دانا و ہوشمند افراد کو ہر دور میں وجود بخشا تاکہ آسمان علم و عرفان کے ان مہکتے ستاروں کی علمی کرنوں سے خدا کے بندوں کے دل ایمان وایقان کی ضیاسے قیامت تک منور ہوتے رہینگے ،علمی کہکشاں پہ بزم اہل ایماں کے مشام جاں کو معطر کرتی رہے گی اور مصطفی جان رحمت ﷺ کا دین حسن اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ پھلتا پھولتا رہے گا۔
حضور شیخ الاسلام کی شخصیت کوئی محتاج بیاں نہیں ، آپ کی دینی خدمات دعوت فکر و عمل اور باعث تقلید ہیں ۔شب یکشنبہ ۱۳۵۷؁ ھ مطابق اگست ۱۹۳۷؁ء کچھوچھہ شریف میں آپ کی ولادت ہوی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی علمی ضیا باریوں سے عالم پر مثل آ فتاب کے چھا گئی اور دنیا رئیس المحققین حضور شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمدمدنی میاں اشرفی الجیلانی سے جاننے لگی۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ 
   آپ عہد طفلی سے ہی بچوںکے ان افعال و حرکات سے کنارہ کشی اختیار کرلیے جو عام طور پر بچوں کے اندر پائے جاتے ہیں ۔کھیل کود لہو ولعب میں کسی طرح کی کوئی دلچسپی نہ لیتے ،نہ کوئی میلان تھا نہ کوئی رغبت۔اببتدائی تعلیم کا آغاز کچھوچھہ شریف کے مکتب سے ہوا اور والد گرامی کے نگاہ الطاف و عنایات سے فیضیاب ہوتے رہے۔
۱۰ شوال المکرم  ۱۳۷۱؁ ھ دار العلوم اشرفیہ مبار کپور میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے والد گرامی محدث اعظم حضرت سید محمد اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ نے داخل فرمایا ۔ جہاں فارسی تا بخاری ،تفسیر ،حدیث،فقہ ،اصول فقہ،معقولات و منقولات کے علم سے بہرور ہوے ۔ ذوق طلب نے مزید کتابوں سے بھی استفادہ فرمایا اور تشنگی کو بجھاتے رہے ۔یوں تو دور طالب علمی بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے آپ پوری پوری لگن و توجہ سے درس میں حاضر رہتے ،بڑی دلچسپی اور انہماک کے ساتھ کتابیں مطالعہ فرماتے اور دیگر طلباء سے بالکل الگ تھلگ ہی آپ اپنا مزاج رکھتے ،اوقات ِتضیع بالکل پسند نہ فرماتے، لہو و لعب طنز و مزاح سے گریز کرتے ۔ جو صاحب حکمت ہو بھلا وہ طنز و   مزاح و ظرافت سے کیوں نہ پرہیز کرے!وہ تو اس کے نزدیک عیب ہے۔ شیخ سعدی نے فرمایا ۔
تو بر سر قدر خویشتن باش و وقار
بازی و ظرافت بہ ندیماں بگزار
وقت کا اکثر حصہ مطالعہ و کتب بینی ہم سبق ساتھیوں کو تکرار کرانے اور افہام و تفہیم میں بسر کرتے۔تقریباً دس سال دس ماہ کا مکمل عرصہ دار العلوم اشرفیہ کی علمی فضائوں میں گذرا اور دس شوال المکرم ۱۳۸۳ ؁ ھ مطابق جنوری ۱۹۶۳؁ کو سند فراغت و دستار فضیلت سے نوازے گئے ۔والد گرامی کی نگاہ فیض سے خوب خوب فیضیاب ہوے جو کہ علم و حکمت زہد و ورع ،تقوی و طہارت ،حلم و بردباری ،توکل و قناعت ،صداقت و شرافت ،بصیرت و بصارت ،قیادت و سیادت کا چمکتا آفتاب تھے اور محد ث اعظم ہند کے لقب سے جانے اور مانے گئے۔
حضور شیخ الاسلام آپ ہی کا پرتو اور آئینہ ہیں ۔سنجیدگی او رمتانت ،تحمل و بردباری ،دور اندیشی اور نباضی کے علاوہ بقول ڈاکٹر اقبال   ؎
نگہ بلند سخن دلنواز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
آپ نے سب کچھ پایا اور جانشین محد ث اعظم بن کر کاروان محدث اعظم ہند کے امیر کارواں بن گئے۔سر بلندی و سرفرازی کے آثار پہلے ہی سے نمایاں تھے ۔   ؎ 
بالائے سرش ز ہوشمندی
می تافت ستارئہ سر بلندی
میدان تصنیف و تقریر کے تو آپ شہ سوار ہیں ،آپکی تصا نیف علماء قدر کی نگا ہ سے استفادہ کرتے ہیں ۔امت مسلمہ کی اصلاح فکر و اعتقاد کا عزم مصمم فرماکر میدان خطابت کو آپنے منتخب فرمایا تاکہ عوام وخواص میں سے ہر فرد فیضیاب ہو سکے اس طرح آپکے فیضان خطا بت کا دریا جاری ہوا۔
ارباب علم و دانش صاحبان فکر و فن سے یہ امر مخفی نہیں کہ قوم و ملت کی ہدایت کے لیے سمت و جہت کا تعین کتنا دشوار ہے ۔مگر شیخ الاسلا م نے علم و حکمت ،فہم و فراست دوربینی سے ہر وہ انداز بیا ں کو اپنایا جو عوام و خواص کو متاثر کرے ۔اس طرح اپنی خدادا د صلاحیتوں سے افرا د ملت کے قلوب فیضیاب کرتے رہے۔امریکہ،برطانیہ،ہالینڈ ،کینیڈا بلکہ ساری دنیا کا گوشہ گوشہ آپکے خطبات سے مستفیض ہوتا رہا۔ 
عشق مصطفی کا چراغ ،اہلبیت عظام کی عقیدت ومحبت کی قندیل لوگوں کے دل میں روشن فرمائی،عالم انسانیت کو صاف و شفاف افکار و اعمال ،تہذیب و تمدن کا سلیقہ عطا فرمایا،جذبئہ اخوت کو جگا یا ،مرور ایام کے طوفانوں کے اثر کو یکسر مسترد کرکے   ؎
نہ ہو ماحول سے مایوس دنیا خود بنا اپنی  
نئی کشتی نئی آندھی نیا طوفاں پیداکر
کے اپنی دنیا آپ بنائی ۔محافل خطبات میں مسلک حقہ مسلک اہلسنت کو قرآن و احادیث اکابرین اسلام کے اقوال و افعال کی روشنی میں اس قدر احسن انداز سے توضیح و تشریح فرماتے کہ سامعین پر وجدانی کیفیت سا سماں بندھ جاتا ۔علماء کرام کی جماعت آپکے علمی نکات سے عش عش کر اٹھتی ،مشکل سے مشکل اصطلاحات کو آسان سے آسان تر بنا دینا آپکا خاصہ ہے۔دلائل و براہین کی روشنی میں باطل عقائد و افکار کا رد اس طرح دلکش انداز میں فرماتے کہ ارباب عدل و انصاف کے لیے انکار کی گنجائش نہ رہتی۔آپکی خطبات کا جاری چشمہ سر زمین کرناٹک کے مختلف علاقوں میں بھی ہر خاص و عام کو فیضیاب کر رہا ہے۔
خصوصاً بنگلور ،میسور ،بلاری ہاسپیٹ۔ہبلی دھارواڑ ، ہری ہر داونگیرہ، شیگائوں قابل ذکر ہیں۔شہر ہبلی میں علم و حکمت کا بہتا چشمہ  مرکزی ادارہ بنام ـ’’مدنی میاں عربک کالج ‘‘ شہر ہبلی اور اسکے مضافات بلکہ ہندستان و بیرون ہندستان کے گوشہ گوشہ سے آنے والے تشنگان علوم کو سیراب کر رہا ہے۔داونگیرہ و دیگر شہروں میں خانقاہیں علم و عرفان کے جام پلا رہے ہیں۔
خدا کرے مدنی فیضان کو دوام عطا ہو ۔ قلم میں اتنی جرا ت کہاں کہ شیخ الاسلام کی شخصیت اور آپکے کارناموں کا احاطہ کر سکے   ؎  
چہ نسبت خاک ر ابا عالم پاک 
جو کچھ نوک قلم پر آئے آپکی شخصیت اس سے ورا ء ہے، زندہ قومیں اپنے محسن کی مرہون منت ہوتی ہیں اور اسکی یادیں حرز جاں بن جاتی ہیں۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!