اسلام
خون
ایک دم بالکل اچانک ان لوگوں کے تمام کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہو گیا تو ان لوگوں نے فرعون سے فریاد کی، تو اس سرکش نے کہا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جادوگری اور نظربندی ہے۔ یہ سن کر فرعونیوں نے کہا کہ یہ کیسی اور کہاں کی نظر بندی ہے؟ کہ ہمارے کھانے پینے کے برتن خون سے بھرے پڑے ہیں اور مومنین پر اس کا ذرا بھی اثر نہیں تو فرعون نے حکم دیا کہ فرعونی لوگ مومنین کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی نکالیں۔ مگر خدا کی شان کہ مومنین اسی برتن سے پانی نکالتے تو نہایت ہی صاف شفاف اور شیریں پانی نکلتا اور فرعونی جب اسی برتن سے پانی نکالتے تو تازہ خالص خون نکلتا۔ یہاں تک کہ فرعونی لوگ پیاس سے بے قرار ہو کر مومنین کے پاس آئے اور کہا کہ ہم دونوں ایک ہی برتن سے ایک ہی ساتھ منہ لگا کرپانی پئیں گے مگر قدرت خداوندی کا عجیب جلوہ نظر آتا۔ ایک ہی برتن سے ایک ساتھ منہ لگا کر دونوں پانی پیتے تھے مگر مومنین کے منہ میں جو جاتا وہ پانی ہوتا تھا اور فرعون والوں کے منہ میں جو جاتا وہ خون ہوتا تھا۔ مجبور ہو کر فرعون اور فرعونی لوگ گھاس اور درختوں کی جڑیں اور چھالیں چبا چبا کر چوستے تھے مگر اس کی رطوبت بھی ان کے منہ میں جا کر خون بن جاتی تھی۔
الغرض فرعونیوں نے پھر گڑگڑا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی۔ تو آپ نے پیغمبرانہ رحم و کرم فرما کر پھر ان لوگوں کے لئے دعائے خیر فرما دی تو ساتویں دن اس خونی عذاب کا سایہ بھی ان کے سروں سے اٹھ گیا۔ الغرض ان سرکشوں پر مسلسل پانچ عذاب آتے رہے اور ہر عذاب ساتویں دن ٹلتا رہا اور ہر دو عذابوں کے درمیان ایک ماہ کا فاصلہ ہوتا رہا مگر فرعون اور فرعونیوں کے دلوں پر شقاوت و بدبختی کی ایسی مہر لگ چکی تھی کہ پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے اور اپنے کفر پر اڑے رہے اور ہر مرتبہ اپنا عہد توڑتے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا آخری عذاب آگیا کہ فرعون اور اس کے متبعین سب دریائے نیل میں غرق ہو کر ہلاک ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے خدا کی دنیا ان عہد شکنوں اور مردودوں سے پاک و صاف ہو گئی اور یہ لوگ دنیا سے اس طرح نیست و نابود کردیئے گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہیں رہ گیا۔
(تفسیر الصاوی،ج۲،ص۸۰۳،پ۹،الاعراف: ۱۳۳)
قرآن مجید نے ان مذکورہ بالا پانچوں عذابوں کی تصویر کشی ان الفاظ میں فرمائی ہے:۔
فَاَرْسَلْنَا عَلَیۡہِمُ الطُّوۡفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ۟ فَاسْتَکْبَرُوۡا وَکَانُوۡا قَوْمًا مُّجْرِمِیۡنَ ﴿133﴾وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیۡہِمُ الرِّجْزُ قَالُوۡا یٰمُوۡسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ ۚ لَئِنۡ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ ﴿134﴾ۚفَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤی اَجَلٍ ہُمۡ بَالِغُوۡہُ اِذَا ہُمْ یَنۡکُثُوۡنَ ﴿135﴾فَانۡتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّہُمْ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوۡا عَنْہَا غٰفِلِیۡنَ ﴿136﴾
(پ9،الاعراف:133تا136)
ترجمہ کنزالایمان:۔تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن (یاکلنی یا جوئیں)اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے بیشک اگر تم ہم پرسے عذاب اٹھا دو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھا لیتے ایک مدت کے لئے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا اس لئے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے
درس ہدایت:۔(۱)ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ عہد شکنی اور اللہ کے نبیوں کی تکذیب و توہین کتنا بڑا اور ہولناک جرم عظیم ہے کہ اس کی وجہ سے فرعونیوں پر بار بار عذابِ الٰہی قسم قسم کی صورتوں میں اترا۔ یہاں تک کہ آخر میں وہ دریا میں غرق کر کے دنیا سے فنا کردیئے گئے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو عہد شکنی اور سرکشی اور گناہوں سے بچتے رہنا لازم ہے کہ کہیں بداعمالیوں کی نحوستوں سے ہم پر بھی قہرِ الٰہی عذاب کی صورت میں نہ اتر پڑے۔
(۲)حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صبر و تحمل اور ان کی رقیق القلبی بلاشبہ انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ بار بار عہد شکنی کرنے والے اپنے دشمنوں کی آہ و فغاں پر رحم کھا کر ان کے عذاب کو دفع کرنے کی دعا فر ماتے رہے اس سے معلوم ہوا کہ قوم کے ہادی اور ان کے پیشوا کے لئے صبر و تحمل اور عفو و درگزر کی خصلت انتہائی ضروری ہے اور علماء کرام کو جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے نائبین ہیں ان کے لئے بے حد لازم و ضروری ہے کہ وہ اپنے مخالفین اور بدخواہوں سے انتقام کا جذبہ نہ رکھیں بلکہ صبر و تحمل کر کے اپنے مجرموں کو بار بار معاف کرتے رہیں۔ کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مقدس سنت بھی ہے اور ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ ایک بڑا ہی خاص اور خصوصی طرہ امتیاز ہے کہ آپ نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے اپنے دشمنوں سے کوئی بھی انتقام نہیں لیا بلکہ ہمیشہ ان کو معاف فرما دیا کرتے تھے۔ اور یہ آپ کی مقدس تعلیم کا بہت ہی تابناک اور درخشاں ارشاد ہے کہ صِلْ مَنْ قَطَعَکَ وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ وَاَحْسِنْ اِلٰی
مَنْ اَسَاءَ اِلَیْکَ یعنی تم سے جو تعلق کاٹے تم اس سے تعلق جوڑو۔ اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔ اور جو تمہارے ساتھ بُرا برتاؤ کرے تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے اسی حدیث کی ترجمانی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
بدی رابدی سہل باشد جزا اگر مردی اَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَا
یعنی برائی کا برا بدلہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن اگر تم جوان مرد ہو تو برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرو۔