اسلام

رومانی امانتوں کے امین۔۔۔۔۔۔۔۔سورج کرناٹکی

رومانی امانتوں کے امین۔۔۔۔۔۔۔۔سورج کرناٹکی
ہری ہر  ضلع  داونگیرہ  کا ایک چھوٹا سا  سر سبز و شاداب مقام ہے اور آج اس مقام کی انفرا دیت یہ بھی ہے کہ یہ شعر و ادب کا ایک اچھا مرکز بن گیا ہے یہاں نہ صر ف اچھے لکھنے والے موجود ہیں بلکہ یہاں کے عوام میں ایک صحت مند ادبی ذوق  بیدار ہو چکا ہے ۔ 
ادب کی اس سر زمین سے ایک جو اں سال شاعر سورجؔ کر نا ٹکی اپنے پہلے شعر ی مجموعہ ’’ صبح اُمید‘‘کے ساتھ ادبی اُفق پر نمو دار ہو ا تھا ۔اب یہ نہایت ہی حوصلہ افزاء بات ہے کہ وہ پھر سے اپنے دوسرے مجموعہ کلا م ’’ ـــ کرشئمہ حیا ت ‘‘کو لیکر ایوان ادب میں داخل ہورہا ہے 
  نقاش نقش اول بہتر کشد زِ اوّل کے مصداق یہ مجموعہ اپنی معنوی اور صوری خوبیوں کے ساتھ منصہ شہود پر جلوہ گر ہونے والا ہے۔
 سورجؔ کے پہلے مجموعہ صبح اُمید کے مطالعہ سے میں نے یہ بخوبی اند ازہ لگا لیاہے کہ یہ چشمہ ایک دن ضرور ایک دریامیںتبدیل ہوجائے گا ۔دوسرے مجموعہ کا پورا کلام تو میرے پیشِ نظر نہیں ہے صرف چند غزلیں میرے مطالعہ میں ہیں اور گا ہے ماہے ریاستی اخبارات میں ان کی تخلیقات نظر سے گذرتی ہیں اور توجہ طلب ہوتی ہیں ۔  
 اُردو کے بیشتر شعر اء کی طرح سورج ؔنے اپنی شاعر ی کا آغاز غزل ہی سے کیا ہے ۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے مجموعہ میں اس بات کا اظہا ر کیا ہے کہ غزل ان کی محبوب صنف ِ سخن ہے۔
سورج ؔکی شاعری کو پڑ ھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے ان کی شاعری میں ایک سچا اور حقیقی شاعر نشو نما پارہا ہے ۔ سورجؔ کر ناٹکی کو اُردو زبان پر اہلِ زبان کی سی قدرت ضرور حاصل ہے 
ہلکی پھلکی بحروں میں ان کا نرم لب و لہجہ بڑا ہی دلکش معلوم ہوتا ہے ۔ ان کی عمر اورمشق کے لحاظ سے ان کے کلام کو عروضی اور لسانی اعتبار سے جانچنامیرے خیال میں قبل از  بات ہوگی ۔
 جبکہ ہمارے یہاں دھڑا دھڑ جو مجموعے منظر عام پر آرہے ہیں اُن کے آئینے میں مشاق شعر اء 
کا کلا م بھی عیوب و اسقام سے ہر گزر پاک نہیں ہے ۔ 
سورجؔ کے چند اشعار نے تو بیک نظر میری توجہ کو جذب کر لیاہے اور ان کے کلام میں وہ خوبیا ں ضرور موجود ہیں جو اُردو غزل کی بہترین روایات 
کی مظہر ہیں اور سنجیدہ ترین اوصاف کی حامل ہیں ۔ اُن کے تازہ غزلیہ کلام میں چند ایسے اشعار قابلِ توجہ ہیںجن کو مُشتے از خر وارے کے طور پر پیش کر رہا ہوں ۔ جن سے اُن کے مزاج و آہنگ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔
حوصلہ دِل کا ہر ایک گام بڑ ھانا ہو گا 
اِک  نیا  شہر  محبت  کا بسا نا ہو گا 
چاہتے  ہو یہا ں  پیغام ِمسّرت گونجے 
نفرت و یا س کی دیوار کو ڈھانا ہو گا
فلسفہ زندگی کا  اتنا  ہے
کام اوروں کے آنا مر جانا
کر کے وعدہ وفا ئوں کا سورجؔ
ہم کو آتا نہیں مکر جانا
زندگی کو سمجھ  لیا  ہم  نے 
شام کے ساتھ سائے ڈھلتے ہیں
یہ شعر واقعی بڑے خوبصورت ہیں ملاحظہ فرمایئے
حاد ثے ہر حسین چہروں کو 
اک پل میں بگاڑ دیتے ہیں
شر پرستی کے تیز تر  طوفاں 
بستیاں سب اُجاڑدیتے ہیں
میرے سینے میں بھی دل ہے مجھے احساس ہے اسکا 
محبت میں  مجھے  اوروں کو تڑپا نانہیںآتا
میں صابر ہوں ہمیشہ صبر سے ہی کام لیتا ہوں 
مجھے جذبا ت میں آکر بہک جانا نہیں آتا
 انتظار کی کیفیت کو بڑ ے سلیقہ سے پیش کیا ہے ۔ 
 ایک قیامت سی دل پے ڈھاتا ہے
وہ تیرے انتظار کا عالم 
خط کو ئی اُن کا آ گیا ہوتا      سانس راحت کی پاگئے ہوتے 
آپسی نفرتو ں سے شعلوں سے 
جل نہ جائے کہیں یہ گھر اپنا
  شعور کی نا پختگی کو صَرف ِ نظر کر کے دیکھا جا ئے تو سورجؔ کے یہ اشعار اُن کے خوش آئیند مستقبل کے ضامن ہیں ۔ زندگی کے حقائق کو ہلکے پھلکے انداز میں چھو ٹی چھوٹی بحروں میں سمونا سورجؔ کا کمال ہے ۔
ہر غزل میں زندگی کے اقدارکی عکاسی اور تجر بوں کا نچوڑ ملتا ہے ۔ ایک اچھے شاعر کے لئے ضروری ہے کہ وہ روایت کا پاسدار بھی ہو اور جدید تقاضوں کا شعور بھی رکھتا ہو۔سورجؔ کے کلام میں ایسے بے شمار اشعار ملتے ہیں ۔
رہو ںگا کامیا ب اک دن وفاکی راہ میں سورجؔ       
مجھے ناکامیوں پر اشک بر سانا نہیںآتا
 ہم  سخن  کے  نا خدا  کہلا ئیں  گے
دیکھنا ، ایک  ایسا  دن  بھی  آئے گا
  یہ جُرّ اتِ گفتا ر کا اقرار اور عزم شاعرکی ذہنی سطح کی بلندی کا پتہ دیتی ہے  ۔
’’کرشئمہ حیا ت ‘‘میں شامل بیشتر کلا م سورج ؔ کرناٹکی کے تازہ رنگ ِ سخن کا آئینہ دار ہے۔میری رائے میں سورج ؔ کی شاعری میںایک نئے ارتقائی قدم کی چاپ سنائی دیتی ہے ۔یہ تازہ رنگ و نکھار آگے چل کر کس حد تک بار آور اور خود سورج ؔ کیلئے کتنا مبارک و مسعود ثابت ہوگا ۔ اسکے بارے میں کہنا مستقبل کے ادبی مورخ یا نقادکے ہاتھ سے قلم چھین لینے کے مترادف ہوگا ۔ میں سورجؔ کے روشن مستقبل کے لئے بدرگاہِ رب العزّت دُعا گوہوں اور اُمید کرتا ہوں کے قارئین ان گُہر ہا ئے بیش بہا سے ضرورفیضیاب ہوسکیں گے ۔   

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!