اسلام

رومی لشکر ڈر گیا

حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تبوک میں پہنچ کر لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا۔ مگر
دور دور تک رومی لشکروں کا کوئی پتا نہیں چلا۔ واقعہ یہ ہوا کہ جب رومیوں کے جاسوسوں نے قیصر کو خبردی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک میں آ رہے ہیں تو رومیوں کے دلوں پر اس قدر ہیبت چھا گئی کہ وہ جنگ سے ہمت ہار گئے اور اپنے گھروں سے باہر نہ نکل سکے ۔(1)
    رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بیس دن تبوک میں قیام فرمایا اور اطراف و جوانب میں افواج الٰہی کا جلال دکھا کر اور کفار کے دلوں پر اسلام کا رعب بٹھا کر مدینہ واپس تشریف لائے اور تبوک میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
    اسی سفر میں ”ایلہ” کا سردار جس کا نام”یحنۃ” تھا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور جزیہ دینا قبول کر لیا اور ایک سفید خچر بھی دربار رسالت میں نذر کیا جس کے صلہ میں تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اپنی چادر مبارک عنایت فرمائی اور اس کو ایک دستاویز تحریر فرما کر عطا فرمائی کہ وہ اپنے گردوپیش کے سمندر سے ہر قسم کے فوائد حاصل کرتا رہے۔ (2) (بخاری ج۱ ص۴۴۸)
    اسی طرح ”جرباء” اور ”اذرح” کے عیسائیوں نے بھی حاضر خدمت ہو کر جزیہ دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔
    اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک سو بیس سواروں کے ساتھ ”دومۃ الجندل” کے بادشاہ ”اکیدر بن عبدالملک” کی طرف روانہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ وہ رات میں نیل گائے کا شکار کر رہا ہو گا تم اس کے پاس
پہنچو تو اس کو قتل مت کرنا بلکہ اس کو زندہ گرفتار کرکے میرے پاس لانا۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چاندنی رات میں اکیدر اور اس کے بھائی حسان کو شکار کرتے ہوئے پا لیا۔ حسان نے چونکہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جنگ شروع کر دی ۔ اس لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو تو قتل کر دیا مگر اکیدر کو گرفتار کر لیا اور اس شرط پر اس کو رہا کیا کہ وہ مدینہ بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر صلح کرے۔ چنانچہ وہ مدینہ آیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو امان دی۔ (1) (زرقانی ج۳ ص۷۷ و ص۷۸)
    اس غزوہ میں جو لوگ غیر حاضر رہے ان میں اکثر منافقین تھے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ واپس آئے اورمسجد نبوی میں نزولِ اجلال فرمایا تو منافقین قسمیں کھا کھا کر اپنا اپنا عذر بیان کرنے لگے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا لیکن تین مخلص صحابیوں حضرت کعب بن مالک و ہلال بن امیہ و مرارہ بن ربیعہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا پچاس دنوں تک آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بائیکاٹ فرما دیا۔ پھر ان تینوں کی توبہ قبول ہوئی اور ان لوگوں کے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہوئی۔ (2) ( اس کا مفصل ایک وعظ ہم نے اپنی کتاب ”عرفانی تقریریں” میں لکھ دیا ہے۔)                (بخاری ج۲ ص۶۳۴ تا ص۶۳۷ حدیث کعب بن مالک)
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ کے قریب پہنچے اور اُحدپہاڑ کو دیکھا تو فرمایا کہ ھٰذَا اُحُدٌ جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہ، (3) یہ اُحد ہے۔ یہ ایسا پہاڑ ہے کہ یہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
    جب آپ صلی  اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ کی سرزمین میں قدم رکھا تو عورتیں، بچے اور لونڈی غلام سب استقبال کے لئے نکل پڑے اور استقبالیہ نظمیں پڑھتے ہوئے آپ کے ساتھ مسجد نبوی تک آئے۔ جب آپ صلی  اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد نبوی میں دو رکعت نماز پڑھ کر تشریف فرما ہو گئے۔ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا اور اہل مدینہ نے بخیر و عافیت اس دشوار گزار سفر سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر انتہائی مسرت و شادمانی کا اظہار کیااور ان منافقین کے بارے میں جو جھوٹے بہانے بنا کر اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے اور بارگاہ نبوت میں قسمیں کھا کھا کر عذر پیش کر رہے تھے قہرو غضب میں بھری ہوئی قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوئیں اوران منافقوں کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!