اسلام
صدقہ فطر ۱؎
بعد ِ رمضان نمازِ عید کی ادائیگی سے قبل دیا جانے والا صدقہ واجبہ ،صدقہ فطر کہلاتا ہے ۔ خلیلِ ملّت حضرت علامہ مفتی محمد خلیل خان برکاتی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیںـ: ” صدقہ فطردراصل رمضان المبارک کے روزوں کا صدقہ ہے تاکہ لغو اور بے ہودہ کاموں سے روزے کی طہارت ہو جائے اور ساتھ ہی غریبوں، ناداروں کی عید کا سامان بھی اور روزوں سے حاصل ہونے والی نعمتوں کا شکریہ بھی۔” (ہمارا اسلام،حصہ۷،ص۸۷)
”حُسَین”کے چار حُرُوف کی نسبت سے صدقہ فطر کی فضلیت کی 4روایات
(1)اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے اس آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا گیا
قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی ﴿ۙ۱۴﴾وَ ذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی ﴿ؕ۱۵﴾
ترجمہ کنزالایمان :بے شک مراد کو پہنچا جوستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔(پ۳۰،الاعلٰی:۱۴،۱۵)
تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”یہ آیت صدقہ فطر کے بارے میں نازل ہوئی۔”
( صحیح ابن خزیمہ،الحدیث ۳۹۷ ،ج ۴، ص ۹۰)
(2) سرکارِمدینہ منوّرہ،سردارِمکّہ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ بَرَکت نشان ہےـ: ”جو تمہارے مالدار ہیں اللہ تعالیٰ (صدقہ فطردینے کی وجہ سے)
انہیں پاک فرما دے گا اور جو تمہارے غریب ہیں تواللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اس سے بھی زیادہ دے گا۔ ”
(سنن ابی داود،کتاب الزکوٰۃ ،باب روی من ضاع من قمح،الحدیث۱۶۱۹،ج۲،ص۱۶۱)
(3) حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں، کہ” صدقہ فطر ادا کرنے میں تین فضلتیں ہیں؛ پہلی روزے کا قبول ہونا، دوسری سکرات موت میں آسانی اور تیسری عذاب قبرسے نجات۔” (المبسوط للسرخسی، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ج۲، ص۱۱۴ )
(4) حضرت سیدنا ابو خلدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں: کہ میں حضرت سیدنا ابو العالیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ کل جب تم عید گاہ جاؤ، تو مجھ سے ملتے جانا۔ جب میں گیا تو مجھ سے فرمایا :”کیا تم نے کچھ کھایا؟”میں نے کہا:”ہاں۔” فرمایا :”کیا تم نہا چکے ہو؟”میں نے کہا :”ہاں۔” فرمایا:” صدقہ فطر ادا کر چکے ہو؟” میں نے کہا :”ہاں صدقہ فطر اداکر دیا ہے۔”فرمانے لگے:” میں نے تمہیں اسی لیے بلایا تھا۔”پھر آپ نے یہ آیت کریمہ (قَدْ اَفْلَحَ مَن تَزَکّٰی وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی) تلاوت کی اور فرمایا : ”اہل مدینہ صدقہ فطر اورپانی پلانے سے افضل کوئی صدقہ نہیں جانتے تھے۔”
(تفسیرطبری ، ج۱۲،ص۵۴۷، رقم:۳۶۹۹۲ )