اسلام
۔۔۔۔۔مفعول بہ کا بیان۔۔۔۔۔
مفعول بہ کی تعریف:
وہ اسم جس پر فاعل کا فعل واقع ہو۔ جیسے: ضَرَبْتُ زَیْداً (میں نے زیدکو مارا) ۔
مفعول بہ کی اقسام
اس کی دو قسمیں ہیں: ۱۔صریح. ۲۔غیر صریح.
۱۔صریح کی تعریف:
وہ اسم جو بغیر تاویل کے اور بلاواسطہ حرفِ جر مفعول بہ واقع ہو۔ جیسے: أَکَلْتُ خُبْزاً، رَأَیْتُہ،۔
۲۔غیر صریح کی تعریف:
وہ اسم جوبتاویل یابواسطہ حرف ِجر مفعول بہ واقع ہو۔اس کی چند صورتیں ہیں:
۱۔ جملہ مفرد کی تاویل میں ہوکر مفعول بہ بنے ۔جیسے: عَلِمْتُ أَنَّکَ عَالِمٌ۔
۲۔ جملہ مصدر کی تاویل میں ہو کر مفعول بہ بنے۔ جیسے: زَعَمْتُ أَنْ تَفُوْزَ۔
۳۔ کوئی اسم حرف ِجر کے واسطے سے مفعول بن رہا ہو۔ جیسے: (اَنعَمۡتَ عَلَیۡہِم) ۔
فائدہ:
۱۔مفعول صریح وغیر صریح بعض اوقات ایک ہی جملے میں اکٹھے آجاتے ہیں۔ جیسے: (أَدُّوْا الْأَمَانَاتِ اِلٰی أَھْلِھَا ) اس میں أَمَانَاتِ مفعول بہ صریح اورأَھْلِھَا مفعول بہ غیر صریح ہے ۔
۲۔ایک فعل کے ایک سے زائد مفعول بہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ جیسے: أَعْطَیْتُ زَیْداً
دِرْھَماً، أَعْلَمْتُ زَیْداً بَکْراً فَاضِلاً۔
۳۔جس فعل کے دویا تین مفعول ہوں اسے مجہول بنانے کی صورت میں پہلے مفعول کو نائب الفاعل اورباقی کو مفعول بہ بنایا جاتاہے۔ جیسے: أُعْطِیَ زَیْدٌ دِرْھَماً، أُعْلِمَ زَیْدٌ بَکْراً فَاضِلاً۔
مفعول بہ کی تقدیم:
اصل یہ ہے کہ مفعول بہ ،فعل اور فاعل کے بعد آئے ۔ مگر کبھی یہ فاعل سے اورکبھی فعل سے بھی پہلے آجاتاہے۔ جیسے: ضَرَبَ عَمْروًا زَیْدٌ اور زَیْداً ضَرَبْتُ۔ البتہ درج ذیل صورتوں میں اسے فاعل پر مقدم کرنا واجب ہے:
۱۔ جب فاعل کے ساتھ ایسی ضمیر متصل ہو جو مفعول بہ کی طرف لوٹ رہی ہو۔ جیسے : (اِبْتَلٰی اِبْرَاھِیْمَ رَبُّہٗ) (ابراہیم کو ان کے رب نے آزمایا)
۲۔ جب مفعول بہ ضمیر متصل اور فاعل اسم ظاہرہو۔ جیسے: ضَرَبَنِیْ زَیْدٌ ۔ ۳۔ جب مفعول بہ ایسا کلمہ ہو جسے کلام کی ابتداء میں لانا ضروری ہو ۔مثلاً استفہام اور شرط۔ جیسے: مَنْ رَأَیتَ؟ مَنْ تُکْرِمْ یُکْرِمْکَ (جس کی تو عزت کریگاوہ تیری عزت کریگا)۔
مفعول بہ کے فعل کاحذف:
مفعول بہ کے فعلِ عامل کو کبھی جوازاً اورکبھی وجوبا ًحذف کردیا جاتاہے۔
جوازاً حذف کی صورت:
جب فعل محذوف پر قرینہ موجود ہومگراس کاقائم مقام نہ پایاجائے تواس کا حذف جوازی ہوتاہے۔ جیسے :کوئی کہے : مَنْ ضَرَبْتَ؟ تو جواب میں کہاجائے :زَیْداً۔ یہاں زَیْداًسے پہلے ضَرَبْتُ فعل محذوف ہے اور اس پر قرینہ سائل کا سوال ہے ؛کیونکہ جوچیز سوال میں مذکور ہوتی ہے وہ جواب میں بھی ملحوظ ہوتی ہے۔
وجوباً حذف کی صورت:
اس کی تین صورتیں ہیں: ۱۔مُنَادٰی ۲۔اِغْرَاء وَتَحْذِیْر ۳۔مَا أُضْمِرَ عَامِلُہُ عَلٰی شَرِیْطَۃِ التَفْسِیْر۔
ان سب کا تفصیلی بیان آئندہ اسباق میں آئے گا۔ اِنْ شَاءَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ۔