اسلام

کسی کا بوجھ اٹھانے کی صورتیں اوران کی پہچان

     الف: جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں کوئی کسی کا بو جھ نہیں اٹھائے گا اس کامطلب ہے کہ بخوشی نہ اٹھائے گا یا اس طر ح نہ اٹھائے گا جس سے مجرم آزاد ہوجائے گا ۔
     ب: جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں بعض لوگ بعض کابوجھ اٹھائیں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً اٹھائیں گے یا یہ بھی اٹھائیں گے اور مجرم بھی
یہ تو اٹھائیں گے گناہ کرانے کی وجہ سے اور مجرم بوجھ اٹھائے گا گناہ کرنے کی وجہ سے ۔
”الف”کی مثال یہ آیت ہے :
    (1) وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیۡہَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی
اور نہ کمائے گا کوئی نفس مگر اپنے ذمہ پر اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی ۔(پ8،الانعام:164)
(2) اِنْ اَحْسَنۡتُمْ اَحْسَنۡتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ ۟ وَ اِنْ اَسَاۡتُمْ فَلَہَا
اگر تم بھلائی کرو گے تو اپنے لئے بھلائی کرو گے اور اگر بر اکروگے تو اپنا ۔(پ15، بنیۤ ا سرآء یل:7)
(3) مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفْسِہٖ ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا
جو راہ پر آیا وہ اپنے ہی بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا وہ اپنے ہی برے کوبہکا۔(پ15، بنیۤ اسرآء یل:15)
(4) وَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ؕ وَمَا ہُمۡ بِحَامِلِیۡنَ مِنْ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۲﴾
او رکافر مسلمانوں سے بولے ہماری راہ پر چلو اور ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ نہ اٹھائیں گے بے شک وہ جھوٹے ہیں۔(پ20،العنکبوت:12)
(5) لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمۡ مَّا کَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ ﴿۱۳۴﴾
اس جماعت کے لئے وہ ہے جو وہ خود کماگئی تمہارے لئے تمہاری کمائی ہے اور تم ان کے اعمال سے نہ پوچھے جاؤگے ۔(پ1،البقرۃ:134)      ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ کسی کی پکڑ دوسرے کی وجہ سے نہ ہوگی اورکوئی کسی کا نہ گناہ اٹھائے نہ نیکی سے فائدہ پائے بلکہ اپنی کرنی اپنی بھرنی ہے ۔
” ب” کی مثال یہ ہے:
(1) وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ ۫ وَ لَیُسْـَٔلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوۡا یَفْتَرُوۡنَ ﴿٪۱۳﴾
اوربے شک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اوراپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اور ضرور قیامت کے دن پوچھے جائیں گے جو کچھ بہتان اٹھاتے تھے۔(پ9،الانفال:25)
(2) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَ اَہۡلِیۡکُمْ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ  ۔
اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔(پ28،التحریم:6)
(3) وَاتَّقُوۡا فِتْنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمْ خَآصَّۃً ۚ وَاعْلَمُوۡۤا اَنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الْعِقَابِ ﴿۲۵﴾
اور اس فتنہ سے ڈرتے رہو جو ہرگز تم میں سے خاص ظالموں کو ہی نہ پہنچے گا ، اور جان لو کہ اللہ کاعذاب سخت ہے ۔
(4)وَلَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ
تم قرآن کے پہلے کافر نہ بنو۔(پ1،البقرۃ:41)
    ان آیات سے معلوم ہو اکہ قیامت میں بعض گنہگار دوسرے مجرموں کا بھی بوجھ اٹھائیں گے اوریہ بھی پتا لگا کہ بعض کے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں بھی دوسروں پر مصیبت آجاتی ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی نجات کے لئے اپنے گھر والوں کو ہدایت
دینا ضروری ہے۔ مطابقت اسی طر ح ہوگی جو ہم نے عرض کردیا کہ بخوشی کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور کوئی دوسرے کا بوجھ اس طر ح نہ اٹھائے گا کہ اصلی مجرم بالکل آزاد ہوجائے ہاں گمراہ کرانے والا بری باتوں کا موجد سارے مجرموں کا بوجھ اٹھائے گا یہ ضرور خیال رکھنا چاہیے ۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!