اسلام

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کے حسب الحکم جاری کردہ اہم فتاویٰ

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
کے حسب الحکم جاری کردہ اہم فتاویٰ

بقلم : تلمیذ شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ،
مفتی اول جامعہ نظامیہ حیدرآباد، دکن

حضرت عارف باللہ مولانا محمد انواراللہ خان بہادر فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کے حسب الحکم اشاعت العلوم سے ’’فتاویٰ نظامیہ‘‘ تین جلدوں میں شائع کروائے گئے تھے ، ان فتاویٰ میں ان تمام امورپر تفصیل سے بحث کی گئی ہے جو آج کل عام مسلمانوں میں ایک ذہنی انتشار کا موجب بن گئے ہیں، ہر دور میں ان سوالات کو عوام میں پھیلاکر ان کو اہل سنت والجماعت کے زمرہ سے نکال لے جانے کی مذموم کوشش کی جاتی رہی ، مگر اس میں ان کو کسی وقت بھی کامیابی نہیں ہوئی ، اس دفعہ بھی اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مشترکہ مہم چلائی گئی ، او رمنظم طریقہ کار اختیار کیاگیا اور ہر طبقہ خیال کے مخصوص لوگوں کو شعوری اور غیر شعوری انداز میں اس مقصد کے لئے جمع کیا جاکر ہر جہت سے اقدام کیا گیا جسکی وجہ سے مسلمان کچھ نہ کچھ ضرور متاثر ہوئے اور اس تاثر میں بعض ایسی باتیں بھی موئد ہوگئیں جو بلاشبہ قابل بندش ہیں ، ان تمام باتوں کے پیش نظر ضرورت محسوس کی گئی کہ مطبوعہ فتاویٰ نظامیہ کے ان سوالات وجوابات کو بعینہاشائع کردیاجائے تاکہ اہل سنت وجماعت میں پیدا شدہ انتشار زائل ہوجائے یہ فتنہ پیداکرنے والے خود کو حنفی سنّی کے نام سے ظاہر کررہے ہیں ، حالانکہ جن عقائد وخیالات کی نشرواشاعت کی گئی زیادہ تر فرقہ خوارج وہابیہ کی ہے جنکے منجملہ عقائد کے یہ ہیکہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کا فرہے ، اور اہلِ قبرخواہ نبی ہو یاولی وہ عام مردوں کی طرح ہیںاپنی قبروں سے مچھر و مکھی کو تک دفع نہیں کر سکتے ان سے توسل و استعانت شرک ہے ایسا ہی میلاد شریف وفاتحہ ونذر ونیاز بدعت ہے ، یادرہے کہ یہ کوئی نیا فتنہ نہیں بلکہ اس فرقہ نے بارہویں صدی میں اہل حرمین شریفین اور دیگر مسلمانوں کا خون ناحق کیا اور ان پر بے حد ظلم ڈھائے ، ان کے کچھ ظلم علاّمہ شامیؒ نے بیان کیا ہے جسکی تفصیل آخری فتویٰ میں موجود ہے اور سیف الجبار وغیرہ تاریخ کی کتابوں میں ان کے بے شمار ظلم بیان کئے گئے ہیں انہوںنے حرمین میں بے گناہ مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا اور انکی عورتوں اور لڑکیوں سے زنا کیا اور بہت سے سادات کو قتل کیا۔ مسجدِ نبوی کے قالین وفانوس نجد لے گئے اور تمام صحابہ کرام کی قبروں کو گر اکر زمین سے ملا دیا اس فرقہ کی نسبت جو پیشن گوئی حضوراکرم ﷺ نے فرمائی ہے اسکو صراحت کے ساتھ خوارج کے باب میں حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انواراللہ فاروقی نوراللہ مرقدہ نے اپنی کتاب ’’انوار احمدی‘‘ میں ذکرفرمایا ہے اس میں مولانا ممدوح نے احادیث صحیحہ سے ثابت کیا ہے کہ یہ فرقہ نجد سے نکلے گا اور ان کی یہ علامت ہے کہ سرمنڈایا کریں گے اور نجدکے تعلق سے فرمایا کہ وہاں زلزلے اور فتنے ہونگے ، وہاں شیطان کا سینگ (گروہ) نکلے گا وہ قرآن پڑھیں گے مگران کے حلق سے نیچے نہ اتر یگا جب یہ سینگ کاٹاجائیگا پھر نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ انکی آخری جماعت دجال کے ساتھ نکلے گی یہ بت پرستوں کو چھوڑیں گے اور مسلمانوں کو قتل کرینگے ۔ 
بخاری شریف، مسلم شریف،اور مشکوٰۃ شریف، باب المعجزات میں بھی یہی مذکور ہے زیر بحث مسائل صرف فتاویٰ نظامیہ کے تین جلدوں سے نقل کئے گئے ہیں ورنہ ہر مسئلہ سے متعلق مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں جو ’’دفتر اشاعۃ العلوم‘‘ جامعہ نظامیہ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
(۱)الاسـتـفتاء 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میںکہ ایک کتاب میں لکھا ہواہے کہ جو شخص بکرا محبوب سبحانیؓ یا اور کوئی ولی کی نیازکے واسطے خریدا وہ حرام ہوگیا اور اس کی مثال میں لکھا ہے کہ کتے کو اگر بسم اللہ پڑھکر کاٹیں تو حلال نہیں ہوتا ہے اسی طرح اگر اللہ کے سوا کسی ولی کی نیازکے واسطے خرید کر کاٹیں تو حلال نہیں ہوتا یہ بات کہا ں تک درست ہے؟
الجواب
مذبوحہ جانور کے متعلق شرعاً ذبح کے وقت کی نیت کا لحاظ واعتبار کیا گیاہے فتاویٰ ردالمحتار کے جلد(۵)ص۲۰۳میں ہے، واعلم ان المدار علی القصد عند ابتدأ الذبح :بنابریں اگر کوئی شخص جانورکو اس نیت سے ذبح کرے اس کی جان فلاں بزرگ کے لئے لیتاہوں اور ان بزرگ کو ازروئے تعظیم اسطرح جان قربان  کئے جانے کا مستحق بھی جانتا ہے  تو ایسا ذبح کیا ہوا جانور اگرچہ وہ اللہ کا نام لیکر ذبح کیا جائے شرعاً حرام ہے درالمختار مطبوع برحاشیہ ردمحتار کے جلد(۵)ص۲۰۳ میں ہے (ذبح لقدوم الامیرو نحوہ ) کواحد من العظام (یحرم) لانہ اہل بہ لغیر اللہ (ولو)وصلیۃ (ذکراسم اللہ تعالی)اور اگر کوئی اس نیت سے ذبح کرے کہ اس جانور کی جان اللہ کے نام پر لی جاتی ہے اور وہی اس جان کے نثار وقربان کئے جانے کا مستحق ہے مگر اس جانور کا گوشت فلاں بزرگ کی نیاز وایصال ثواب میں صرف کیا جائیگا اس سے فلاں شخص کی دعوت وضیافت کی جائیگی یا اس سے ولیمہ ادا ہوگا یا اسے بیچ کر نفع اٹھا یا جائیگا اور بوقت ذبح اللہ کے نام کے سوا کسی کا نا م بھی نہ لے تو ایسا ذبح کیا ہو جانور شرعاً حلال ہے درمختار میں اسی جگہ (ولو)ذبح(للضیف لایحرم لانہ سنۃ الخلیل واکرام الضیف اکرام اللہ تعالی والفارق انہ ان قدمھا لیاکل کان الذبح للہ والمنفعۃ للضیف اوللولیمۃ وان لم یقدمھا لیأکل منھا بل ید فعھا لغیرہ کان لنعطیم غیراللہ فتحرم تفسیراحمدی مطبوعہ بمبئی کے ص۵۲میںہے،
ومن ہہنا علم ان البقرۃ للاولیاء کماھو الرسم فی زماننا حلال طیب لانہ لم یذکر اسم غیر اللہ وقت الذبح وان کا نواینذرو نھالہ
پس صورت مسئلہ میں اگر جانور حسب تفصیل سابق اللہ کے لئے ذبح کیا جائے اور اسکے گوشت سے محبوب سبحانیؓ یا کسی بزرگ کی نیاز کی جائے اور اسی نیت سے خرید ابھی جائے تو ایسے ذبح کئے ہوئے جانور کاگوشت حلال ہے اور صاحب کتاب کی تحریر ان معتبر کتب کے مقابل قابل لحاظ نہیںہے۔
(۲) الاستفتاء  جلد (۲)ص۳۱۲
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص بزرگوں کے لئے کچھ کھانا پکاکر بغرض ایصال ثواب غرباء کو کھلائے جیسے نیاز حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ وغیرہ اپنے کسی عزیز کے انتقال کے بعد فاتحہ سوم ودہم وچہلم وغیرہ کرے اور مولودخوانی کرائے توکیا ایسا شخص شرعاً بدعتی وگنہگار ہے یا نہیں؟
الجواب
اگرکو ئی شخص کچھ عملِ خیر کرے مثلاً نماز پڑھے یاروزہ رکھے یاصدقہ دے یاکھانا پکاکر کھلائے یا وعظ ونعت خوانی کی مجالس منعقد کرائے اور اس عمل سے اسکی یہ غرض ہو کہ اسکا ثواب بزرگان دین یا اپنے عزیز واقارب کی ارواح کو پہنچے تواس کا یہ فعل شرعاًٰ جائزہے، اور اسکی نیت کے موافق خدائے پاک اس کا ثواب ان ارواح کو ایصال فرماتے ہیں جیساکہ ردالمحتار جلد (۱)ص۳۲۱میں ہے۔ للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلوۃ او صوما او صدقۃ او غیرھا کذا فی الھدایۃ۔ اسی صفحہ میں ہے۔ وفی البحر من صام او صلی او تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الاموات والاحیاء جاز ویصل ثوابھا الیھم عند اھل السنۃ الجماعۃ کذا فی البدائع اور درمختارمطبوعہ برحاشیہ ردمحتارجلد(۲)کتاب الحج باب الحج عن الغیرمیںہے الاصل ان کل من اتی بعبادۃ مالہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عند الفعل لنفسہ کظاھر الدلالۃ۔ اور اسی طرح ردالمحتارمیں کہ قولہ بعبادۃ ای سواء کانت صلاۃً اوصوماً اوصدقۃًاو قرائۃ اوذکراًطوافاً اوحجاًاوعمرۃً اوغیرذالک من زیارۃ قبورالانبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام والشھداء والصالحین وتکفین الاموات وجمیع انواع البرکذافی الھندیہ، پس صورت مسؤلہ میں بغرض ایصالِ ثواب ارواح بزرگان وارواح اہلِ قرابت کھانا پکاکر فقراء ومساکین وغیرہ کو کھلانا اور ایساہی مولود شریف پڑھاناکہ جس میں حضوراکرم ﷺ کی میلادشریف کا ذکراور آپکی منقبت ہو یا اکابرین کا ذکرِخیراور ان کے خصائلِ حمیدہ کا تذکرہ ہو شرعاً درست ہے۔
(۳)الاستفتاء جلد(۳)ص۳۴۱
کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ اولیاء اللہ کے مزاروںپر جو غلاف اور عمامے اور کپڑے پردے وغیرہ بغرضِ اظہارِ تجمل وشان ڈالے جاتے ہیں کیا یہ شرعاً جائز ہے یانہیں؟
الجواب
اگرچہ بعض فقہانے اسکو مکروہ لکھا ہے مگر متأخرین نے صاحب مزار کی عزت وتوقیرکیلئے ڈالنا جائزرکھاہے تاکہ عام لوگ صاحبِ مزارکی تعظیم کریں اور ناواقف زائرین خشوع وادب کے ساتھ زیارت کریں، جیساکہ ردالمحتار جلد(۵)کتاب الحظر والاباحۃ ص۲۵۳ میں ہے۔ کرہ بعض الفقھاء وضع الستور والعمائم والثیاب علی قبور الصالحین والاولیاء قال فی فتاوی الحجۃ وتکرہ الستور علی القبور اھ۔ ولکن نحن نقول الان اذا قصد بہ التعظیم فی عیون العامۃ حتی لا یحتقروا صاحب القبرو لجلب الخشوع والادب للغافلین الزائرین فھو جائز لان الاعمال بالنیات وان کان بدعۃ فھو کقولھم بعد طواف الوداع یرجع القھقری حتی یخرج من المسجد اجلالا لبیت حتی قال فی منھاج السالکین انہ لیس فیہ سنۃ مرویۃ ولالہ محکی وقد فعلہ اصحابنا اھ۔ کذا فی کتاب کشف النور عن اصحاب القبورللاستاذ عبدالغنی النابلسی قدس سرہ واللہ اعلم بالصواب۔
(۴)الاستفتاء جلد(۳)ص۳۵۰
کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ کسی عالم یا فقیہ کو بلاوجہ گالی دینا گناہ ہے یانہیں؟
الجواب
عالم دین کو گالی دینے سے گالی دینے والے کے کافرہوجانے کا خوف ہے اسلئے اس سے بہت احتراز کرنا چاہئے ، فتاوی عالمگیری جلد(۲)کتاب السیرباب موجبات کفر منھا مایتعلق بالعلم والعلماء میں ہے ویخاف علیہ الکفر اذا شتم عالماً اوفقیھا من غیرسبب۔
(۵)استفتاء جلد(۳)ص۶۸
کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ قبروںپر پھول ڈالنا شرعاً جائزہے یا نہیں؟
الجواب 
قبروں پر پھول ڈالنا سبزی یادرخت لگانا درست ہے ردالمحتار کے کتاب الجنائزمیںہے ترپتوںاور گھاس کو (قبرستان) یعنی قبروںسے کاٹ دینا مکروہ ہے خشک گھاس کو نکالنامکروہ نہیںبحرالرائق ،درراور شرح منیہ میںبھی اس کی صراحت ہے امداد الفتاویٰ میں اس کی علت یہ بیان کی گئی ہے ، کہ جب تک یہ تررہے اللہ کی تسبیح کرتاہے میت اس سے انست لیتاہے اور اس کے ذکر سے رحمت نازل ہوتی ہے خانیہ میں بھی یہ مذکور ہے، صاحب ردالمحتار فرماتے ہیں کہ اسکی دلیل حدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ آنحضـور ﷺ سبزڈالی کو چیرکردوقبرں پر رکھدئے جنکوعذاب ہورہا تھا اوریہ فرمایاکہ جب تک یہ خشک نہ ہونگے ان کے عذاب میں کمی ہوگی یعنی ان دونوں کی تسبیح کی برکت سے عذاب میں تخفیف ہوگی کیونکہ سبزچیز کی تسبیح خشک کی تسبیح سے کامل تر ہوتی ہے اسلئے کہ سبزی میں ایک قسم کی زندگی پائی جاتی ہے اس بناء پر اسے کاٹ دینا مکروہ ہے اور اگر کوئی سبزی ازخود اُگی ہے اور اس کا کوئی مالک نہیںہے تو اس کو کاٹ دینے میں میت کے حق کو ضائع کرنا ہے حدیث مذکور سے پھول اور پتوں کاڈالنا مندوب ثابت ہوتا ہے ، ہمارے زمانے میں قبروں پر چنبیلی کی ڈالی لگائی جاتی ہے وہ اسی بناء پر ہے شوافع کی ایک جماعت نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔
(۶)الاستفتاء  جلد(۲)ص۴۶۱
کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ بزرگانِ دین کی قبروں پر لوگ عرضیاں باندھتے ہیں اور اس میں یہ لکھا ہوتا کہ اگر آپ میری مراد پوری کریں تومیں آپ کی نیاز اداکروں گا اور بعض یو ں لکھتے ہیں کہ میری مراد بَرآنے کے لئے دعا فرمائیے یہ دونوں صورتیں شرعاً جائزہیں یا نہیں؟
الجواب 
نذر شریعت میں عبادت مقصودہ کانام ہے جو کسی کام کے حاصل ہونے کے لئے بغرضِ تقربِ الہی مانی جاتی ہے ، درمختار مطبوعہ بر حاشیہ ردمحتار جلد(۳)ص ۶۸کتاب الایمان میںہے وھوعبادۃ مقصودۃ اور ردمحتارمیںوفی البدائع ومن شروطہ ان یکون قربۃ مقصودۃ پس حاجت براری کیلئے بزرگانِ دین کی نذر یں ومنتیں جو مانی جاتی ہیں اگر نذر ماننے والے کی یہ نیت ہے کہ اس نذر سے بزرگ کا تقرب حاصل کیا جائے اور کام نکلنے پر کھانا یا کپڑا یا سونا چاندی وغیرہ حسب قرارداد ان کو نذرپیش کیا جائے اور وہ اس بزرگ کو کام کے نکالنے میں بدون ارادۂ خدائے تعالیٰ کے مستقل جانتاہے اسلئے ان کو قابلِ تعظیم جان کریہ نذر کررہا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ میں جس چیزکوپیش کروں گا وہ بزرگ کی ملک ہے اورانہیں کے لئے یہ چیزپیش کی جارہی ہے توایسی نذر ومنت شرع میں بالاجماع حرام وباطل ہے اور اس کامرتکب گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے کیونکہ اس میں مخلوق کیلئے نذر کی گئی ہے حالانکہ نذر توعبادت ہے جو اللہ کے سوا کسی مخلوق کیلئے نہیں ہوسکتی اورنذرکو جو میت کی ملک میں داخل کررہاہے وہ بھی شرعاً ناجائزہے اس کے علاوہ اسکا اعتقاد یہ بھی ہے کہ یہ بزرگ بلااردہ ومشیت خداوندِعالم کے خود مستقل طور سے میر اکام نکال سکتے ہیں اور یہ اعتقاد شریعت میں کفر ہے پس ایسی نذر کی ادائی اس کے ذمہ لازم نہیں ہے او راسکا کسی کو کھلانا اور دینا بھی درست نہیں ہے اور اگر نذر اس طریقہ سے کیجائے کہ یاالٰہی میں تیر ے لئے یہ نذر کرتاہوں کہ اگر میرا کام نکل آئے تو میں فلاں بزرگ کی درگاہ کے فقراء کو کھانا کھلاؤنگایا کپڑے پہناؤنگا یا سوناچاندی تقسیم کرونگایادرگاہ کی مسجد کے لئے بوریا وغیرہ بنوادونگا تو چونکہ اس میں نذر خالص اللہ کے لئے ہوتی ہے او راس بزرگ کی درگاہ کے فقراء اور مسجد کاکام نکلتا ہے اس لئے یہ شرعاً جائز ہے اور ایسی نذر کے پیسے وغیرہ فقیروں ہی کو دینا چاہئے مالداروں کو اس کالینا درست نہیں اور درگاہ کے خادم اگر مالدار ہیں تو ان کیلئے بھی یہ نذر درست نہیں اگر فقیرہیں تو لے سکتے ہیں درمختار مطبوعہ حاشیہ ردمحتار مصری جلد (۲)ص۱۳۱ کتاب الصوم میں ہے ، او راسی طرح فتاویٰ عالمگیر یہ مصری کے جلد(۱)ص۲۱۶ متفرقات کتاب الصوم میں بھی یہی مضمون ہے پس مسلمانوں کو چاہئے کہ غیرخدا کسی کی نذر ومنت نہ مانیں او راللہ کے لئے نذر ومنت مان کر فقراء ومساکین درگاہ بزرگان پر اس کو تقسیم کرنے کی نیت کریں البتہ بدون نذرومنت کے ایصال ثواب کیلئے کوئی چیز پکا کرلوگوں کوکھلانا جسکواموات کی فاتحہ اور بزرگان دین کی نیازکہاجاتا ہے یا سونا چاندی وغیرہ صدقہ دینا یا نمازروزہ وقرأۃ قرآن وغیرہ عبادات بدنیہ کاثواب بخشنایہ تمام امور شرعاً درست ہے اور ہرایک شخص کو چاہئے کہ ایسے ایصال ثواب میں مخصوص ارواح کے ساتھ زندہ و مردہ تمام مؤمنین ومؤمنات کی ارواح کو بھی شریک کرلے خداوند عالم اپنے فضل سے ہر ایک کو اسی قدر پورا پورا ثواب عطاء فرماتا ہے ردمحتار مصری جلد(۱)ص۲۳۱کتاب الجنائز میں ہدایہ سے منقول ہے، صرح علماء نافی باب الحج عن الغیربان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃًاوصوماً اوصدقۃً اوغیرھا کذافی الھدایہ تاتارخانیہ سے منقول ہے بل فی زکاۃ التاترخانیہ عن المحیط الافضل من یتصدق  نفلاً ان ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لأنھا تصل الیھم ولاینقص من اجرہ شئی اھ ہومذہب اھل السنۃ والجماعۃ اور بحرالرائق سے منقول ہے وفی البحرمن صام اوصلیّٰ وتصدق وجعل ثوابہٗ لغیرہ من الأموات والأحیاء جازویصل ثوابۃ الیھم عند أھل السنۃ والجماعۃ کذافی البدائع اسی جگہ ردمحتار میںہے ویقرأیٰس وفی الحدیث من قرأالاخلاص احدیٰ عشرۃ مرۃ ثم واھب اجرھا للأموات اعطی من الأجربعد الاموات ردمحتار میںہے (قولہ ویقرأیٰس) لماورد من دخل المقابر فقرأ سورۃ یس خفف اللہ عنھم یومئذ وکان لہ بوعد ہ من فیھا حسنات بحروفی شرح اللباب ویقرأ من القران ماتیسرلہ من الفاتحۃ واول البقرۃ الی المفلحون واٰیۃ الکرسی واٰمن الرسول وسورۃ یٰس وتبارک الملک وسورۃ التکاثر والاخلاص اثنتی عشرۃ مرۃ اواحدیٰ عشرۃ لوسبعاً اوثلاثا ثم یقول اللّٰھم اوصل ثواب ماقرأناہ الی فلان او اوصل الیھم اور ص۶۳۲میں ہے سئل ابن حجر المکی عمالوقرأ لاھل المقبرۃ الفاتحۃ ھل یقسم الثواب بینھم اویصل لکل منھم مثل ثواب ذالک کاملاً فاجاب بانہ افتی جمع بالثانی وھواللائق بسعۃ الفضل پیران طریقت واساتذہ وسلاطین وامراء کے پاس ایسی چیزکے پیش کرنے کو جو اصطلاح میں نذر کہاجا تا ہے فی الحقیقت یہ نذر شرعی نہیں ہے بلکہ عوام کے بلحاظ ادب ان مکرم ومعظم ہستیوں کے پاس ہدایاوتحائف گذارنے کو بھی ضرورۃً نذر نام رکھا ہے اس سے عبادت مقصود نہیں ہوتی ہے اورنہ یہ پہلے سے بغرض تقرب اپنے پر لازم کرلی جاتی ہے محض پیش کرنے کے وقت اسکو نذر کہا جاتا ہے اسی طرح اگر بزرگانِ دین کے ارواح پر ایصال ثواب کرنے کی غرض سے کوئی چیزپکا کر فقراء کو تقسیم کی جائے یاروپیہ سونا وغیرہ صدقہ کیا جائے اور تقسیم کرنے کے وقت اسکا نام نذر رکھا جائے اور قبلِ تقسیم مذکورالصدر نذر الہی کے طریقہ پر یہ اپنے ذمہ لازم نہ کرلیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جب کہ سلاطین وامراء کے پاس پیش ہونے والے اشیاء کانا م نذر رکھا جاتا ہے تو ان خاصانِ بارگاہ خداوندی کے ارواح پر پیش ہونے والی چیزتوبدرجہ اولٰی نذر نام رکھے جانے کی مستحق ہے ۔
ف۔ کسی کام میں جوکسی سے مدد اور توجہ چاہی جاتی ہے یاکسی کو وسیلہ بنایا جاتاہے اس کو عربی میں استغاثہ، استنصار، استعانت، استمداد ، تشفع ، توسل وغیرہ کے ساتھ تعبیر کیاجاتاہے ، ہر ایک کی تفصیل یہ ہے کہ استغاثۃ  عربی میں غوث طلب کرنے کو کہتے ہیں غوث کے معنی ازالہ شدت یعنی تکلیف وسختی کو رفع کرنا ہے معیشت دنیا میں جو تکالیف کہ ایک دوسرے کو لاحق ہوتے ہیں اس کے دفعیہ کی ہر ایک دوسرے سے درخواست کرتا ہے چنانچہ سورہ قصص کے دوسرے رکوع میں آیۃ کریمہ  فاستغاثہ الذی  ھو من شیعتہ علی الذی من عدوہ سے ثابت ہے کہ ایک مخلوق دوسرے مخلوق کی شدت وتکلیف کو دفع کرسکتی ہے اورمصیبت میں مدددے سکتی ہے اسی طرح استنصارطلب نصر یعنی غیر سے مدد طلب کرنے کو کہتے ہیں اور سورہ انفال کے آٹھویںرکوع میں آیۃ کریمہ وان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصرا لا یۃ سے ثابت ہے کہ ایک بندۂ خدا دوسرے بندئہ خدا کو مدد دے سکتا ہے استمداد، استنصارکاہم معنی ہے اور استغاثہ بھی طلبِ عَون یعنی مدد چاہنے کو کہتے ہیں کلام الہی میں تین جگہ یعنی سورہ بقرۃکے سولھویں اور پانچویں رکوع میں اور سورہ اعراف کے تیرہویںرکوع میں آیۃ کریمہاستعینوا بالصبر والصّلوٰۃ سے ثابت ہے کہ انسان کو صبر وصلوٰۃ سے طلبِ عون یعنی مدد لینا چاہئیے پس ان آیات بیّنات سے ظاہر ہے کہ انسان کو خدا وندِعالم کے سوادیگر اشیاء سے بھی مدد لینے کی شریعت میں اجازت ہے۔ تشفع کے معنی شفاعت یعنی سفارش لے جانے کے ہیں مخلوق کا ایک دوسرے کی سفارش کرنا اور خداوند عالم کے پاس کسی مخلوق کی سفارش کرنا سورہ نساء کے نویں رکوع میں آیۃ کریمہ من یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھا اور سورہ بقرہ کے چھبیسویں رکوع میں من ذا الذی یشفع عندہ الاباذنہ سے ثابت ہے۔ احادیث سے بھی اس کے فضائل ثابت ہیں اور بروزقیامت رسول اللہﷺ کا تمام گناہگاروں کیلئے خداوندِعالم سے شفاعت یعنی سفارش کرنے کے ثبوت میں تو کسی کو کلام نہیں، توسل کے معنی لغت میں نیک کاموں کے ذریعہ خداوندِعالم کے پاس قرب حاصل کرنے کے ہیں چنانچہ سورہ مائدہ کے چوتھے رکوع آیۃ کریمہ یاایھا الذین آمنوااتقوا اللہ وابتغواالیہ الوسیلۃ میں مسلمانوں کو خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے کہ اے مسلمانوں اللہ سے ڈرواور نیک کاموں کے ذریعہ اس کا وسیلہ یعنی تقرب چاہو تفسیر کبیر کے جلد(۲)ص۴۱۰ میں ہے  فکان المراد طلب الوسیلۃ الیہ فی تحصیل مرضاتہ وذالک بالعبادات والطاعات اعمال صالحہ کے سوا انبیاء علیھم السلام اولیاء کرام کو بھی خدائے تعالیٰ کے پاس وسیلہ وذریعہ بنانا ثابت ہے چنانچہ سورہ  بقرہ کے نویں رکوع میں آیۃ کریمہ وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفرواآیۃ سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ولادت کے قبل چونکہ یہودیوں کو توریت میں حضرتﷺ کی تشریف آوری کی بشارت دی گئی تھی اس لئے نبی اکرمﷺ کی ولادت سے قبل جب کبھی عرب کے مشرکین سے ان کی لڑائی ہوتی تو حضرتﷺ کے وسیلہ سے فتح کی دعا مانگاکرتے تھے تفسیر کبیر کے جلد(۱)ص۴۲۸میں ہے ان الیھود من قبل مبعث محمد علیہ السلام ونز ول القرآن کانوایستفتحون ای یسالؤن الفتح والنصرۃ وکانوایقولون اللھم افتح علیناوانصرنا بالنبی الامی تفسیر درمنثور کے جلد(۱)ص۸۸ میں بھی یہی لکھا ہے، نسائی وابن ماجہ وترمذی میں ایک حدیث شریف کی تخریج کی گئی ہے جسکو ترمذی اور ابواسحق نے صحیح کہا ہے حدیث شریف یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک نابینا رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا او ریہ عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میںاندھا ہو گیا ہو ں آپ میر ے لئے دعا فرمائیں حضرتﷺ نے یہ ارشاد فرمایاکہ وضو کرکے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد یہ دعا مانگنا کہ اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیر ے نبی محمد ﷺکے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ میری حاجت پوری کرے اے اللہ تو اُن کو میرا شفیع بنا بیہقی نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور اسمیں یہ زیادہ کیا کہ وہ اندھا دعامانگا اور بینا ہوگیا ابن ماجہ مطبوعہ فاروقی کے ص۱۰۰باب ماجاء فی صلاۃ الحاجتہ میں عثمان ابن حنیفص سے مروی ہے ان رجلاًضریر البصراتی النبی ﷺ فقال ادع اللہ تعالیٰ لی ان یعافینی فقال ان شئت اخرت لک وھوخیروان شئت دعوت ادعہ فامرہ ان یتوضا فیحسن وضؤہ ویصلی رکعتین ویدعو بھذالدعاء اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمدنبی الرحمۃ یامحمد انی قد توجھت بک الی ربی فی حاحتی ھذہ لتقضی اللھم فشفعہ فی قال ابواسحٰق ھذاحدیث صحیح انجاح الحاجتہ۔حاشیہ ابن ماجہ میں اسی جگہ ہے ہذا الحدیث اخرج النسائی والترمذی فی الدعوات مع اختلاف یسیروقال الترمذی حسن صحیح وصححہ البیھقی وزادفقام وقدابصر وفی روایۃففعل الرجل فبریآیۂ کریمہ (وکانوایستفتحون الایۃ)سے قبل ولادت رسول اکرم ﷺ کو وسیلہ لینا ثابت ہے اور اس حدیث سے آپکا زندگی میں وسیلہ بناناثابت ہے اور بعد وفات آپ سے مدد چاہنے کے متعلق انجاح الحاجہ میں اسی جگہ ایک حدیث ہے شیخ عابد سندھی کے رسالہ سے نقل کیا ہے جسکی بیہقی وابن ابی شیبہ نے مالک دارسے تخریج کی ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک دفعہ قحط آیاتب ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے مزار مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ ﷺ اپنی امت کیلئے خدائے تعالیٰ سے پانی مانگئے آپﷺ اس کے خواب میں تشریف فرماہوئے اور یہ فرمایا کہ عمرؓ کو میری طرف سے سلام پہنچانے کے بعد یہ کہنا، صاحبِ حاشیہ نے اسی قدرقصہ لکھ کر ابن عبدالبر کی کتاب استیعاب میں اس کی تفصیل دیکھنے کے لئے لکھا ہے انجاح الحاجہ کی عبارت یہ ہے وذکرفیھا حدیث البیھقی وابن ابی شیبہ عن مالک الدارقال اصاب الناس قحط فی زمان عمربن الخطابؓفجاء رجل الی قبر النبی ﷺ وقال یارسول اللہﷺ استسق اللہ لا متک فانھم قد ھلکوا فاتاہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم فی منامہ فقال ائت عمرفاقرء ہ السلام واخبرہ۔ والقصۃ مذکورۃ فی الاستیعاب لابن عبدالبر اسی مقام میں صاحب انجاح الحاجہ نے طبرانی کبیر کی ایک اور حدیث نقل کی ہے عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عثمان ؓکے پاس روزانہ اپنی کچھ ضرورت لیجایا کرتا تھا مگر آپ ص اس کی طرف توجہ نہیں فرماتے تھے تب عثمان ابن حنیف ؓ نے اسکو وہی حدیث توسل سکھائی اور دعا کا طریقہ بھی حسبِ روایتِ سابق بتادیا جیساہی ایک دفعہ پڑھ کر حضرت عثمانؓ کے پاس گیا آپ اس کی حاجت کو نہایت توجہ سے سنکر پوری فرمائے۔
انبیاء علیھم السلام کے علاوہ اولیاء کرام سے بھی ان کے حین حیات میں توسل وامداد لینا اوران کی دعاسے لوگوں کاکام نکلنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے چنانچہ مسلم شریف میںوارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ سے امت کی مغفرت کیلئے دعاچاہنے کے متعلق حکم فرمایاتھا اور بخاری شریف کے کتاب الجہاد باب من استعان بضعفاء والصالحین فی الحرب میں مصعب بن سعد سے مروی ہے قال رای سعد ان لہ فضلاً علی من دونہ فقال النبی ﷺ ھل تنصرون وترزقون الابضعفاء کم یعنی سعد ؓ نے اپنے کو دوسروں پرمکرم سمجھا تب حضرت رسول اکر مﷺ کا ارشاد ہوا کہ تم کو جو رزق و مد د دیجاتی ہے وہ بے مایہ ضعیفوں کی برکت سے ہے اس حدیث کی شرح میں عینی جلد (۲) ص ۶۳۰ میں لکھتے ہیں، واخبر ﷺ ان بدعائھم ینصرون ویرزقون لان عبادتھم ودعائھم اشد اخلاصاً واکثر خشوعاً لخلو قلوبھم من التعلق بزخرف الدنیا وزینتھا وصفاء ضمائرھم عما یقطعھم عن اللّٰہ تعالٰی فجعلواھمھم واحداً فزکت اعمالھم واجیب دعائھم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ اولیاء اللہ نے چونکہ دنیا میں عیش وعشرت کو چھوڑ کرریاضت ومجاہدہ سے اپنے کو اللہ کے لئے وقف کردیا ہے اور جو عبادت و مجاہدے یہ کرتے ہیں وہ خلوصِ دل سے خاص خداوند عالم کیلئے نہایت عجز و انکساری کے ساتھ ہوا کرتی ہے اس لئے اللہ ان کے اعمال کو پاک کردیا ہے اور ان کی دعا کو قبول فرماتاہے اگرچہ یہ بظاہر ضعیف و منکسر الحال معلوم ہوتے ہیں مگر خداوند عالم انہیں کی برکت و دعاء سے اہل عالم کو رزق دیتا ہے اور سارے کام بناتاہے اس حدیث کے بعد بخاری شریف میں ایک دوسری حدیث ابو سعیدخدری ؓ سے مروی ہے آں سرورعالی ﷺ فرماتے ہیںکہ ایک زمانہ ایسا آئیگاکہ جب لوگ جہاد کریں گے تو پوچھا جائیگا کہ کیا تم میں صحابہ ہیں جب ان میں صحابہ ہونگے تو انہی کی برکت سے فتح نصیب ہوگی پھر اس کے بعد ایک زمانہ آ ئے گا جس میں تابعین پوچھے جائیں گے اور ان ہی کی برکت سے فتح ہوگی ‘ اس کے بعدایک زمانہ آئے گاجس میں تبع تابعین پوچھے جائیں گے اور انہیں کی بدولت مسلمانوں کی فتح ہو گی حدیث شریف یہ ہے ،عن ابی سعید الخدریؓ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال یأتی زمان یغزوقوم من الناس فیقال فیکم من صحب النبی ﷺ فیقال نعم فیفتح لھم ثم یأتی زمان فیقال فیکم من صحب اصحاب النبی ﷺ فیقال نعم فیفتح ثم یأتی زمان فیقال فیکم من صحب اصحاب اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیفتح بخاری شریف کے باب الاستسقاء میں
انس بن مالکؓ سے مر وی ہے ، ان عمربن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ کان اذا قحطوااستسقیٰ بالعباس بن عبد المطلب قال اللھم انا کنا نتوسل الیک بنبینا فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ قحط کے زمانہ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے توسل سے بارش چاہی تھی اور یہ دعا فرمائی کہ اے خدا وندعالم ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم کے توسل سے پانی مانگاکرتے تھے اور تو پانی برساتا تھا اب ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم ﷺ کے چچا کے وسیلہ سے پانی مانگتے ہیں توہم پر پانی برسا۔ راوی کہتے ہیںکہ آپ کی اس دعا سے پانی برسنے لگا اور عینی شرح بخاری کی جلد(۳)ص۴۳۷ میں اس حدیث کی شرح میں ہے قال فارخت السماء شآبیب مثل الجبال حتی اخصبت الارض وعاش الناس یعنی اس دعاسے پہاڑوں کی طرح ابر اور اس کثرت سے بارش ہوئی اور اتنی سرسبزی ہوگئی کہ اچھی طرح ارزانی ہوگئی پس ان آیات قرآنی واحادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ مخلوق الٰہی میں انبیاء علیہم السلام واولیاء کرام سے اپنے ضروریات میں مدد چاہنا اللہ کے پاس ان کا وسیلہ لینا ان سے دعا کی درخواست کرنا ان کے حینِ حیات اور بعدممات بلکہ انبیاء علیہم السلام سے تو ان کے قبل ولادت بھی شرعاً درست ہے چنانچہ عقائدِ اہل سنت والجماعۃ میں کرامات اولیاء کی حقانیت کی تفصیل میں یہ بتایا گیا ہے کہ اولیاء کرام کی توجہ سے انسان کو مصیبت سے نجات ملتی ہے اور دشمنوںپر کامیابی حاصل ہو تی ہے ضرورتیں پوری ہو تی ہے اور مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں ،شرح عقائد نسفی مطبوعہ انوارمحمدی کے ص ۲۲۰ میں کہ وکرامات الاولیاء حق فظھر الکرامۃ علی طریق نقض العادۃ للولی من قطع المسافۃ  البعیدۃ فی المدۃ القلیلۃ وظھور الطعام والشراب عند الحاجۃ والمشی علی الماء والطیران فی الھواء وکلام الجماد والعجماء واندفاع المتوجہ من البلاء وکفایت المھم عن الاعداء وغیر ذالک من الا شیاء پس صورت مسئولہ میں بزرگانِ دین سے دعا کی درخواست کرنا شرعاً جائز ہے واللہ اعلم بالصواب۔
(۷) الاستفتاء۔ جلد(۳) ص۵۸
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ مشائخین جو بزرگوں کی وفات کے دن مزار پر روشنی وغیرہ کرکے مجمع کرتے ہیں جس کانام ’’عرس‘‘ ہے کیا یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
الجواب
حدیث شریف سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کی ابتداء میں شہداء اُحد کے قبور پر بغرض زیارت تشریف فرما ہوتے تھے ردالمحتار جلد (۱) ص ۶۳۰ باب الجنائز میں ہے وفیہٖ یستحب ان یزورشہداء جبل احد لماروی ابن ابی شیبہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یأتی قبور الشھداء باحد علی رأس کل حول فیقول السلام علیکم بما صبرتم نعم عقبی الدار اور حدیث شریف سے یہ بھی ثابت ہے کے سوال وجواب کے بعد نیک بندہ کی قبر چار ہزار نوسو گزکشادہ کردی جاتی ہے اور اس میں نور پھیلایا جاتا ہے پھر یہ کہا جاتا ہے کہ تو اس میں سورہ تب وہ خوشی میں کہتا ہے کہ میں اپنے لوگوں کو اس انعام وافضال الٰہی کی خبردیتا ہو ں تب اس کو کہا جاتا ہے کہ تو یہاں قیامت تک اس طرح سورہ جیسے عروس یعنی دولہا سورہتا ہے اس کے محبوب کے سوا اس کو کوئی اور جگانہیں سکتا اب خدا وندعالم ہی اس جگہ سے اٹھائے گا ترمذی شریف مطبوعہ نظامی کے جلد(۱)ص۱۲۷ باب عذاب قبر کی طویل حدیث میں ہے ثم یفسح لہ فی قبرہ سبعون ذراعاً فی سبعین ثم ینور لہ فیہ ثم یقال لہ نم فیقول ارجع الی اھلی فاخبرھم فیقولان نم کنومۃ العروس الذی لا یوقظہ الااحب اھلہ حتی یبعثہ اللہ من مضجعہ ذلک صورت مسولہ میں مشائخین وغیرہ کا سال میں ایک دفعہ صالحین واولیاء کبار کے قبور پر بغرض زیارت جمع ہونا یہ حدیث زیارت شہداء اُحد سے ثابت ہے اور وفات کے دن کام عرس رکھنا یہ حدیث نم کنومۃ العروس سے مستفادہے کیونکہ اس روز محبوب حقیقی کے وصال اور اسکے بے غایت انعام و افضال نے ان کو جو مسرورکیا ہے اس کی مثال دنیا میں اہلِ دنیا کی شادی کے دن کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے ، اور ملک مغرب کے بعض مشائخین عظام کے اقوال سے ثابت ہے کہ بزرگوں کے عرس کے دن زائرین کو جو برکات وفیوض حاصل ہوتے ہیں وہ بہ نسبت دوسرے ایام کے بہت کچھ زائد ہوتے ہیں، ماثبت بالسنتہ کے ص۶۸ میں مولانا شاہ عبدالحق صاحب محدثؒ دہلوی فرماتے ہیں فان قلت ھل لھذ العرف الذی شاع فی دیار نافی حفظ اعراس المشائخ فی ایام و فاتھم اصل فان کان عند ک علم بذالک فاذکرہ قلت قد سئلک عن ذالک شیخنا الامام عبد الوھاب المتقی المکی واجاب بان ذالک من طریق المشائخ و عاداتھم ولھم فی ذلک نیات قلت کیف تعین الیوم دون سائر الایام فقال الضیافۃ مسنونۃ علی الاطلاق فاقطعوالنظرعن تعیین الیوم ولہ نظائر کمصافحۃ بعض المشایخ بعد الصلوٰۃ وکالا کتحال یوم عاشوراء فانہ  سنۃ علٰی الإطلاق وبدعۃ من جھۃ الخصوصیۃ ثم قال وقد ذکر بعض المتاخرین من مشائخ المغرب ان الیوم الذی وصلوافیہ الی جناب العزۃ وحظائر القدس یرجی فیہ من الخیر والکرامۃ والبرکۃ والنورانیۃ أکثر وأو فرمن سائر الأیام ثم اطرق ملیاًثم رفع رأسہ وقال ولم یکن فی زمن السلف شئی من ذالک وانماھومن مستحسنات المتاخرین پس عر س کے دن صاحبِ عرس کی مزار پر حاضر ہو کر بغر ضِ ایصالِ ثواب سورہ فاتحہ وسورہ اخلاص‘ اوائل سورہ بقر‘ سورہ تبارک‘ امن الرسول‘ سورہ یٰس آیۃ الکرسی وغیرہ پڑھنا فقراء ومساکین کو خیرات کرنا یا کھانا کھلانا موجبِ برکت و ثواب ہے ایصال ثواب کرنے والے کو چاہئے کہ روئے زمین کے تمام مسلمانوں کو خواہ زندہ ہوں یا مردہ اسی ثواب میں شریک کرے خداوندِ عالم سب کو برابر ثواب پہنچاتاہے جیساکہ ردالمحتار جلد (۲)ص ۶۳۱ باب الجنائز میں یہی عبارت ہے لما ورد من دخل المقابر فقراء سورۃ یٰسین خفف اللہ منہم یومئذٍ وکان لہ بعد دمن فیہا حسنات (بحر) وفی شرح اللباب و یقرأ من القرٓن ما تیسر لہ من الفاتحۃ واوائل البقرۃ الی المفلحون وآیۃ الکرسی و آمن الرسول و سورۃ یٰسین و تبارک الملک و سورۃ التکاثر والاخلاص اثنتی عشرۃ مرۃ او احدی عشرۃ او سبعاً او ثلاثاً ثم یقول : اللہم أوصل ثواب ما قرأناہُ الیٰ فلان أوالیہم (تنبیہ): صرح علماء نا فی باب الحج عن الغیر بان للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً او صدقۃ أو غیرہا۔ کذا فی الہدٰیۃ بل فی زکاۃ التاتارخانیہ عن المحیط: الافضل لمن یتصدق نفلا أن ینوی لجمیع المؤمنین المؤمنات لأنہا تصل الیہم ولا ینقص من اجرہ شی اھ ہو مذہب اہل السنۃ والجماعۃ ۔ اسی صفحہ میں ہے وفی البحرمن صام او صلّی او تصدّق وجعل ثوابہ لغیرہ من الموات والإحیاء جاز و یصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ کذافی البدائع۔ اور ص ۶۳۰ میں ہے وان اتخذطعاماً للفقراء کان حسناً عرس کے دن روشنی ودیگر تکلفات کرنا سلف صالحین وفقہاء اہلِ سنت کے اقوال سے ثابت نہیں ہے ،واللہ اعلم باالصواب۔
(۸) الاستفتاء جلد(۲)ص۴۲۴
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ انبیاء اور اولیاء سے ان کے حین حیات اور بعد ممات توسل واستغاثہ یعنی کسی کام کے پورا کرنے میں ان سے مدد طلب کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
عبدالقادر شیئاً للہ کہنے کے متعلق کیا حکم ہے ہم نے بعض مشائخین کو ذکر میں لاالہ الااللہ عبدالقادر شیئاً للہ کہتے سنا ہے آیا یہ جائز ہے یا نہیں بینوا تؤجروا،
الجواب
انبیاء اور اولیاء سے ان کے حین حیات وبعد ممات توسل و استعانت و استغاثہ جائز ہے کیونکہ کرامت بعد الموت کا منکر فاسد الاعتقاد بلکہ اس کے سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے (عبدالقادر شیئاً للہ) اگر اس معنی سے کہا جائے کہ خدائے تعالیٰ محتاج ہے اور اس کے لئے عبدالقادر (رحمہ اللہ) سے کوئی چیز طلب کی جارہی ہے تو بیشک اس کے کلمہ کفر ہونے میں کچھ کلام نہیں مگر اس سے عوام الناس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوتا بلکہ حسنِ اعتقاد سے ان کا مقصود یہ ہو تا ہے کہ توسل اور استمداد کیا جائے جس کے یہ معنی ہیںکہ یا عبدالقادر اعطنی شیئاً للہ یعنی اے عبدالقادر (رحمہ اللہ) اللہ کے لئے مجھے کچھ دیجئے پس اس معنے کے لحاظ سے عبدالقادر شیئاً للہ کہنا نہ کفرہے نہ حرام ۔
لاالہ الااللہ عبدالقادر شیئاً للہ یہ دو جملے ہیں ہر ایک اپنے اپنے صحیح معنے پر دلالت کرتا ہے یعنی لاالہ إلا اللہ توحیدپر اور عبدالقادر شیئاً للہ توسل واستغاثہ پر، اس لئے یہ کہنا بھی نہ کفر ہے نہ حرام ، مگر اس ترکیب سے چونکہ یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ عبدالقادر شیئاً للہ بجائے محمدالرسول اللہ کے کہا گیا ہے اس لئے ایسے الفاظ منہ سے نکالنے میں احتیاط کرنا بہتر ہے ۔
تنبیہ:
توسل میں کمالِ ادب کا لحاظ رہے اور ہرگز ایسے الفاظ کا استعمال نہ کریں کہ جن سے کفر وشرک کا وہم ہو مثلاً یہ کہنا کہ یا عبدالقادر مجھے اولاددو یا خواجہ مجھے نوکری دو اگرچہ کہ ایسا کہنا نہ کفرہے اورنہ حرام ہے کیونکہ ہر ایک مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا حقیقۃً کوئی شخص نفع یا ضررنہیں پہنچا سکتا اور اسلام کے قرینہ سے یہ ثابت ہو تاہے کہ دینے کی نسبت جو غیر خدا کی طرف کررہا ہے وہ مجازی ہے اور حقیقۃً ہر شئی کا دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے تاہم ایسا طلب کرنا آدابِ توحید کے خلاف ہے اور خصوصاً عوام الناس کے لئے ایسے طریقہ سے باز رہنا نہایت اہم اور ضروری ہے۔ توسل کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ اے پروردگار بطفیل فلاں بزرگ کے میر ایہ کام پورا کردے علامہ رملیؒ اپنے فتاوی کے ص ۳۸۲میں اور علامہ شوبری شرح المنہج کے ص۵۱۷میںلکھے ہیں،
ویجوز التوسل إلی اللہ تعالٰی والإستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والعلماء والصالحین فی حیاتھم وبعد مماتھم لأن معجزات الأنبیاء وکرامات الأولیاء لا تنقطع بموتھم أماالأنبیاء فلأنھم احیاء فی قبورھم ویصلون ویحجون کماوردت الأخبار وتکون الإغاثۃ منھم معجزات لھم والشھداء أحیاء عند ربھم شُوہدو انھاراً یقاتلون الکفار، وأما الأولیاء فھی کرامۃ لھم ویقع من الأولیاء بقصد وبغیر قصد فی حیاتھم وبعد مماتھم امور خارقۃللعادۃ یجریھا اللہ بسببھم والدلیل علی جوازھا انھا امور ممکنۃ لایلزم من جوازھا وقوعھا محال وبالجملۃ ماجاز أن یکون معجزۃ لنبی جاز أن یکون کرامۃ لولی ولا فارق بینھما إلا التحدی انتہٰی۔
علامہ رملی لکھتے ہیں کہ وکرامات الأولیاء مشاھدۃ لا ننکرھا والذی نعتقدہ وندین بہ ثبوتھا فی حیاتھم و بعد مماتھم ولا تنقطع بموتھم و منکرھا یخشیٰ علیہ من سوء الخاتمۃ ۔
حافظ ابن حجرشرح بخاری میں لکھتے ہیں ولا ینکر الکرامۃ بعد الموت إلا فاسد الإعتقاد انتھٰی
امام تقی الدین سبکی شفاء السقام کے صفحہ ۳۷ میں لکھتے ہیں  نحسن التوسل والإستغاثۃ بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم إلی ربہ وأیضاً یجوز التوسل بسائر عباداللّہ الصالحین والقول بالخصوص بالنبی ﷺ قول بلادلیل۔
اور مکہ معظمہ کے مفتی شافعیہ علامہ سید احمد زینی دحلان اپنی کتاب در رسنیہ کے ص۳۳ میں علماء سے نقل کرکے لکھتے ہیں والسلف والخلف من أھل مذاھب الأربعۃ استحبواللزائرأن یقول تجاہ القبرالشریف یارسول إنی جئتک مستغفرا من ذنبی مستشفعاً بک إلی ربی،اسی صفحہ میں ہے وذکرا لفقھاء فی أداب السفرأن المسافر إذانفلتت دابتہ بأرض لیس بھا أنیس فلیقل یاعباداللہ اجسوا، واذاضل شیئاً وأرادعوناً فلیقل یاعباداللہ أعینونی أواغیثونی فان للّہ عباداًلاتراھم ردالمحتا ر کے ص۳۱۷ جزء ثالث میں ہے وفی شرح الوھبانیہ بدرویش درویشاں کفربعضھم وصحیح ان لاکفروھو المحرر وکذاقول شیئاً للہ قیل بکفرہ ویاحاضرویاناظر لیس بکفر (قیل بکفرہ) لعل وجھہ انہ طلب شیئاًللہ تعالٰی غنی من کل شئی والکل مفتقر ومحتاج إلیہ وینبغی ان یرجح عدم التکفیرفانہ یمکن ان یقول أردت ان طلب شیئاً إکراماللہ تعالٰی انتھی ۔
علامہ شیخ داؤد صلح الاخوان کے ص۹۴میں لکھتے ہیں وقال الشیخ خیر الدین الرملی الحنفی فی الفتاوی و اماقولھم یا عبدالقادر فھو نداء واذ اضیف الیہ شیئاً للہ فھوطلب شئی اکراماً للہ فماالموجب لحرمتہ اور اسی کتاب میں ہے ومعنی شیئاً للہ علی ماسمعت من یقولھا من العوام ایھا المنادی اعطنی شیئاً للہ ای لا جل اللہ کمایقول السائل فمن یسئلہ اعطنی درھماً للہ ای کرامۃ للہ۔
بغیۃ المسترشدین ص ۳۳۰ باب الرد علی اہل البدع میں ہے سئل السید عمر البصری عن قول الشیخ یافلان الخ فأجاب قول العامۃ یافلان شیـئاً للہ غیر عربیہ لکنہا من مولدات اھل العرف ولم یحفظ لأ حدمن الائمۃ نص فی النھی عنھا ولیس المراد بھا فی اطلاقھم شیئاً یستدعی مفسرۃ الحرام أو المکروہ لأنھم انما یذکرونھا استمداداً وتعظیماً لمن یحسنون فیہ الظن … انتھی اسی صفحہ میں ہے ینبغی تنبیہ العوام علی الفاظ تصدر منھم تدل علی الفلاح فی توحیدھم فیجب ارشادھم واعلانھم بان لانافع ولاضار إلا اللہ تعالیٰ لایملک غیرہ لنفسہ ضاراً ولانفعاً الابارادۃ اللہ تعالٰی انتھی دررسنیہ کے ص۱۵میں ہے ینبغی ان یکون التوسل بالأدب وبألفاظ التی لیس فیھا ایھام کان یقول المتوسل ’’ اللھّم انی أسئلک وأتوسل إلیک بنبیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم وبالأنبیاء قبلہ وبعبادک الصالحین ان تفعل بی کذا وکذا ، مع ان  تلک الألفاظ الموھمۃ لتاثیر غیراللہ تعالٰی یمکن حملھا علی المجازمن غیر احتیاج الی التکفیر للمسلمین وذلک المجاز مجازعقلی شائع معروف عند أھل العلم ومستعمل علٰی السنۃ جمیع المسلین واردفی الکتاب والسنۃ فالمسلم الموحدمتی صدر منہ اسناد لغیر من ھولہ یجب حملہ علی المجاز العقلی والا سلام والتوحید قرینہ علی ذالک المجازکمانص علٰی ذالک علماء المعانی فی کتبھم واجمعوا علیہ ولاوجہ لکونہ شرکًا ولا لکونہ محرّمًا انتھیٰ واللہ اعلم بالصّواب۔‘‘
(۹) الاستفتاء جلد(۱)ص۱۹۶
کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ فرقہ غیر مقلدین مسمٰے بہ عامل بالحدیث یا اہل حدیث سنی مذہب میں داخل ہیں یا خارج؟ سوائے اہل سنت وجماعت کے بہتّر فرقوں میں سے کسی فرقہ کا نام سنی ہے یا نہیں؟ کیا فرقہ عامل بالحدیث یعنی وہابین اپنے سنی ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں حق یا باطل؟ مذکورہ بالا فرقہ کی بنا کب سے ہے مذکورہ فرقہ نو پیدا کے پیشتر جن مسلمانوں نے مساجد بنائی ہیں انکے ارادے کے موافق یہ فرقہ والے ان مساجد میں نماز پڑھنے کے مستحق ہیں یا نہیں بینواتوجروا؟
الجواب
صحیحین کی حدیث علیکم بسنّتی وسنّۃ الخلفاء الراشدین المھدین تمسکوابھا وعضواعلیھا بالنواجذسے یہ ثابت ہے کہ ہر ایک مسلمان پر آں سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنا اور اسکودانتوں سے مضبوط پکڑ نا (یعنی جمے رہنا) واجب ولازم ہے اسی طرح ترمذی کے حدیث صحیح  ان اللہ لا یجمع امتی علی الضلالۃ وید اللہ علی الجماعۃ من شذشذ فی النار سے ثابت ہے کہ جس مذہب پر امت کا اجماع ہو وہی مذہب حق ہے اور جماعت پر خدا کا ہاتھ ہے ، اور جو شخص جماعت عامہ سے خارج ہو وہ نار میں داخل ہو گا او رایک حدیث میں سواد اعظم کے اتباع کا حکم بھی آیا ہے جب کہ حدیث سابق الذکرسے اتباع سنت اور بعد والی حدیثوں سے جماعتِ عامہ یعنی سواداعظم کیساتھ رہنے کا حکم ثابت ہے تو اسوقت مذاہب اربعہ (یعنی  حنفی،شافعی، مالکی، حنبلی، جن پر اجماع امت ہوگیا ہے اور ہرایک مذہب کے علماء نے ایک دوسرے کی حقانیت پر فتویٰ دیدیا ہے )کے سواے کوئی اور مذہب حق نہیں ہے اور چونکہ یہی سواد اعظم ہے اس لئے باجماعِ امت اسکے مجموعہ کا نام اہل السنۃ و الجماعۃ رکھا گیا ہے جیسا کہ 
اشباہ ونظائر وتفسیر احمدی میں اور حافظ ابن حجر شافعی فتح المبین فی شرح الا ربعین میں اور علامہ ابراہیم بن مرعی سرحی مالکی نے فتوحات وہبیہ میں لکھا ہے اور فتاوائے شامی کے جلد(۳)صفحہ ۳۱۹ خوارج کے بیان میں اس طرح صراحت کی گئی ہے کہ ۱۲۳۳ ھ  میں خارجیوں کا ایک فرقہ عبدالوہاب نجدی کا تابع تھا جو اپنے کو حنبلی مذہب ظاہر کیا تھا مگر اس کا عقیدہ یہ تھا کہ دنیا میں اس کے سواء کو ئی مسلمان نہیں اور اس کے خلاف جتنے اہل مذہب ہیں وہ سب مشرک ہیں چنانچہ وہ اور اسکے متبعین اہل سنّت اور ان کے علماء کو قتل کرنا مباح جانتے تھے اور اسی بنیاد پر انھوں نے صدہا مسلمانوں کی خونریزی کی اور حرمین شریفین پر قابض ہوگئے آخرکار خدا ئے تعالی نے مسلمانوں کو ان پر فتح دی جس سے انکی شان وشوکت ٹوٹ گئی اور ان کے شہر ویران ہوگئے پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ خارجی فرقہ کے ہیں جوکسی طرح اہل سنت سے نہیں ہوسکتے بلکہ علامہ شامی کے اس جملہ (وظفربھم عساکر المسلمین) سے تو ان کے مسلمان ہونے میں کلام ہے پس ایسی حالت میں ان کا اپنے کو سنی کہنا بالکل لغواور باطل ہے۔ 
ف۔ شریعت میں اس قسم کے لوگوں کو کہ جنکے مسجد داخل ہونے سے فساد پیدا ہوتا ہے اور مسلمانوں کواذیت پہونچتی ہے مسجد میں آنے کی ممانعت کی گئی ہے ،درمختار مطبوعہ محمدی کے صــ۱۰۲میں ہے و یمنع منہ و کذا کل موذ لو بلسانہ۔ٖ اور اہل محلہ کو یہ حق دیا گیا ہے کہ جو ان میں سے نہیں ہے اس کو اپنی مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کریں۔ جیسا کہ در مختار کے اسی صفحہ میں ہے۔ بل ولاھل المحلۃ منع من لیس منھم عن الصلاۃ فیہ پس جبکہ یہ فرقہ (غیر مقلدین ) اہل سنّت وجماعت سے خارج ہے اور اعتقادات فاسدہ کی وجہ سے سنیوں کو ان کے مسجد میں آنے سے اذیت ہوتی ہے تو سنّیوں کو چاہئے کہ ان کو اپنی مسجد میں داخل ہونے سے اور نماز پڑھنے سے منع کریں ، واللہ اعلم بالصواب۔
محمد رکن الدین عفی عنہ(دارالافتایٔ مدرسہ نظامیہ حیدرآباد دکن۱۳۲۹؁ھ 
نوٹ:۔یہ فتاوے آج سے تقریباً ۹۹ سال قبل جاری کئے گئے تھے۔
٭%٭%٭

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!