واقعات

عالِمِ ربَّانی

حکایت نمبر326: عالِمِ ربَّانی

حضرتِ سیِّدُنا عبدالجبَّار بن عبدالعزیز بن ابوحَازِم علیہم الرحمۃ ا پنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ” ایک مرتبہ خلیفہ سلیمان بن عبد المَلِک مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً میں تین دن ٹھہرا اور لوگو ں سے کہا:” کیا یہاں کوئی ایسا شخص ہے جس نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی زیارت کی ہو ، ہم اس سے حدیث سننا چاہتے ہیں ؟”اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک جلیل القدر تابعی بزرگ حضرت سیِّدُنا ابوحَازِم علیہ رحمۃ اللہ الناصر رہتے ہیں۔ چنانچہ، انہیں بلایا گیا ،جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تشریف لائے تو خلیفہ نے کہا: ”اے ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الناصر! آخر اتنی بے وفائی کیوں ؟” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”آپ نے مجھ میں کون سی بے وفائی دیکھی ہے ؟”
خلیفہ نے کہا: ”مدینۂ منورہ کے تمامِ علماء ومُعَزَّز ین میرے پاس آئے لیکن آپ نہیں آئے؟” فرمایا: ” میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتا ہوں کہ آپ ایسی بات کہیں جو سرے سے ہی نہ ہو، میرے اور آپ کے درمیان پہلے واقفیت ہی نہ تھی کہ جس کی وجہ سے میں یہاں آتا ، پھر بے وفائی کا الزام کیوں ؟”خلیفہ نے کہا:” بے شک آپ نے سچ وحق بات کہی: اچھا یہ بتایئے کہ ہم موت کو

کیوں ناپسند کرتے ہیں؟” فرمایا :” اس لئے کہ تم لوگو ں نے اپنی آخرت برباد کرڈالی ہے اور دنیا میں خوب عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہو ، اب تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ عیش وعشرت کے گھر کو چھوڑ کر عذاب والی جگہ جائیں۔”خلیفہ نے کہا :” آپ نے حق فرمایا۔” اچھا یہ بتائیے کہ” اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضری کی کیا کیفیت ہوگی ؟” فرمایا : ”نیک لوگ تو اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ایسے جائیں گے جیسے بر سوں کا بچھڑا ہوا اپنے اہل وعیال کی طرف خوشی خوشی جاتا ہے۔ جبکہ گناہ گارو نافرمان اس طر ح ہوں گے جیسے بھاگے ہوئے غلام کو واپس اس کے مالک کے پاس لایا جارہا ہو۔”
یہ سن کر خلیفہ سلیمان نے روتے ہوئے کہا :” اے کاش! مجھے معلوم ہوجاتا کہ ہمارے لئے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کے ہاں کیا کچھ ہے؟” فرمایا:” اپنے آپ کو کتاب اللہ پر پیش کرو، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہارے لئے کیا کچھ ہے۔ ”خلیفہ نے کہا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پاکیزہ کتاب میں کس مقام پر یہ باتیں تلاش کروں ؟ ‘ ‘ فرمایا:” دیکھو! اللہ عَزَّوَجَلَّ نیکوں اور بدوں کے اُخروی مقامات کا واضح بیان فرمارہا ہے:

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیۡ نَعِیۡمٍ ﴿ۚ13﴾ وَ اِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیۡ جَحِیۡمٍ ﴿ۚ14﴾

ترجمۂ کنزالایمان :بے شک نِکوکارضرورچین میں ہیں اوربے شک بدکارضروردوزخ میں ہیں۔ (پ30،الانفطار:13۔14)
خلیفہ نے پوچھا :” اے ابو حَازِم ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت کہاں ہے ؟” فرمایا: اس کی رحمت محسنین کے قریب ہے ۔ ”خلیفہ نے کہا:” لوگو ں میں سب سے زیادہ سمجھ دار کون ہے ؟”فرمایا:”جس نے علم وحکمت کی باتیں سیکھیں اوردوسروں کوسکھائیں۔” خلیفہ نے پوچھا :” لوگوں میں بے وقوف ترین شخص کو ن ہے ؟ ”فرمایا:” جو ظالم کی پیروی میں لگا ،ظالم کی ہاں میں ہاں ملائی او راس کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت داؤ پر لگادی۔” خلیفہ نے کہا:اچھا یہ بتائیے کہ مقبول ترین دعا کون سی ہے ؟” فرمایا:” مُتَوَاضِعِیْن(یعنی عاجز ی کرنے والوں) کی دعا۔” خلیفہ نے کہا:” اے ابو حَازِم! سب سے بہترین صدقہ کیا ہے ؟ ”فرمایا:” تنگدست ومحتاج کی مدد کرنا۔” خلیفہ نے کہا: ” حضور !یہ بتائیے کہ جس حالت میں ہم ہیں اس کے بار ے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟” فرمایا:” اس معاملے میں مجھے معافی دو۔”
سلیمان نے کہا:” اچھا! مجھے کچھ نصیحت فرمائیے ۔”فرمایا :” بے شک حکمرانوں نے ظلم وزیادتی کر کے مسلمانوں کی رائے کے بغیر من مانی کرتے ہوئے خلافت حاصل کی ، بے وفادنیا کے حصول کے لئے بے گناہوں کا بے دریغ خون بہایا پھر کفِ افسوس ملتے ہوئے حکومت ومملکت کو چھوڑ کر آخرت کی طرف کوچ کر گئے ۔اے کاش! مجھے معلوم ہوتا کہ ان سے وہاں کیا کیا پوچھا گیا اور انہوں نے کیا جواب دیا؟ اب وہ اپنی کرنی کا پھل بھگت رہے ہوں گے ۔” یہ سن کر کسی خوشامدی درباری نے کہا :” اے شیخ! یہ آپ نے بہت بری بات کی۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” تو نے جھوٹ کہا، میں نے وہی کیا جو مجھ پر لازم تھا ، بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے علماء کرام سے عہد لیا ہے کہ وہ لوگو ں کے سامنے دین ظاہر کریں گے اور کچھ بھی نہیں چھپائیں گے۔” خلیفہ سلیمان نے کہا:” اے

ابو حَازِم! کیا ہماری اصلاح کی کوئی صورت ہے ؟” فرمایا :” ہاں ! تم لوگ تکلُّفات اور ریا کاری کو چھوڑ کر مروت واخلاص کو اپنالو۔” خلیفہ نے کہا: ” اس کی کیا صورت ہے ؟” فرمایا: ” جن سے لینے کا حق ہے ان سے لو او رمستحقین کو ان کا حق دو۔”
خلیفہ نے کہا:”اے محترم !آپ ہمارے ہاں قیام فرمائیں تاکہ ہم آپ سے مستفیض ہوں۔” آپ نے فرمایا:” میں اس بات سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتا ہوں ۔” خلیفہ نے کہا:” آپ ہم سے دور کیوں رہنا چاہتے ہیں؟” فر مایا:” اگر میں تمہارے ساتھ رہوں تو اندیشہ ہے کہ کسی معاملے میں تمہاری طر ف مائل ہوجاؤں، شاہی عیش وعشرت سے کچھ فائدہ اٹھا لوں اور اس طرح اپنی دنیا وآخرت بر باد کر بیٹھوں لہٰذا دُوری ہی میں عافیت ہے۔” خلیفہ نے کہا: ”مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔” فرمایا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ سے خوف کر اورجس جگہ جانے سے اس نے روکاہے وہاں ہر گز نہ جا۔ اورایسی جگہ سے ہر گز غیر حاضر نہ رہ جہاں حاضر رہنے کا اس پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے تجھے حکم دیا ہے۔” خلیفہ نے کہا:” اے ابو حَازِم! ہمارے لئے دعا کیجئے۔” فرمایا: ”ہاں! میں دعا کرتا ہوں، ”اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اگر سلیمان تیرا پسندیدہ بندہ ہے تو اس کے لئے خیر کی راہ آسان فرمادے اور اگر یہ تیرے دشمنوں میں سے ہے تو اسے پیشانی سے پکڑکر خیر کی راہ پر ڈال دے۔”
جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دعا سے فارغ ہوئے تو خلیفہ نے ایک ہزار دینار آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے عرض کی: ” حضور! یہ حقیر سا نذرانہ قبول فرمائیں۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :” مجھے ان کی کوئی حاجت نہیں ، میرے علاوہ اس مال کے اور بھی بہت سے حق دارہوں گے۔ میں ڈرتا ہوں کہ یہ مال میری اس نیکی کی دعوت کا بدلہ نہ ہوجائے جو میں نے تجھے دی۔ میں نے یہ تمام باتیں رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے کیں اور اسی سے اجر کا طلبگار ہوں، دنیا والوں سے ہر گز بدلہ نہیں چاہتا۔ جیساکہ حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام جب فرعون کے ملک سے مدین کی طر ف تشریف لے گئے تو ایک کنوئیں کے قریب بیٹھ گئے وہاں دو لڑکیاں اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے کھڑی تھیں ، آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا:” کیا کوئی مرد نہیں ہے کہ تم پانی پلا رہی ہو ؟” کہا:” نہیں۔” یہ سن کر آپ علیہ السلام نے انہیں پانی بھر کر دیا اور پھر ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ کر بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طر ح عرض گزار ہو ئے : ” رَبِّ اِنِّی لِمَاۤ اَنۡزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿24﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اے میرے رب !میں اس کھانے کاجوتومیرے لئے اُتارے محتاج ہوں۔”(پ۲۰، القصص:۲۴) اے خلیفہ !دیکھ! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبئ بر حق نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے دِین کے بدلے کوئی دنیوی شئے نہ مانگی۔ جب وہ دونوں صاحبزادیا ں اپنے والد حضرت سیِّدُنا شُعَیْب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام کے پاس گئیں تو آپ علیہ السلام نے پوچھا:” میری بیٹیو! آج تم خلافِ معمول جلدی کیوں آگئیں؟” عرض کی :”اباحضور!آج ایک مردِ صالح نے ہمارے جانوروں کو پانی پلادیااسی لئے ہم جلدی آگئیں۔” آ پ علیہ السلام نے فرمایا:” کیا تم نے اسے کچھ کہتے ہوئے سنا۔” عرض کی:” ہاں! وہ نوجوان اس طر ح مُلْتَجِی (التجاکررہا)تھا:

رَبِّ اِنِّی لِمَاۤ اَنۡزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿24﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اے میرے رب میں اس کھانے کاجوتومیرے لئے اتارے محتاج ہوں۔(پ20،القصص:24)
حضرتِ سیِّدُناشُعَیْب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام نے فرمایا:” وہ نوجوان ضرور بھوکا ہوگا ، تم میں سے کوئی ایک جائے اور اس نوجوان سے جاکر کہے:” بے شک میرا والد آپ کو بلاتا ہے تا کہ جو بھلائی آپ نے ہمارے ساتھ کی اور ہمارے جانوروں کو پانی پلایا آپ کو اس کا بدلہ عطا فرمائے ۔” جب صاحبزادی نے حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام کو اپنے والد کا پیغام دیا تو آپ علیہ السلام زار وقطار رونے لگے ، آپ علیہ السلام اس صحرائی علاقے میں اجنبی ومسافر تھے ، کئی دنوں سے کھانا نہ کھایا تھا ، آپ علیہ السلام ان کے پیچھے پیچھے ان کے گھر کی جانب چل دئیے ۔ تیز ہواکی وجہ سے ان کے کپڑے اڑنے لگے توآپ علیہ السلام نے فرمایا: ” اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! تو میرے پیچھے چل ۔” جب آپ علیہ السلام حضرتِ سیِّدُنا شُعَیْب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام کے پاس پہنچے توانہوں نے کھانا پیش کرتے ہوئے فرمایا:” اے نوجوان ! کھانا کھالیجئے۔” حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃو السلام نے فرمایا:” میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتاہوں۔” پوچھا:” آپ کھانے سے کیوں انکار کررہے ہیں ؟” فرمایا: ” ہمارا تعلق ایسے خاندان سے ہے اگر ہماری لئے ساری زمین کو سونے سے بھر دیا جائے تو پھر بھی ہم اپنا دِین نہیں بیچیں گے۔” حضرتِ سیِّدُنا شُعَیْب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے فرمایا:” خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! ایسا ہر گز نہیں کہ ہم آپ کی نیکی خرید رہے ہیں، بلکہ ہم نے تو بطور ضیافت یہ کھانا پیش کیا ہے اور مہمانوں کو کھانا کھلانا ہمارے آباء واجداد کا طریقہ رہا ہے ، آپ بلا جھجک کھاناتناول فرمائیں۔” پھر آپ علیہ السلام نے کھانا تناول فرمایا۔
اے خلیفہ سلیمان بن عبد المَلِک! اگر آپ کی یہ دنیا میر ی نیکی کی دعوت کا بدلہ ہے تو حالتِ اضطرار میں مردارکا گوشت کھا لینا مجھے ان دیناروں کے لینے سے زیادہ پسند ہے ۔” خلیفہ اس بزرگ کی شانِ بے نیازی دیکھ کر بہت متعجب ہوا ۔زُہْرِی نے کہا :” ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم میرے پڑوسی ہیں تیس سال کا طویل عرصہ گزرگیا لیکن میں ان سے کلام کرنے کاشرف حاصل نہ کر سکا۔” حضرتِ سیِّدُنا ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے فرمایا :” تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو بھول گیا تو نے مجھے بھی بھلادیا ۔اگر تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں کامل ہوتا تو مجھ سے ضرور محبت کرتا۔” زُہْرِی نے کہا :” کیا آپ مجھے برا بھلا کہہ رہے ہیں؟”خلیفہ سلیمان نے کہا:”اے زُہْرِی !انہوں نے تجھے برا بھلا نہیں کہا بلکہ تو نے خود اپنے آپ کو برا بھلا کہاہے ۔ کیا تو پڑوسی کے حقوق سے آگاہ نہ تھا؟” پھر حضرتِ سیِّدُنا ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الناصر نے فرمایا:” بنی اسرائیل اس وقت تک سیدھی راہ پرگامزن رہے جب تک امراء وسلاطین، علماء کی بارگاہ میں حاضری دیتے رہے ۔ وہ علماءِ رَبَّا نِیِّیْن اپنے دِین کی وجہ سے دربارِ سلاطین سے دور بھاگتے تھے۔ پھر بھی حکمران وامراء علماء کی بارگاہ میں حاضر ہوتے۔ جب ذلیل لوگوں نے علماء کرام کی عزت وتوقیر دیکھی تو انہوں نے بھی علم

حاصل کیا پھر دین کو لے کر بادشاہوں کے درباروں میں جانے لگے اس طرح ان امراء وسلاطین نے علماء رَبَّا نِیِّیْن کو چھوڑ دیاپھر وہ قوم گناہوں پر جمع ہوگئی تو ان کی عزت جاتی رہی اور تنگدستی ومفلسی ان کا مقدر بن گئی ۔اگر علماء اپنے دین کی حفاظت کرتے اور لالچ کرتے ہوئے اسے بادشاہوں کے دربار میں نہ لے جاتے تو سلاطین وامراء سر کش وباغی نہ ہوتے ۔”
زُہْرِی نے کہا :” اے ابو حَازِم! ایسا لگتا ہے کہ تم یہ ساری باتیں مجھے سنانے کے لئے کہہ رہے ہو اور مجھے طعنہ دے رہے ہو۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”میں ہرگز تمہاری بے عزتی نہیں کررہا لیکن حقیقت وہی ہے جو تم نے سنی۔” اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دربار سے واپس چلے آئے۔
راوی کا بیان ہے کہ جب ہِشَام بن عبد المَلِک مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً آیا تو اس نے حضرتِ سیِّدُنا ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الناصر کو اپنے پاس بلایا اور کہا:” مجھے کچھ نصیحت کیجئے ۔” فرمایا:” اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر ، دنیا سے بے رغبتی اختیار کر، بے شک اس کی حلال اشیاء کا حساب اور حرام پر عذاب ہوگا۔”ہِشَام نے کہا:” اے ابو حَازِم علیہ رحمۃ اللہ الناصر! آپ نے مختصر مگر بہت جامع نصیحت کی۔” اچھا یہ بتائیے کہ آپ کا سر مایہ کیا ہے؟” فرمایا:” اللہ عَزَّوَجَلَّ پر پختہ یقین رکھنا اور اس چیز سے ناامید رہنا جو لوگوں کے پاس ہے ۔”کہا :” آپ اپنی کوئی حاجت خلیفہ سے کہنا چاہیں تو کہیں۔” فرمایا:” افسوس صد افسوس ! سنو! میں اپنی حاجتیں اسی پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں جس کے علاوہ کو ئی اور حاجتیں پوری نہیں کرتا۔ پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ سے مجھے جو عطا ہوتا ہے اسی پر قناعت کرتا ہو۔ اور جو چیز مجھ سے روک لی جاتی ہے اس پر صبر و شکر کرتا ہوں ۔میں نے کسب اورمال و دولت کے معاملے میں غور کیا تو میرے سامنے دو باتیں واضح ہوئیں ۔
پہلی یہ کہ جو چیز میرے مقدر میں ہے وہ ضرور بالضرور مجھے مل کر رہے گی اور اپنے وقت پر ہی ملے گی وقت سے قبل ہر گز نہیں مل سکتی چاہے میں ایڑی چوٹی کازور لگا لوں۔ اور جو چیز میرے علاوہ کسی اور کے مقدر میں ہے ، وہ مجھے کبھی بھی نہیں مل سکتی ۔ جس طرح مجھے کسی اور کا رزق نہیں مل سکتا اسی طرح کسی اور کو بھی میرے حصے کا رزق ہر گز ہرگز نہیں مل سکتا ، میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاکت وپریشانی میں کیوں ڈالوں۔ وہ خالقِ کائنات عَزَّوَجَلَّ سب کو رزق دینے والا ہے ،مجھے اسی کی ذات کافی ہے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عظیم وکامیاب لوگ کبھی بھی اپنے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ دنیوی مال ودولت کی خاطر ہرگز اپنا سر مایۂ ایمان وعلم داؤ پر نہیں لگاتے۔ بھوک پیاس، تنگدستی اورلوگو ں کی طرف سے کی جانے والی ظلم وزیادتی سب برداشت کرلیتے ہیں لیکن کبھی بھی حالات سے مجبور ہوکر دنیا کی حقیر دولت کے بدلے اپنے علم وعمل کا سودا نہیں کرتے۔ ایسے باہمت بامُرَوَّت اور خوددار لوگ ہی در حقیقت لوگوں کے سالار و رہنما ہوئے ہیں۔)
؎ شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُردم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ اُفتاد

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!