اسلام

غلام ربانی فدا

غلام ربانی فداؔ
مجھ سے بڑھ کر مجھے سمجھتا کون
یہ احسان مجھ پر کرتا کون
(میکش اجمیری)
غلام ربانی فداؔ کی پیدائش ہیرور (ضلع ہاویری) میں ہوئی۔والدہ ماجدہ فیروزہ بانو شیوپور تعلقہ ہانگل کی متوطن ہیں اور والد جناب نوراحمداکی اپنے علاقے کے مشہورسیاسی لیڈرہیں۔ہیروراوردارالعلوم قادریہ ڈانڈیلی(ضلع کاروار)اور حیدرآباد(دکن)میں تعلیم کے جملہ مراحل طے ہوئے توحافظ قرآن وقارئ کی سند ڈانڈیلی سے حاصل کی اوردرس نظامی، ایم اے ،ڈپلومہ ان عربک کی حیدرآبادمیں تعلیم مکمل کی۔ دین وادب کی خدمت سے جڑ گیا۔دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کیمپوٹر میں بھی مہارت رکھتاہوں۔ سافٹویئر اورویب ڈیزائننگ نیز کمپوزنگ سےبھی شغف رکھتے ہیں۔اگرکوئی میرامسلک پوچھے توبرجستہ کہوں 
گا میرا مسلک نعت ہے۔ ادب نعت مصطفٰی کافروغ میری زندگی کامقصد ہے۔اسی بناپر اگست ۲۰۱۰ ؁ میں آل انڈیاتحریک فکرنعت کی بنا رکھی ۔جس کامقصد مستحق نعت گو شعراکے مجموعہائے کلام شائع کرانا،ادب نعت کے حوالے سے مذاکرے،نعتیہ مشاعرے منعقدکرنا۔خالص حمدونعت کارسالہ جاری کرناہے۔ اور ہندوستان کاپہلاحمدونعت کامعیاری ادبی رسالہ جہان نعت کااکٹوبر۲۰۱۰ ؁ء میں ہری ہرسے آغازکیا اورالحمداللہ جہان نعت مسلسل شائع ہورہاہے۔جس کے ذریعے حمدونعت کہنے والے شعراکی فکرسازی کی جارہی ہے۔تمام شمارے انٹرنیٹ پردستیاب ہیں جسے مشہورسائٹ گوگل پرjahan-e-naat کے الفاظ میں Searchکیاجا سکتا ہے۔شاعری کی ابتدائی دورمیں جناب میکش اجمیری سے شرف تلمذحاصل کیا۔ ریاست وبیرون ریاستوں کے مختلف اہم شہروں میں مشاعرے پڑھنے کے مواقع ملے۔ملک وبیرون ملک کے رسائل و اخبارات میں کلام اور مضامین شائع ہوئے۔اشاعت کا یہ سلسلہ۲۰۰۵ سے آج تک جاری ہے۔آل انڈیاتحریک فکرنعت کے یراہتمام اب تک درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
تصنیف وتالیف شائع شدہ(بحیثیت مصنف ۔
٭نعتیہ مجموعہائے کلام1) ’گلزارنعت‘‘ ۔2) ’’جلوہ گاہ طیبہ‘‘۔ ۳)یامصطفیٰ  ۴)گلشن مدینہ ۔۵)صحرائے مدینہ
٭غزلیات  ۶)۔’’شہرآرزومیں‘‘ اور۷) غزلیہ دیوان۔’’صحرائے سخن‘‘، 
٭سوانح نگاری میں: ۸)۔ ’’سیدمقبول۔۔۔۔۔کہ گم اس میں ہیں آفاق‘‘ ۔۹)۔داستان کربلا’’صحرالہولہو‘‘۔ ۱۰)علامہ اخترکچھوچھوی ۔فن اور شخصیت۔۱۱)علامہ اخترکچھوچھوی بحیثیت شاعر(طویل مقالہ)۱۲ہمارے بڑے حضرت
٭مضامین کےمجموعے ۱۳)۔۔’’قلم آشنا‘‘ ۔۱۴)۔ ’’آداب نعت گوئی‘‘۔ 
۱۵)کرناٹک میں نعتیہ شاعری
 ٭قرآن اورعصری تحقیقات پرمشتمل۱۶  )۔ ’’قرآن اورکائنات‘‘۔۱۷)۔قرآن اور سائنس (تقابلی مطالعہ) ،۱۸) تذکرۃ الحیوان فی اوراق القرآن،
 ٭۔۱۹)دردکارشتہ(ناول) 
٭انٹرویوز پر مشتمل کتاب :   ۲۰)۔’’روبرو جلداول‘‘ مرتب 
مرتب کردہ ’’جیلانی شاہد کے تین مجموعہائے کلام ۲۱)۔’’جہاں محمدوہاں خداہے‘‘(نعتیہ۲۲)۔خوشبوئے صبا(غزلیات)۲۳)۔گلہائے رنگ رنگ (مختلف اصناف سخن۲۴)۔اردومیں حمدومناجات،۲۵) کرناٹک میں نعت گوئی۔۲۶)سخن وران اشرفی(نتخاب وتذکرہ)۔۲۷)قطرہ قطرہ  دریادیکھوں(یٰسین راہی)۔ ۲۸)کلامِ ظہیرؔ(ظہیرؔرانی بنوری) ۲۹)متاعِ نور (مرحوم غلام احمدنورؔ)۔
اس کے علاوہ کئی خصوصی نمبرات ومجلات میں بحیثیت معاون رہے ہیں۔ جن میں سرفہرست جہان نعت کے خصوصی شمارے، شیخ الاسلام حیات و خدمات کے دومجلات وغیرہا
اس کے علاوہ نثرونظم پرمشتمل مذہبی وادبی سینکڑوں کتابیں اشاعت کے منتظرہیں۔
ڈاکٹرمشاہدرضوی فداؔ کی نعتیہ شاعری پر یوں رقم طراز ہیں:
غلام ربانی فداؔ نے اپنی نعتوں کے حوالے سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزگی و نفاست ، حسن اخلاق،اسوۂ حسنہ، جلال و جمال، معجزات و کمالات، اختیارات و تصرفات، جود و سخا، عفو ودرگزر، لطف و عطاکے علاوہ فراقِ حبیب (ﷺ)، ہجرِ دربارِ رسول(ﷺ) ، آپ سے استغاثہ و فریاد ، احساسِ گناہ، شفاعت طلبی، اصلاحِ معاشرہ، انقلابِ امت وغیرہ جیسے موضوعات کو پیش کیا ہے۔ ’’گلزارِنعت‘‘ میں نعتیہ کلام کے علاوہ مناقب وقصائد کی فصلِ بہاری بھی مشامِ جاں کو معطر کرتی ہے ، فداؔ نے اپنے بزرگوں کے ساتھ جس ارادت و عقیدت کا شاعرانہ اظہار کیا ہے اس کے پُرخلوص ہونے سے انکار ممکن نہیں ہے۔
بہ اعتبارِ مجموعی فداؔ صاحب کی نعت گوئی تصنع و بناوٹ ، افراط و تفریط اور مبالغہ آرائی سے پاک و صاٖف ہے ۔ آپ کے اشعار عقیدت و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ دار ہیں ۔بعض بحریں دل آویز و مترنم ہیں ۔الفاظ و تراکیب کا رکھ رکھاو بھی دل کش و دل نشین ہے۔ آپ کی یہ شعری کاوش قابلِ ستایش ہے ۔ اتنی کم عمری میں ایسا عمدہ ذخیرۂ نعت و منقبت اہلِ علم و دانش کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں یقیناکامیابی حاصل کرے گا۔ شاعرانہ نزاکتوں اور لطافتوں کومشق و ریاضت سے مزیدنکھارتے ہوئے اظہارِ عقیدت و محبت میں فدا ؔ صاحب مستقبل کے بہترین نعت گو شاعر کی حیثیت سے دنیاے ادب میںمقامِ اعتبار حاصل کرتے ہوئے سرخ رُو ہوسکیں؛ یہی میری دلی تمنا اور دعاے قلبی ہے۔     ؎
ہم نے بزمِ خیال سے اپنی
لذتِ یادِ مصطفیٰ مانگی
دل میں یہ آرزو لئے زندہ ہوںآج تک
سرکارمیرے گھرمیں ہوں،ایسی بھی شام ہوں
جوشمع یادِنبی کی جلائی جاتی ہے
توروشنی کی کرن دل پہ چھائی جاتی ہے
صرف ہو شوقِ عبادت نہ رہے زر کی ہوس
اور دل سے نہ کبھی الفتِ سرورجائے
نیچی نظریں کئے دربارمیں ہم آتے ہیں
غم کے مارے ہیں لیے سیکڑوں غم آتے ہیں
ہم کو سرکاربچالیجے کہ ظالم انساں
ہم پہ کرنے کے لئے مشقِ ستم آتے ہیں
تاریک جو راہیں ہیں ہوجائیں گی وہ روشن

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!