اسلام
غزوہ غطفان
ربیع الاول ۳ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ نجد کے ایک مشہور بہادر ”دعثور بن الحارث محاربی”نے ایک لشکر تیار کر لیا ہے تا کہ مدینہ پر حملہ کرے۔ اس خبر کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم چارسوصحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی فوج لے کر مقابلہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ جب دعثور کو خبر ملی کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہمارے دیار میں آ گئے تو وہ بھاگ نکلا اور اپنے لشکر کو لے کر پہاڑوں پر چڑھ گیامگر اس کی فوج کا ایک آدمی جس کا نام ”حبان” تھا گرفتار ہو گیا اور فوراً ہی کلمہ پڑھ کر اس نے اسلام قبول کر لیا۔
اتفاق سے اس روز زور دار بارش ہو گئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے لیٹ کر اپنے کپڑے سکھانے لگے۔پہاڑ کی بلندی سے کافروں نے دیکھ لیا کہ آپ بالکل اکیلے اور اپنے اصحاب سے دور بھی ہیں، ایک دم دعثور بجلی کی طرح پہاڑ سے اتر کر ننگی شمشیر ہاتھ میں لئے ہوئے آیااور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سر مبارک پر تلوار بلند کرکے بولا کہ بتائیے اب کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچا لے؟ آپ نے جواب دیا کہ” میرا اﷲ مجھ کو بچا لے گا۔” چنانچہ جبریل علیہ السلام دم زدن میں زمین پر اتر پڑے اور دعثور کے سینے میں ایک ایسا گھونسہ مارا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی
اور دعثور عین غین ہو کر رہ گیا۔ رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فوراً تلوار اٹھا لی اور فرمایا کہ بول اب تجھ کومیری تلوار سے کون بچائے گا؟ دعثور نے کانپتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ”کوئی نہیں۔” رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی بے کسی پر رحم آگیااور آپ نے اس کا قصور معاف فرما دیا۔دعثور اس اخلاقِ نبوت سے بے حد متاثرہوااور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیااور اپنی قوم میں آ کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگا۔
اس غزوہ میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی اورحضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گیارہ یاپندرہ دن مدینہ سے باہررہ کرپھرمدینہ آگئے۔(1)(زرقانی ج۲ص۱۵وبخاری ج۲ص۵۱۳)
بعض مورخین نے اس تلوار کھینچنے والے واقعہ کو ”غزوهٔ ذات الرقاع” کے موقع پر بتایا ہے مگر حق یہ ہے کہ تاریخ نبوی میں اس قسم کے دو واقعات ہوئے ہیں۔ ”غزوهٔ غطفان” کے موقع پر سر انور کے اوپر تلوار اٹھانے والا ”دعثور بن حارث محاربی” تھاجو مسلمان ہو کر اپنی قوم کے اسلام کا باعث بنااور غزوہ ذات الرقاع میں جس شخص نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تلوار اٹھائی تھی اس کا نام ”غورث” تھا۔ اس نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ مرتے وقت تک اپنے کفر پر اڑا رہا۔ ہاں البتہ اس نے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کبھی جنگ نہیں کریگا۔(2) (زُرقانی ج۲ ص۱۶)