اسلام
قضیہ شرطیہ کی تقسیم
قضیہ شرطیہ کی تین طرح سے تقسیم کی جاتی ہے۔
۱۔۔۔۔۔۔ حکم کے اتصال وانفصال کے اعتبار سے۔
۲۔۔۔۔۔۔حکم کے تقدیرِ معین پر ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے۔
۳۔۔۔۔۔۔ طرفین کی اصل کے اعتبار سے۔
۱۔ حکم کے اتصال وانفصال کے اعتبار سے
قضیہ شرطیہ کی تقسیم
اس اعتبار سے قضیہ شرطیہ کی دوقسمیں ہیں: ۱۔ متصلہ ۲۔منفصلہ
۱۔قضیہ شرطیہ متصلہ:
وہ قضیہ جس میں ایک قضیہ کے تسلیم کرلینے پر دوسرے قضیہ کے ثبوت یا نفی کا حکم لگایا جائے۔ اگر ثبوت کا حکم ہوتواسے متصلہ موجبہ کہیں گے۔جیسے: اِنْ کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ (اگرسورج نکلے گا تو دن موجود ہوگا)اور اگر نفی کا حکم ہوتواسے متصلہ سالبہ کہیں گے جیسے لَیْسَ أَلْبَتَّۃَ کُلَّمَا کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً کَانَ اللَّیْلُ مَوْجُوْدًا (ایسا نہیں ہے کہ جب سورج طلوع ہوتو رات موجودہو) ۔
وضاحت:
اگرپہلی مثال میں کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً کو مان لیاجائے تودن کی موجودگی کا حکم لگایا جائے گا۔اسی طرح دوسری مثال میں پہلے قضیے (کُلَّمَاکَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃ) کومان لیا جائے تو رات کی نفی کا حکم لگایا جائے گا ۔
۲۔ قضیہ شرطیہ منفصلہ:
وہ قضیہ شرطیہ ہے جس میں دو چیزوں(مقدم اور تالی) کے درمیان منافات (جدائی) ہونے کا حکم لگایا گیا ہو۔یا دو چیزوں(مقدم اور تالی)کے درمیان سے منافات اور ضدیت(جدائی) کی نفی کردی گئی ہو۔ اول کو ”منفصلہ موجبہ” اور ثانی کو” منفصلہ سالبہ” کہتے ہیں۔
موجبہ کی مثال: ھٰذَاالشَّیْءُ اِمَّا شَجَرٌ أَوْحَجَرٌ ۔ یہاں اس بات کا حکم ہے کہ شجراورحجر ایک دوسرے کے منافی ہیں یعنی دونوں کے درمیان جدائی ثابت کی گئی ہے۔لہذا یہ شئی یا شجر ہوگی یا حجر۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک شے شجر بھی ہو اور حجر بھی۔
سالبہ کی مثال: لَیْسَ أَلْبَتَّۃَ اِمَّااَنْ تَکُوْنَ الشَّمْسُ طَالِعَۃً أَوْ یَکُوْنَ النَّھَارُ مَوْجُوْدًا (ایسا نہیں ہوسکتا کہ یا تو سورج نکلے گایا دن موجود ہوگا) یہاں یہ حکم نہیں کہ سورج کے نکلنے اور دن کے موجود ہونے میں منافات ہے۔ بلکہ ان کے درمیان سے منافات(جدائی) کی نفی کی گئی ہے۔یعنی جب سورج نکلے گا تو دن ضرور ہوگا۔
٭٭٭٭٭