اسلام
صلح حدیبیہ کیونکر ہوئی
حدیبیہ میں سب سے پہلا شخص جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ بدیل بن ورقاء خزاعی تھا۔ ان کا قبیلہ اگرچہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا مگر یہ لوگ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلیف اور انتہائی مخلص و خیرخواہ تھے۔ بدیل بن ورقاء نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر دی کہ کفارقریش نے کثیرتعداد میں فوج جمع کرلی ہے اور فوج کے ساتھ راشن کے لئے دودھ والی اونٹنیاں بھی ہیں۔ یہ لوگ آپ سے جنگ کریں گے اور آپ کو خانہ کعبہ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قریش کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم
جنگ کے ارادہ سے نہیں آئے ہیں اور نہ ہم جنگ چاہتے ہیں۔ ہم یہاں صرف عمرہ ادا کرنے کی غرض سے آئے ہیں۔ مسلسل لڑائیوں سے قریش کو بہت کافی جانی ومالی نقصان پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا ان کے حق میں بھی یہی بہتر ہے کہ وہ جنگ نہ کریں بلکہ مجھ سے ایک مدت معینہ تک کے لئے صلح کا معاہدہ کرلیں اور مجھ کو اہل عرب کے ہاتھ میں چھوڑ دیں۔ اگر قریش میری بات مان لیں تو بہتر ہوگااور اگر انہوں نے مجھ سے جنگ کی تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ میں ان سے اس وقت تک لڑوں گا کہ میری گردن میرے بدن سے الگ ہوجائے۔
بدیل بن ورقاء آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ پیغام لے کر کفارقریش کے پاس گیا اور کہا کہ میں محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کا ایک پیغام لے کر آیا ہوں۔ اگر تم لوگوں کی مرضی ہوتو میں ان کا پیغام تم لوگوں کو سناؤں۔ کفارقریش کے شرارت پسند لونڈے جن کا جوش ان کے ہوش پر غالب تھا شورمچانے لگے کہ نہیں! ہرگزنہیں! ہمیں ان کا پیغام سننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن کفارقریش کے سنجیدہ اور سمجھدار لوگوں نے پیغام سنانے کی اجازت دے دی اور بدیل بن ورقاء نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت صلح کو ان لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ یہ سن کر قبیلہ قریش کا ایک بہت ہی معمر اور معزز سردار عروہ بن مسعود ثقفی کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اے قریش!کیا میں تمہارا باپ نہیں؟ سب نے کہا کہ کیوں نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ کیا تم لوگ میرے بچے نہیں؟سب نے کہا کہ کیوں نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ میرے بارے میں تم لوگوں کو کوئی بدگمانی تو نہیں؟ سب نے کہا کہ نہیں !ہرگز نہیں۔ اس کے بعد عروہ بن مسعود نے کہا کہ محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے بہت ہی سمجھداری اور بھلائی کی بات پیش کردی۔ لہٰذا تم لوگ مجھے اجازت
دو کہ میں ان سے مل کر معاملات طے کروں۔سب نے اجازت دے دی کہ بہت اچھا! آپ جایئے۔ عروہ بن مسعود وہاں سے چل کر حدیبیہ کے میدان میں پہنچا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے یہ کہا کہ بدیل بن ورقاء کی زبانی آپ کا پیغام ہمیں ملا۔ اے محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ اگر آپ نے لڑ کر قریش کو برباد کرکے دنیا سے نیست و نابود کردیا تو مجھے بتایئے کہ کیا آپ سے پہلے کبھی کسی عرب نے اپنی ہی قوم کو برباد کیا ہے؟ اور اگر لڑائی میں قریش کا پلہ بھاری پڑا تو آپ کے ساتھ جو یہ لشکر ہے میں ان میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ یہ سب آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ عروہ بن مسعود کا یہ جملہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صبر و ضبط کی تاب نہ رہی۔ انہوں نے تڑپ کر کہا کہ اے عروہ!چپ ہو ،جا! اپنی دیوی ”لات” کی شرمگاہ چوس،کیا ہم بھلا اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
عروہ بن مسعود نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ”یہ ابوبکر ہیں۔” عروہ بن مسعود نے کہا کہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اے ابوبکر!اگر تیرا ایک احسان مجھ پر نہ ہوتا جس کا بدلہ میں اب تک تجھ کو نہیں دے سکا ہوں تو میں تیری اس تلخ گفتگو کا جواب دیتا۔(1) عروہ بن مسعود اپنے کو سب سے بڑا آدمی سمجھتا تھا۔ اس لئے جب بھی وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کوئی بات کہتا تو ہاتھ بڑھا کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ریش مبارک پکڑ لیتا تھا اور بار بار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس داڑھی پر ہاتھ ڈالتا تھا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ننگی تلوار لے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے تھے۔ وہ عروہ بن مسعود
کی اس جرأت اور حرکت کو برداشت نہ کرسکے۔ عروہ بن مسعود جب ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ تلوار کا قبضہ اس کے ہاتھ پر مار کر اس سے کہتے کہ ریش مبارک سے اپنا ہاتھ ہٹا لے۔ عروہ بن مسعود نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا کہ یہ کون آدمی ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ تو عروہ بن مسعود نے ڈانٹ کر کہا کہ اے دغاباز!کیا میں تیری عہدشکنی کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کررہا ہوں؟(حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند آدمیوں کو قتل کردیا تھا جس کا خون بہا عروہ بن مسعود نے اپنے پاس سے ادا کیا تھا یہ اسی طرف اشارہ تھا)(1)
اس کے بعد عروہ بن مسعود صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو دیکھنے لگا اور پوری لشکرگاہ کو دیکھ بھال کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ عروہ بن مسعود نے حدیبیہ کے میدان میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی حیرت انگیز اور تعجب خیز عقیدت و محبت کا جو منظر دیکھا تھا اس نے اس کے دل پر بڑا عجیب اثر ڈالا تھا۔ چنانچہ اس نے قریش کے لشکر میں پہنچ کر اپنا تاثر ان لفظوں میں بیان کیا۔
”اے میری قوم!خدا کی قسم!جب محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)اپنا کھنکھار تھوکتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی میں پڑتا ہے اور وہ فرط عقیدت سے اس کو اپنے چہرے اور اپنی کھال پر مل لیتا ہے۔ اور اگر وہ کسی بات کا ان لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو سب کے سب اس کی تعمیل کے لئے جھپٹ پڑتے ہیں۔ اور وہ جب وضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب ان کے وضو کے دھوون کو اس طرح لوٹتے ہیں کہ گویا ان میں تلوار چل پڑے گی اور وہ جب کوئی گفتگو کرتے ہیں تو تمام اصحاب خاموش ہوجاتے ہیں۔ اور
ان کے ساتھیوں کے دلوں میں ان کی اتنی زبردست عظمت ہے کہ کوئی شخص ان کی طرف نظر بھر دیکھ نہیں سکتا۔ اے میری قوم!خدا کی قسم! میں نے بہت سے بادشاہوں کا دربار دیکھاہے۔میں قیصروکسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی باریاب ہوچکا ہوں۔ مگر خدا کی قسم!میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے جتنی تعظیم محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے ساتھی محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی کرتے ہیں۔”(1)
عروہ بن مسعود کی یہ گفتگو سن کر قبیلہ بنی کنانہ کے ایک شخص نے جس کانام ”حلیس” تھا، کہا کہ تم لوگ مجھ کو اجازت دو کہ میں ان کے پاس جاؤں۔ قریش نے کہا کہ ”ضرور جایئے” چنانچہ یہ شخص جب بارگاہ رسالت کے قریب پہنچا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے اور یہ اس قوم سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں۔ لہٰذا تم لوگ قربانی کے جانوروں کو اس کے سامنے کھڑا کردواور سب لوگ ”لبیک” پڑھنا شروع کردو۔ اس شخص نے جب قربانی کے جانوروں کو دیکھا اور احرام کی حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ”لبیک” پڑھتے ہوئے سنا تو کہا کہ سبحان اللہ!بھلا ان لوگوں کو کس طرح مناسب ہے کہ بیت اللہ سے روک دیا جائے؟ وہ فوراً ہی پلٹ کر کفار قریش کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں کہ قربانی کے جانور ان لوگوں کے ساتھ ہیں اور سب احرام کی حالت میں ہیں۔لہٰذا میں کبھی بھی یہ رائے نہیں دے سکتا کہ ان لوگوں کو خانہ کعبہ سے روک دیا جائے۔ اس کے بعد ایک شخص کفارقریش کے لشکر میں سے کھڑا ہوگیا جس
کا نام مکرز بن حفص تھا اس نے کہا کہ مجھ کو تم لوگ وہاں جانے دو۔ قریش نے کہا: ”تم بھی جاؤ” چنانچہ یہ چلا۔ جب یہ نزدیک پہنچا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مکرز ہے۔ یہ بہت ہی لچا آدمی ہے۔ اس نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ ابھی اس کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ ناگہاں ”سہیل بن عمرو” آگیا اس کو دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نیک فالی کے طور پریہ فرمایا کہ سہیل آگیا ، لو! اب تمہارا معاملہ سہل ہو گیا۔(1) چنانچہ سہیل نے آتے ہی کہا کہ آیئے ہم اور آپ اپنے اور آپ کے درمیان معاہدہ کی ایک دستاویز لکھ لیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو منظور فرما لیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دستاویز لکھنے کے لئے طلب فرمایا۔ سہیل بن عمرو اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان دیر تک صلح کے شرائط پر گفتگو ہوتی رہی۔ بالآخر چند شرطوں پردونوں کااتفاق ہوگیا۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ لکھو بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم سہیل نے کہا کہ ہم ”رحمن” کو نہیں جانتے کہ یہ کیا ہے؟ آپ ”باسمک اللھم” لکھوایئے جو ہمارا اور آپ کا پرانا دستور رہاہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہم بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے سوا کوئی دوسرا لفظ نہیں لکھیں گے۔ مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سہیل کی بات مان لی اور فرمایا کہ اچھا۔ اے علی! باسمک اللھم ہی لکھ دو۔ پھر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ عبارت لکھوائی۔ ھذا ما قاضٰی علیہ محمد رسول اﷲ یعنی یہ وہ شرائط ہیں جن پر قریش کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صلح کا فیصلہ کیا۔ سہیل پھر بھڑک گیا اور کہنے لگا کہ خدا کی قسم!اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو نہ ہم آپ کو بیت اللہ سے روکتے نہ آپ کے ساتھ جنگ کرتے لیکن آپ ”محمد بن عبداللہ” لکھیئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم!
میں محمد رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ تم لوگ میری رسالت کو جھٹلاتے ہو۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ محمد رسول اللہ کو مٹا دو اور اس جگہ محمد بن عبداللہ لکھ دو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ کون مسلمان آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانبردار ہوسکتا ہے؟ لیکن محبت کے عالم میں کبھی کبھی ایسا مقام بھی آجاتا ہے کہ سچے محب کو بھی اپنے محبوب کی فرمانبرداری سے محبت ہی کے جذبہ میں انکار کرنا پڑتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں آپ کے نام کو تو کبھی ہرگز ہرگز نہیں مٹاؤں گا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا مجھے دکھاؤ میرا نام کہاں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس جگہ پر انگلی رکھ دی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے وہاں سے ”رسول اللہ” کا لفظ مٹا دیا۔ بہرحال صلح کی تحریر مکمل ہوگئی۔ اس دستاویز میں یہ طے کردیا گیا کہ فریقین کے درمیان دس سال تک لڑائی بالکل موقوف رہے گی۔ صلح نامہ کی باقی دفعات اور شرطیں یہ تھیں کہ
(۱)مسلمان اس سال بغیر عمرہ ادا کیے واپس چلے جائیں۔
(۲)آئندہ سال عمرہ کیلئے آئیں اور صرف تین دن مکہ میں ٹھہر کر واپس چلے جائیں۔
(۳)تلوار کے سوا کوئی دوسرا ہتھیار لے کر نہ آئیں۔ تلوار بھی نیام کے اندر رکھ کر تھیلے وغیرہ میں بند ہو۔
(۴)مکہ میں جو مسلمان پہلے سے مقیم ہیں ان میں سے کسی کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور مسلمانوں میں سے اگر کوئی مکہ میں رہنا چاہے تو اس کو نہ روکیں۔
(۵)کافروں یا مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر مدینہ چلا جائے تو واپس کردیا جائے
لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ میں چلا جائے تو وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔
(۶)قبائل عرب کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں دوستی کا معاہدہ کرلیں۔
یہ شرطیں ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس پر بڑی زبردست ناگواری ہورہی تھی مگر وہ فرمان رسالت کے خلاف دم مارنے سے مجبور تھے۔(1) (ابن ہشام ج۳ ص ۳۱۷ وغیرہ )