اسلام
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی روحانی و انقلابی شخصیت
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
روحانی و انقلابی شخصیت
از : مولانا حافظ سید شاہد محی الدین ‘
ریسرچ اسکالر جامعہ نظامیہ، ایم اے عثمانیہ یونیورسٹی
حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی ذات گرامی اپنے وقت کی ایک عظیم دینی وروحانی اور انقلابی شخصیت رہی ہے، درس وتدریس، تصنیف وتالیف آپ کے اہم مشاغل سے تھے، آپ کی ذات گرامی ایک عہد ساز شخصیت اور انسانی تاریخ میں صالح انقلاب کیلئے مشہور ومعروف رہی ہے آپ نہ صرف ایک عالم ،عارف ،معلم ،مصنف رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک عظیم مدبر ،مصلح قوم اور ماہر تعلیم ،و ماہر قانون رہے ہیں ،جہاں آپ شروع ہی سے علماء ومدارس دینیہ کی سر پرستی فر ماتے رہے ہیں وہیں آپ نے وقت کے تقاضوں اور حالات کے پیش نظر جامعہ نظامیہ کی نہ صرف تاسیس کے ذریعہ علم وعرفان کا ایک عظیم چشمہ جاری فرمایا ،وہ شیخ الاسلام کہ ستارے جن کی گرد راہ تھے وہی کاروان علم وعرفان کے میر کارواں بنکر اس دانش کدہ کی ۴۲؍برس تک تادم زیست بنفس نفیس نگرانی فرماتے رہے ، اور مکتب کو جامعہ کی شکل دی اور ذرہ کو آفتاب بنایا،اس قلیل عرصہ میں میکدئہ علم وعرفان کو ایک بہار آفریں انقلاب عطا کیا،جو دکن کے مطلع پر نیر تاباں بن کر طلوع ہوا اور ایسا خورشید بن کر چمکا کہ سارے عالم نے اس کی کرنوںسے استفادہ کیا، اور اس مینارئہ نور نے جہالت کی تاریک وادیوں میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو سب سے پہلے پڑہنے ، قلم پکڑنے،علم سیکھنے کی ، تعلیم دی ، کہ جب علم کی شمع روشن ہو جائیگی اور فکر ونظر کا چراغ جلے گا تو خود بخود جہالت کی تاریکیاں چھٹ جائیں گی اور گمراہی کے تمام پردے چاک ہوجائیں گے اور ظلم وناانصافی کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے ،شرک واوہام پرستی کا بھی خاتمہ ہو جائیگا اور شب تاریک سے صبح امید طلوع ہوگی،اور انسانیت کو امن و آشتی،سکون قلب ،سلامتی فکر ونظرحاصل ہوجائے گی،اخوت وبھائی چارگی ،محبت واحترام آدمیت کی متا ع گراں مایہ ہاتھ آجائیگی، چنانچہ ہادیٔ عالم کی ہدایت منامی پر دکن لوٹنے والے رجل کامل (حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ) نے تحریری ،تقریری اور عملی طور پر انسانیت کی اصلاح فرمائی،جس سے اہل دکن کی قسمت چمکی۔
تھی آرزو مدینہ میں رہنے کی عمر بھر
وہ بھی نبی(ﷺ) کے حکم پہ واری ہے دیکھئے
حکم نبی(ﷺ) سے شہرِ مدینہ کو چھوڑکر
قسمت دکن کی آکے سنواری ہے دیکھئے
(فہیم ؔ)
اور اپنی عملی جہت سے گھر بار اور دوسرے اسباب وآسائش سے بڑھ کر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی طر ف مسلمانوں کی توجہ مبذول کروائی ،کیونکہ جو قوم اپنا سب کچھ قربان کرکے علم کا چراغ روشن کرنا نہ جانتی ہو،سربلندی ودرخشانی کبھی اس قوم کا حصہ نہیں بن سکتی۔
تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ۱۸۵۷ء ہی سے مسلمانوں کے حالات انحطاط پذیر ہو چکے تھے ،عام طو رپر تعلیم سے دوری اخلاق عالیہ واعمال فاضلہ سے بے رغبتی عام ہوگئی تھی ،علم ومعرفت و خدا ترسی کی جگہ خرافات اور اوہام فاسدہ نے لے لی تھی، انسانی معاشرہ بد عملی ، بے راہ روی، دینی ودنیوی سارے امور میں افراط وتفریط کا شکا ر ہوچکا تھا ،ایسے نازک حالات میں آپ نے وقت کے مدبر ،سنجیدہ اور انسانیت کا درد وفکر رکھنے والے علماء کی ایک جماعت کو مؤرخہ ۱۹؍ذی الحجہ ۱۲۹۲ھ م۱۸۷۴ء دوشنبہ کے دن مولانا مظفر الدین معلیؔ رحمہٗ اللہ کے مکان واقع عثمان شاہی عقب کتب خانہ آصفیہ مدرسہ نظامیہ کے قیام کے سلسلہ میں جمع فرمایا اور ایک مجلس منعقد فرمائی اور اس مجلس میں شریک سارے علماء نے حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کو ہر اعتبار سے اپنا بڑا جان کرمنصب صدارت پر فائز فرمایا، چنانچہ مدرسہ قائم ہوااور اسی جگہ کا م کرتا رہا ، بعد ازاں اسی کے قرب وجوار میں دوتین مکانات میں منتقل ہونے کے بعد وقت وحالات نے دارالاقامہ کے قیام کی ضرورت محسوس کروائی ، چنانچہ دار الاقامہ کا قیام عمل میں آیا، دارالاقامہ کے قیام کے بعد یہ جگہ ناکافی ہونے لگی تو تقریبا قیام کے دس سال بعد ۱۳۰۲ھ میں یہ مدرسہ مولوی امیر الدین پونیری رحمہ اللہ کے مکان میں منتقل ہوا ،چند سال بعد یہاں سے بھی اس کو منتقل کرنا پڑا ، پھر قیام کے ۲۷؍ سال بعد آصف جاہ ششم شاگر د رشیدحضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے ۱۳۱۹ھ میں محلہ شاہ گنج میں ایک شاندار ووسیع اور پختہ عمارت مدرسہ کیلئے عطا کی بعد ازاں جامعہ نظا میہ کیلئے ایک اور مقام محلہ شبلی گنج میں بادشاہ وقت کی طرف سے دیدیا گیا اور اس کی تعمیر وترمیم کے بعد مدر سہ نظامیہ کی منتقلی شبلی گنج میں ہوئی جہاں اب جامعہ نظا میہ قائم ہے۔مذکورہ شاہ گنج کے مکان کو مدرسہ کی جانب سے دائرۃ المعارف کے مطبع کیلئے مستعار دیا گیاتھا ، جامعہ نظامیہ کی یوم تاسیس سے آ ج تک کئی ایک ماہرین علم وفن ،معلمین وقائدین ،محققین و مصنفین، صحافی، وکلاء، اد باء ، شعراء نکلے جنہو ں نے مختلف شعبوں میں اپنی خدمات کے ذریعہ ایک تاریخ بنائی ،جامعہ نظا میہ کے فیض یافتہ اور اس شجر علم کے زیر سایہ علمی وروحانی کمال حاصل کرنے والوں کی ایک ان گنت تعدادہے،جو خود بھی اپنے اپنے وقت میں آسمان علم وادب پر انجم وکہکشاں بن کر جگمگائے اور جن کی روشنی وضیا باری نے ایک عالم کو روشن ومنور کیا ان میں سے چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں ۔
حضرت مظفر الدین معلیؔ الصدیقی رحمہ اللہ ،حضرت ندیم اللہ البختیاری ،حضرت مولانا عبد الکریم الافغانی ،حضرت مولانا مفتی محمد رکن الدین رحمہ اللہ، حضرت مولانا عبد الصمد قندہاری رحمہ اللہ ، حضرت عبدالباسط رحمہ اللہ ، حضرت مفتی سید احمد علی رحمہ اللہ، حضرت ڈاکٹر عبدالحق رحمہ اللہ ، حضرت حکیم ابو الفداء محمود احمد رحمہ اللہ ، حضرت حکیم محمود صمدانی رحمہ اللہ ،حضرت سید شاہ ابوالقاسم شطاری رحمہ اللہ، حضرت مفتی سید محمود رحمہ اللہ ،حضرت مولانا ابو الوفاء الافغانی رحمہ اللہ ،حضرت سید شاہ ابراہیم ادیب رحمہ اللہ ،محدث دکن حضرت سید عبد اللہ شاہ نقشبندی رحمہ اللہ ،حضرت سید محمد باشاہ حسینی لئیقؔ رحمہ اللہ ،حضرت نذر محمد خان نقشبندی رحمہ اللہ ،حضرت محمد اکبر علی رحمہ اللہ، حضرت عبدالواحد اویسی رحمہ اللہ،حضرت مفتی اشرف علی اشرفؔ رحمہ اللہ ،حضرت مفتی سید مخدوم حسینی رحمہ اللہ حضرت مفتی مخدوم بیگ رحمہ اللہ ، حضرت شیخ سالم بن صالح باحطاب رحمہ اللہ،حضرت شیخ صالح باحطاب رحمہ اللہ، حضرت سید شاہ سیف شرفی رحمہ اللہ ،حضرت مفتی محمدرحیم الدین رحمہ اللہ، حضرت سید فرید بادشاہ رحمہ اللہ ،حضرت عبد الحمید صدیقی رحمہ اللہ ، حضرت حاجی منیر الدین رحمہ اللہ،شہنشاہ رباعیات حضرت سید احمد حسین امجدؔ رحمہ اللہ ،حضرت صفیؔ اورنگ آبادی رحمہ اللہ ، حضرت میر حسین علی افسرؔ رحمہ اللہ ، مفسر قرآن حضرت قاری عبدالباری رحمہ اللہ، حضرت ابوالخیر کنج نشین رحمہ اللہ،حضرت غلام محمد رحمہ اللہ،حضرت عبد الرحمن بن محفوظ الحمومی سابق شیخ التجوید، حضرت محمدالطاف حسین فاروقی رحمہ اللہ ،حضرت نور اللہ قادری رحمہ اللہ ،حضرت سید حبیب اللہ قادری رشید پاشاہ رحمہ اللہ ،ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمہ اللہ ،حضرت صد رالشیوخ سید شاہ طاہر رضوی القادری رحمہ اللہ ،حضرت عبد الحفیظ جنیدی رحمہ اللہ وغیرہ ہیں۔
حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات تادم زیست جامعہ نظامیہ کیلئے وقف رہی اور ا س کی ہمہ جہتی ترقی میں وہ دن رات مصروف رہے ، حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے اخلاص کی برکت تھی کہ اس کی شہرت سارے عالم میں نور وروشنی بنکر پھیل گئی جس کے نتیجہ میں ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ہند سمرقند ،بخارا،افغانستان اور عالم عرب کے طلباء حصول علم کیلئے جامعہ آتے رہے اور اپنی علمی پیاس بجھا کر وطن واپس لوٹتے رہے اور الحمد للہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ، کیرالہ، مدھیہ پردیش، کرناٹک ، مہاراشٹرا، بہار ، یوپی،کے علاوہ اور دوسرے مقامات کے طلباء ہر سال جامعہ کی ابتدائی،وسطانی اور اعلی جماعتوں میں داخلہ لیتے ہیں اور تحصیل علم میں مصروف ہوتے ہیں اور یہاں کے اجلہ علماء سے علمی فیض حاصل کرتے ہیں ،جامعہ کے نصاب تعلیم اور یہاں کے اساتذہ کی مخلصانہ علمی خدمات اور ان کی اعلی صلاحیتوں سے متاثرہوکر کئی ایک عرب علماء جامعہ کے امتحانات میں شریک ہورہے ہیں اور کئی ایک عرب علماء نے یہاں کے اساتذہ کی زیر نگرانی اپنے علمی تحقیقات کی تکمیل کرکے دکتورہ کی سند حاصل کی ہے اور کررہے ہیں۔ چنانچہ ملک شام کے ممتاز عالم دین فضیلۃ الشیخ فواد البرازی نے ’’حجاب المرأۃ فی الاسلام‘‘ کے عنوان پر تحقیقی مقالہ جامعہ کے ممتاز علماء کرام کی زیر نگرانی تکمیل کیااور دکتورہ کی سند مناقشہ(viva) کے بعد حاصل کی ،حال ہی میں مزید دو علماء نے اپنے تحقیقی مقالہ پیش کئے ،جو اپنے عنوان اور اس کے مواد کے اعتبار سے تحقیقی دنیا میں ایک بے نظیر وبے مثال کوشش ہے ،کویت کے عالم دین فضیلۃ الشیخ شیخ حسین حفظہ اللہ نے ’’خصال الفطرۃ فی الفقہ الاسلامی‘‘ کے عنوان سے جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں اسلامی اصولوں کی سچائی اور ان کے فطری ہونے کی صداقت کو پیش کیا ہے،اور یہ مقالہ انہوں نے مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی خلیل احمدحفظہ اللہ شیخ الجامعہ کی زیر نگرانی تیار کیا ہے، دوسرے کویت کے ممتاز عالم فضیلۃ الشیخ محمد یاسر القضمانی نے ’’حروف الزیادۃ فی اللغۃ والقرآن الکریم ‘‘کے زیر عنوان مقالہ پیش کیا ہے ،جس کو ممتاز عالم دین وادیب بے بدل حضرت مولانا محمد عبد اللہ القریشی الازہری مدت فیوضہ نائب شیخ الجامعہ کے زیرنگرانی ترتیب دیاہے،ہردونے جدہ میں منعقدہ مناقشہ (viva) کے بعد دکتورہ کی اسناد حاصل کی ہیں ،ان کے علاوہ کئی ایک نوجوان فارغین علم منفرد موضوعات پر تحقیقی مقالہ جات کی تیار ی میں مصروف ہیں ۔
بانی جامعہ علیہ الرحمہ نے جہاں علوم دینیہ تفسیر، حدیث،فقہ، افتاء ، ادب عربی، منطق، فلسفہ ، کلام و عقائد ،تاریخ وسیرت کی تدریس اور اس کی اعلی تعلیم کا انتظام فرمایا وہیں ایک علحدہ شعبہ خدمات شرعیہ کیلئے قائم فرمایااور خدمات شرعیہ کا کام کرنے والے افراد کی تعلیم وتربیت کا نظم اور اس کیلئے ایک علحدہ نصاب مرتب کیا اور اس کیلئے امتحانات مقرر فرمائے اور آپ نے خدمات شرعیہ کے منتظمین کیلئے اس شعبہ میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کو لازمی قرار دیا اور اس کے تحت ملا ،مؤذنی ،امامت،خطابت، قضائت ،تجوید وقرات واحدہ، سبعہ وعشرہ وغیر ہ کے شعبے قائم فرماکر مسلمانوں پر ناقابل فراموش احسان فرمایا، علاوہ ازیں آپ نے تمام طلباء بشمول اہل خدمات شرعیہ سب کیلئے رہنے سہنے ،کھانے پینے ،علاج ومعالجہ ،لباس ودرسی کتب وغیرہ کا بلامعاوضہ بندوبست کیا ،اور اس طرح سے امت مسلمہ کے بے مایہ افراد کیلئے حصول علم کی راہ کو آسان فرمادیا۔
حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ نے اصلاح معاشرہ کے نقطہ نظر سے ’’انجمن اصلاح مسلمین‘‘ قائم فرمائی جس کی غرض اس کے نام سے واضح ہے ،اور بہت ساری وہ خرابیاںجو معاملات نکاح میں ظہور پذیر ہوگئی تھیں ،ان کی دوری کے اہتمامات فرمائے ، لوگ جعلی دستاویزات بناکر وراثت اور مہر کے جھوٹے دعوے کیا کرتے تھے ،جس کی اصلاح کیلئے آپ نے نکاح نامے مرتب کروائے ، جن میں ایجاب وقبول ،شہادت ، مقدار مہر، تاریخ نکاح کااندراج لازم قرار دیاگیا ،ورنہ اس سے پہلے یہ سارے معاملات زبانی ہوا کرتے تھے اور نزاع یا طلاق کی صورت میں پیچیدہ ہوجاتے تھے اور وہی آپ کے مرتب کردہ سیاہہ جات آج بھی مروج ہیں، اور امتحان قضائت میں کامیاب اشخاص کے تقرر کو لازم قراردیا، صدارت العالیہ کو مستقل محکمہ کا روپ دیا ، اور اس کے عملہ میں توسیع کی اور ایک مستقل عملہ اس کیلئے مخصوص فرمایا، بعد توسیع آپ نے اصلاح مسلمین ،انتظام سیاہہ جاتِ نکاح وتنقیح خدمات شرعیہ کا کام اس کے سپر د کیا ، مسلخوں میں بھی بے اعتدالی تھی اور ذبح کیلئے ایسے لوگ مقرر تھے جو مسائل ذبح سے لا علم تھے آپ نے مسائل ذبح سے واقف لوگوں کو مقرر فرماکر مسلمانوں کو حرام ذبیحہ کھانے سے محفوظ فرمادیااورجامعہ کے امتحان ’’ملا‘‘میں کامیاب اشخاص کے تقرر کو لازمی قرار دیا، زمانہ قدیم سے یہ دستور تھا کہ اعراس کے مو اقع پر اولیاء کرام قدست اسرارہم کی مزارات کے قرب وجوار میں طوائفیں مجرا کیا کرتی تھیں، یہ اور اس طرح کے کئی ایک ناروا رسوم جاری تھے ، جو یقینا حق سبحانہ وتعالی کی ناراضگی کا باعث بنے ہوئے تھے آپ نے حکم صادر فرماکر ان سب کا قلع قمع کردیا اور حکمت ومصلحت کی شبنم سے اس فتنہ کے شعلوں کوبجھادیا ، ریاست حیدرآباد میں ناپ تول میں کمی کا رواج عام تھا ،اور اوزان وپیمانہ صحیح نہ تھے آپ نے اوزان کے باٹ اور پیمانوں کی تنقیح فرماکر صحیح پیمانے جاری کروادیئے ، موجودہ ناپ تول کے پیمانے آپ ہی کے جاری کردہ ہیں،حیدرآباد کے مسلمان تجہیز وتکفین کی تکمیل نہ کرسکتے تھے اس فرض کفایہ کی ادائیگی کیلئے ایک پیشہ ور جماعت غسالوں کے نام سے موسوم تھی ، ان کا یہ حال تھا کہ دین سے بیگانہ اور مسائل شرعیہ سے ناواقف تھے، جس کی وجہ تجہیز وتکفین حسب احکام شر ع نہ ہوپاتی تھی حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس جہالت وناواقفیت کے انسداد کیلئے مذکورہ امتحانات میں کامیاب اشخاص کا تقررفرمایا اور یہ حکم صادر فرمایا کہ کوئی پیشہ ور غسال جب تک اس امتحان میں کامیابی حاصل نہ کرلے تب تک یہ فریضہ انجام نہ دے، اور شہر میں منشیات کے کاروبار کو قانونا ممنوع قراردیا اور اس کی دوکانیں بیرون شہر منتقل کروادیں ،احترامِ رمضان کے سلسلہ میں دن کے اوقات میں ہوٹلوں پر پردے ڈلوادئے اور علانیہ خورد ونوش کو ممنوع قراردیا ۔حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ کے یہ وہ نادر کارنامے ہیں کہ آئندہ جو بھی اس نہج پر اپنی خدمات کو آگے بڑہا ئے گا تو بفحوائے حدیث پاک من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجر من عمل بہااس کا سہرا حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ والرضوان کے سر رہے گا، اور تا قیام قیامت اس کا اجرو ثواب حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی روح پر فتوح کو پہونچتا رہیگا، مختصر یہ کہ آپ کی ذات شخصیت میں ایک ادارہ تھی ،کئی افراد ملکر جو کام انجام نہیں دے سکتے تھے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے تنہا آپ کی ذات سے لے لئے ۔
علم و عمل کا ایک حسین امتزاج تھے
انعام حق کی بات یہ ساری ہے دیکھئے
اک شخصیت میںکتنے جمع تھے صفات
حیرت سی سب پہ آج بھی طاری ہے دیکھئے
(فہیم) ؔ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس امت مسلمہ کو خیر امت کے منصب جلیل پرفائز فرمایا ہے اس منصب جلیل کی تکمیل کا فریضہ تعمیل حکم شرع میں بذریعہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر انجام دینے والے اور نبی پاک محمد رسول اللہ ا کے لائے ہوئے دین کا پیغام دوسروں تک پہونچانے والے اور آپ کے مبارک فرمودات کو دوسروں تک پہونچاکر بلغوا عنی ولوآیۃ کی تعمیل کرنے والے بندگان خدا ہی دراصل اللہ کے منتخب وچنندہ بندے ہیں ،حضرت شیخ الاسلام انوار اللہ فاروقی قدس سرہ العزیز اور ان کے لگائے ہوئے شجر علم کی ٹھنڈی چھائوں میں علم وعمل کی دولت سمیٹنے والے علماء ربانیین وعرفاء حقانیین یقینا قابل مبارکباد ہیں ،جنہوں نے ورثہ علم کو سینوں سے لگا یا اور اس کی روشن ونورانی برکتوں کو دوسروں تک پہونچاکر جامعہ نظامیہ کے مقصدِ تاسیس کی تکمیل کی اور کررہے ہیں اور انشاء اللہ العزیز تا قیام قیامت کرتے رہیں گے ، دعا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں اپنے مقصد تخلیق میں کامیاب بنائے اور ہم سے وہ کام لے جس سے رضاء الٰہی کا حصول ہمارانصیبہ بن سکے اور بروز حشر شفیع المذنبین آقائے دوجہاں سید الانس والجان محمد رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے مستحق بنیں ،اور آپ کے دست مبارک سے جام کوثر کا پینا نصیب ہو،میںاپنی تحریر کو اس شعر پر ختم کرتا ہوں جو اپنے اندر دعوت عمل اور دعوت غور وفکر وتدبر رکھتا ہے۔
وہ کام کرو جس سے ملیں حشرمیں ہم تم
امت کو یہ پیغام ہے محبوب خدا کا
صل وسلم وزد بارک علی حبیبک سیدنا ونبینا مولانا محمد وعلی آلہ واصحابہ افضل صلواتک وعدد معلوماتک وبارک وسلم ۔
٭٭٭