اسلام
واقعۂ بیرمعونہ
ماہ صفر ۴ ھ میں ”بیرمعونہ” کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ ابو براء عامر بن مالک جو اپنی بہادری کی وجہ سے ”ملاعب الاسنہ” (برچھیوں سے کھیلنے والا) کہلاتا تھا،بارگاہ رسالت میں آیا،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی،اس نے نہ تو اسلام قبول کیا نہ اس سے کوئی نفرت ظاہر کی بلکہ یہ درخواست کی کہ آپ اپنے چند منتخب صحابہ کو ہمارے دیار میں بھیج دیجئے مجھے امید ہے کہ وہ لوگ اسلام کی دعوت قبول کر لیں گے۔ آ پ نے فرمایا کہ مجھے نجد کے کفار کی طرف سے خطرہ ہے۔ ابو براء نے کہا کہ میں آپ کے اصحاب کی جان و مال کی حفاظت کا ضامن ہوں۔(2)
اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ میں سے ستر منتخب صالحین کو جو ”قراء” کہلاتے تھے بھیج دیا۔یہ حضرات جب مقام ”بیرمعونہ” پر پہنچے تو ٹھہر گئے اور صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے قافلہ سالار حضرت حرام بن ملحان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خط لے کر عامر بن طفیل کے پاس اکیلے تشریف لے گئے جو قبیلہ کارئیس اور ابوبراء کا بھتیجا تھا۔ اس نے خط کو پڑھا بھی نہیں اور ایک شخص کو اشارہ کر دیا جس نے پیچھے سے حضرت حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اور آس پاس کے قبائل یعنی رعل وذکوان اور عصیہ و بنو لحیان وغیرہ کو جمع کرکے ایک لشکر تیارکر لیااور صحابہ کرام پر حملہ کے لئے روانہ ہو گیا۔ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بیرمعونہ کے پاس بہت دیر تک حضرت حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی واپسی کا انتظار کرتے رہے مگر جب بہت زیادہ دیر ہو گئی تو یہ لوگ آگے بڑھے راستہ میں عامر بن طفیل کی فوج کا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی کفار نے حضرت عمر و بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سوا تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کوشہید کر دیا،انہی شہداء کرام میں حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ جن کے بارے میں عامر بن طفیل کا بیان ہے کہ قتل ہونے کے بعد ان کی لاش بلند ہو کر آسمان تک پہنچی پھر زمین پر آ گئی،اس کے بعد ان کی لاش تلاش کرنے پربھی نہیں ملی کیونکہ فرشتوں نے انہیں دفن کر دیا۔(1)(بخاری ج۲ ص۵۸۷ باب غزوۃ الرجیع)
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی اس لئے میں تم کو آزاد کرتا
ہوں یہ کہا اور ان کی چوٹی کا بال کاٹ کر ان کو چھوڑ دیا۔(1) حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وہاں سے چل کر جب مقامِ”قرقرہ” میں آئے تو ایک درخت کے سائے میں ٹھہرے وہیں قبیلۂ بنو کلاب کے دوآدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب وہ دونوں سو گئے تو حضرت عامر بن اُمیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں کافروں کو قتل کر دیااور یہ سوچ کر دل میں خوش ہو رہے تھے کہ میں نے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لے لیا ہے مگر ان دونوں شخصوں کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم امان دے چکے تھے جس کا حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو علم نہ تھا۔(2)جب مدینہ پہنچ کر انہوں نے سارا حال دربار رسالت میں بیان کیاتو اصحاب بیرمعونہ کی شہادت کی خبر سن کر سرکار رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اتنا عظیم صدمہ پہنچا کہ تمام عمر شریف میں کبھی بھی اتنا رنج و صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مہینہ بھر تک قبائل رعل و ذکوان اور عصیہ و بنو لحیان پر نماز فجر میں لعنت بھیجتے رہے اور حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کے خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرمایا۔(3)(بخاری ج۱ ص۱۳۶ و زُرقانی ج۲ ص۷۴ تا ۷۸)
2۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب بئرمعونۃ،ج۲،ص۴۹۶ومدارج النبوت،قسم سوم، باب چہارم،ج۲،ص۱۴۳والکامل فی التاریخ،السنۃ الرابعۃ من الہجرۃ،ذکربئرمعونۃ،ج۲،ص۶۳
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب بئرمعونۃ،ج۲،ص۴۹۸۔۵۰۲ملخصاً وصحیح البخاری ،کتاب المغازی،باب غزوۃ الرجیع ،الحدیث: ۴۰۹۱،ج۳،ص۴۸
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب بئر معونۃ ،ج۲،ص۵۰۱
2۔۔۔۔۔۔کتاب المغازی للواقدی ، باب غزوۃ بنی النضیر،ج۱،ص۳۶۳
والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام،حدیث بئر معونۃ ، ص۳۷۶
3۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب بئر معونۃ ، ج۲،ص۵۰۳،۵۰۸