اسلام
قیاس کے قضایا کی اقسام
وہ قضایا جن سے مل کر قیاس بنتاہے ان کی دوقسمیں ہیں:
۱۔ یقینیہ ۲۔ غیر یقینیہ
قضایا یقینیہ کی اقسام
ان کی دوقسمیں ہیں :
۱۔ بدیہیات ۲۔ نظریات جوبدیہی طورپر یقین تک پہنچانے والے ہوں۔
قضایائے بدیہیہ کی اقسام
ان کی چھ قسمیں ہیں:
۱۔أَوَّلِیَات ۲۔مُشَاہَدَات ۳۔ مُتَوَاتِرَات
۴۔ تَجْرِبَات ۵۔ حَدْسِیَّات۔ ۶۔فِطْرِیَّات
۱۔اولیات:
وہ قضایا بدیہیہ جن میں یقین محض تصور طرفین اورتصور نسبت سے حاصل ہو اور کسی واسطے یا دلیل کی ضرورت نہ ہو۔ جیسے اَلْکُلُّ أَعْظَمُ مِنَ الْجُزْء (کل جز سے بڑا ہے)۔
۲۔ مشاہدات:
وہ قضایا بدیہیہ جن کے متیقن ہونے کیلئے ”حس ظاہر” یا”حس باطن” کا واسطہ بھی ضروری ہو۔جیسے أَلشَّمْسُ طَالِعَۃٌ ،أَنَا جَائِعٌ میں بھوکاہو۔
وضاحت:
أَلشَّمْسُ طَالِعَۃٌ اس مثال میں آنکھ کے ذریعے ہمیں معلوم ہواکہ سورج چمکنے والا ہے یہ ظاہری حس کی مثال ہے اور انا جائع میں بھوک کا حکم لگانا حس باطنی کی مثال ہے۔
فائدہ:
جن قضایا میں ”حسِ ظاہر” کی ضرورت ہوتوان قضایا کو” حسیات ”اور جن میں” حسِ باطن” کی ضرورت ہو ا نہیں ”وجدانیات” کہتے ہیں۔
۳۔متواترات:
وہ قضایا بد یہیہ جن کایقین ایسی جماعت کے خبر دینے سے حاصل ہوجن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلا محال ہو۔جیسے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کاروضہ اقدس مدینہ منورہ میں ہے۔
۴۔ تجربیات:
وہ قضایا بدیہیہ جن پر یقین باربار تجربہ کی بنا پر حاصل ہو اہو۔ جیسے ڈسپرین سردرد کیلئے مفید ہے۔
۵۔ حدسیات:
وہ قضایا ئے بدیہیہ جن پر یقین کیلئے حدس بھی درکارہوحدس کا مطلب مبادی مرتبہ کا ذہن پر دفعتہ منکشف ہونا۔مثلا: ادراک الاصوات بالسامعۃ، ادراک الالوان والاشکال بالباصرۃ۔ آوازوں کا ادراک قوت سماعت سے اور رنگوں اور شکلوں کا ادراک قوت بصارت سے حاصل ہوتاہے ۔
۶۔ فطریات:
وہ قضایا بدیہیہ کہ جب وہ ذہن میں آئیں تو ساتھ ہی دلیل بھی ذہن میں آجائے۔جیسے اَلأَرْبَعَۃُ زَوْجٌ ۔ اس قضیہ کے ذہن میں آتے ہی فورا دلیل بھی ذہن میں آجاتی ہے کہ چار دوحصوں میں برابر تقسیم ہوجاتاہے اورجو دوبرابرحصوں میں تقسیم ہوجائے وہ جفت ہوتاہے لہذا چار جفت ہے۔
قضایا غیر یقینہ کی اقسام
ان کی سات قسمیں ہیں:
۱۔مُسَلَّمَات ۲۔ مَشْہُوْرَات ۳۔ مَقْبُوْلات ۴۔ مَظْنُوْنَات
۵۔ مُخَیَّلات ۶۔ مُشَبَّھَات ۷۔ وَھْمِیَات
۱۔ مسلمات:
وہ قضایا جو بحث کرنے والے دونوں فریقوں کے درمیان تسلیم شدہ ہوں۔ جیسے:
اَلظُّلْمُ قَبِیْحٌ ۔
۲۔مشہورات:
وہ قضایا جن میں کسی قوم کی را ئیں متفق ہوں۔جیسے: أَلاِحْسَانُ حَسَنٌ۔
۳۔ مقبولات:
بلند مرتبہ ہستیوں کے وہ اقوال جن کو لوگ” حسن ِظن” کی بناء پر قبول کرتے ہیں۔ جیسے حضرت علامہ ومولانا
ابو بلال محمد الیا س عطّار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کا یہ فرمان ہے :
”جسے یہ گر آگیا کہ کونسی بات کہاں کرنی ہے تو وہ معاشرے کابے تاج بادشاہ بن گیا۔”
۴۔ مظنونات:
وہ قضایا جن میں حکم ،ظنِ غالب کی بناپر لگادیا جاتاہو ۔جیسے:زیدرات کو چھپ چھپ کرگلیوں میں گھومتاہے اورہروہ شخص جو چھپ چھپ کر گلیوں میں رات کو گھومے چور ہوتاہے لہذازید چورہے۔
وضاحت:
یہاں زید پر چوری کا حکم ”ظنِ غالب” کی وجہ سے لگایاگیا ہے یقین کی وجہ سے نہیں۔
۵۔مخیلات:۔
وہ قضایا کہ جن کی وجہ سے ذہن میں رغبت یا نفرت پیدا ہوتی ہو۔ جیسے: اَلْعَسَلُ حُلْوَۃٌ (شہد میٹھا ہے) ۔
۶۔ مشبّہات:
وہ قضایا جن میں محض صورۃً مشابہت کی بناء پر حکم لگایا جاتاہے ۔جیسے: گھوڑے کی تصویر دیکھ کر کہا ھٰذَا فَرَسٌ۔
۷۔ وہمیات:
وہ جھوٹے قضیے جس میں وہم ،غیر محسوس کو محسوس قیاس کرنے لگے ۔جیسے: اَلْعَقْلُ مُشَارٌاِلَیْہٖ۔
٭٭٭٭٭