اسلام
دُعاء میں پانچ سعادتیں
دُعاء میں پانچ سعادتیں
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے!دُعاء رائِگاں تَوجاتی ہی نہیں۔ اِس کا دُنیا میں اگر اثر ظاہِر نہ بھی ہو تَو آخِرت میں اَجْر و ثواب مِل ہی جائے گا ۔ لہٰذا دُعاء میں سُستی کرنا مُناسِب نہیں۔
پہلا فائِدہ یہ ہے کہ ا للہ عَزَّوَجَلَّ کے حُکم کی پَیروی ہوتی ہے کہ اُ س کا حُکْم ہے مجھ سے دُعاء مانگا کرو۔جیسا کہ قُراٰنِ پاک میں ارشاد ہے:
ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ
ترجَمہ کنزالایمان: مجھ سے دُعاء کرو میں قَبول کروں گا۔ ( پ ۲۴ مؤ مِن ۶۰)
دُعاء مانگنا سُنَّت ہے کہ ہمارے پیارے پیارے آقا مکّی مَدَنی مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اکثر اَوقات دُعاء مانگتے ۔لہٰذا دُعاء مانگنے میں اِتّباعِ سُنَّت کا بھی شَرَف حاصِل ہوگا۔
دُعاء مانگنے میں اِطاعَتِ رَسُول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دُعاء کی اپنے غُلاموں کو تاکِید فرماتے رہتے ۔
دُعاء مانگنے والا عابِدوں کے زُمْرہ (یعنی گُروہ)میں داخِل ہوتا ہے کہ دُعاء بَذاتِ خود ایک عِبادَت بلکہ عِبادَت کا بھی مَغز ہے۔جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے-:
اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ۔(جامع تِرمذِی ج۵ص۲۴۳حدیث۳۳۸۲)
ترجَمہ:دُعاء عِبادَت کا مَغْز ہے ۔
دُعاء مانگنے سے یا تو اُس کا گُناہ مُعاف کیا جاتا ہے یا دُنیا ہی میں اُس کے مسائِل حل ہوتے ہیں یا پھر وہ دُعاء اُس کے لئے آخِرت کا ذَخِیرہ بن جاتی ہے۔