اسلام

یٰسین راہیؔ۔۔۔۔ اردوادب کا درخشاں ستارہ

یٰسین راہیؔ۔۔۔۔ اردوادب کا درخشاں ستارہ
 اردو فنِِ شعر کی تاریخ ڈاکٹریٰسین راہیؔ جیسے کئی تابندہ ودرخشاں ناموں سے جگمگا رہی ہے اور آج کے جدید دور میں جبکہ کچھ افراد کے خیال میں اردو شاعری زوال پذیر ہے‘ ایسے شاعر بھی موجو د ہیں جو اپنی عمدہ شاعری سے ناقدین کا بھرم توڑدیتے ہیں اور ان میں سےایک ڈاکٹریٰسین راہیؔ ہیں جن کا دوسرا شعری مجموعہ ’’’گلاب لہجہ ‘‘‘ حالیہ دنوں اشاعت کے مراحل سے گزر کر آپ تک پہنچا ہے اوران شاء اللہ بہت پذیرائی حاصل کرے گا۔
اس سے قبل ڈاکٹریٰسین راہیؔ کا شعری مجموعہ’ قطرہ قطرہ دریادیکھوں‘ شائع ہوچکا ہے۔ حالیہ مجموعہ کلام میں غزلوں کی تعداد80سےزائدہے اور سب کی سب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
ادب ارتقاء سے تعبیر ہے اورڈاکٹریٰسین راہیؔ بلاشبہ شعری ادب میں جدت پر یقین رکھنے والے شاعر ہیں اور ان کے اشعار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ لفظوں اور تشبیہات کو انتہائی خوبی کے ساتھ نئے اندا زمیں استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں، 
ان کی کتاب ’’گلاب لہجہ ‘‘میںجن اشعار کو سرنامۂ کلام کہاجاسکتاہےاس قبیل کے چنداشعارملاحظہ کیجئے گا۔
چمن میں ایسا انوکھا حساب  رہنے دو 
ہمارے خار ، تمہارے گلاب رہنے دو 
دل و نگاہ میں قہر و عتاب رہنے دو
عدو میں اور ذرا اضطراب رہنے دو
میرا آنگن میرے بچے میرا گھر اچھا لگا 
باندھ کر دستار مجھکو اپنا سر اچھا لگا 
بولنا اپنائیت سے مختصر اچھا لگا 
لہجۂ شیریں ترا شام و سحر اچھا لگا 
اردو غزل بہت حد تک اپنی ہیت تبدیل کرچکی ہے اور اب یہ محب و محبوب کے روایتی تصور سے باہر آکر نئے فکری میدانوں کو مسخر کررہی ہے اور آج کےد ور میں وہی شاعر کامیاب اور مقبو ل ہے جو اپنے ارد گر د کے حالات سے ناصرف واقف ہے بلکہ انہیں شعری قالب میں بھی ڈھال رہا ہے اور یہی وسعتِ نظری ہمیںڈاکٹریٰسین راہیؔ کے ہاں بھی نظر آتی ہے ۔ان کے اشعاران کے دور کے سماجی حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔
نمک کی جہاں پھر اپج ہو رہی ہے 
وہیں میرے زخموں کی محفل سجی ہے
مری ماں کی ممتا جو روٹھی ہوئی ہے 
عجب دل کی دنیا میں اک تیرگی ہے 
اپنے چہرے کو بس نیا دیکھا 
اُس نے جب جب بھی آئینہ دیکھا 
پیار   ، وفا  ، اخلاص ،  سبھی
ان کو اپنی ذات میں رکھ  
تھکا ہارا ہر اک مزدور زمیں پر نیند کرتا ہے 
طلب اسکی نہیں رہتی کسی تکیہ سے بستر سے
جب کسی ملک کے معاشی حالات زوال کی جانب گامزن ہوتے ہیں تو اس ملک میں علم و ادب کے لیے اپنی بقا کی جنگ جاری رکھنا مشکل ہوجاتا ہے اور ایسے ہی کچھ حالات آج ہندوستان کے اہل علم و فن کو بھی درپیش ہیں اور یقیناًراہیؔ اس صورتحال کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔
کل کا راؔہی خدا محافظ ہے 
میں نگاہوں میں آج رکھتا ہوں

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

شاعر‘ حال کے نوحہ گر اور مستقبل کے سندیسہ نویس ہوا کرتے ہیں۔ ان کا ہاتھ زمانے کی نبض پرہوتا ہے اور وہ آنے والے وقتوں کی اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک رکھتے ہیں اوربحیثیت شاعر یہی سلسلہ ہمیں راہیؔ کے ہاں بھی نظرآتا ہے۔
اپنے چہرے کو بس نیا دیکھا 
اُس نے جب جب بھی آئینہ دیکھا 
کس درجہ الجھنیں ہیں ہم ہی جانتے ہیں دوست 
اب کیا بتائیں آپ سے گھر کیوں نہیں جاتے 
جدید موضوعات کو تراشنے والےراہیؔ ایسا نہیں کہ روایتی شاعری کی لطافت اور اہمیت سے نا آشنا ہیں۔ عشق و وصال کے لطیف جذبے ان کے ہاں انتہائی شائستگی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔
تمہاری خاطر تمہی کو تم سےمیں چھین لونگا یقین رکھو
اسی تفکر میں ہر گھڑی میں ٹہل رہا ہوں تو چل رہا ہوں
میں دھوپ کی ان تمازتوں میں امید کا اک دیا جلا کر 
جو موم بن کریوں قطرہ قطرہ پگھل رہا ہوں تو چل رہا ہو ں
یٰسین راہیؔ نےسن1963میں ضلع بلگام کےشہرگوکاک کے ایک  سادات گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں ان کا بچپن آسودگیوں سے نا آشنا گزرا۔ یہ آسودگی دولت کی قلت نہیں بلکہ ایام طفلی میں والدین جیسی عظیم نعمت سے محرومی تھی اور پھر یہی نا آشنائی ان کی ذات کی آشنا بن کر ان کے اشعار میں اتر آئی۔یوں توراہیؔکاآبائی وطن شاہنورضلع ہاویری سے ہے اور پیربنگڑی شاہ ولی علیہ الرحمہ شاہنورسے تعلق بیعت وارادت بھی حاصل ہے ۔
راہیؔنے گوکاک ہی میں تعلیم مکمل کی اور ادبی سرگرمیوں کا آغازکیا،گورنمنٹ بی ایڈکالج بلگام سے سن 1986 میںبی ایڈ کی سندحاصل کی۔ اورسن1987 میں ملازمت کاآغاز بلگام کے قدیم ومرصع ادارہ اسلامیہ کمپوزٹ پی یوکالج سے کئے اورزندگی کی 32 بہاروں سے بلگام کے نونہالوں کو نورِعلم سے منورکررہے ہیں ۔سودتی وچپلون نیزشہربلگام کے الامین ادارےمیں بہت کم وقت کے لیےخدمت درس وتدریس سے وابستہ رہے۔دوران تدریس نہ صرف طلبا وطالبات کے دلوں میں اپنی قابلیت وصلاحیت کے نقوش مرتب کئے بلکہ محکمۂ تعلیم کے نصابی کتب کمیٹی کے چیرمین کے حیثیت سے  اورریاست کرناٹک میں اردوکےریاضی وسائنس مضامین کے طبقہ میں بہ حیثیت صاحبِ وسائل اپنی خدمات احسن انداز میں انجام دیں اور اب تک دیتے آرہے ہیں۔فی الحال اسلامیہ پی یوکالج بلگام میں صدرمدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

راہیؔ نےسن 1985 میں شعر کہنے کی ابتدا کرنے کے بعد شاعری کا باقاعدہ آغاز انہوں نے و رریاستی اور غیر ریاستی مشاعروں میں شرکت کی اور اپنے منفرد لب ولہجے کی بنا پر اپنا مخصوص حلقہ سامعین تشکیل دیا ۔اور ابتدا میں شاعری کے ساتھ ساتھ درجن بھر سے زائد افسانے بھی تحریر کئے۔

راہیؔبنیادی طورپر غزل کے شاعر ہیں تاہم کبھی کبھی منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کی خاطر نظم کہتے ہیں اور ان کا کلام مختلف ادبی رسائل و جرائد اور اخبارات کی زینت بھی بنتا رہتا ہے۔مجموعہ کے ترتیب کے دوران راہیؔ کی بے شمار نظمیں، قطعات اوردیگرکلام زیرنظررہے ۔اس خیال سے دیگر اصناف کو پرے رکھا گیاہے کہ اس مجموعے میں صرف اورصرف غزلیات شامل کی جائیں تاکہ بقیہ نظموں کاعلاحدہ سے ایک مجموعہ ترتیب دیاجاسکے۔
٭٭٭
ڈاکٹرغلام ربانی فداؔ(جہان نعت ہیرور)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!