اسلام
کراماتِ اوليا ء
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ ۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزْقًا ۚ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنۡدِ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یَرْزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۳۷﴾
ترجمہ کنزالایمان : جب زکريا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نيا رزق پاتے۔ کہا اے مريم يہ تيرے پاس کہاں سے آيا ؟ بوليں، وہ اللہ کے پاس سے ہے ، بے شک اللہ جسے چاہے بے گنتی دے(۱)۔( پ۳، اٰل عمرٰن:۳۷ )
تفسير:
(۱)اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے ايک يہ کہ کرامت ولی برحق ہے ، کيونکہ حضرت مريم کو بے موسم غيبی پھل ملنا ان کی کرامت تھی ۔ دوسرے يہ کہ بعض بندے مادرزاد ولی ہوتے ہيں، ولايت عمل پر موقوف نہيں۔ ديکھو حضرت مريم لڑکپن ميں وليہ تھيں ، تیسرے يہ کہ ولی کو اللہ تعالیٰ علم لدنی اور عقل کامل عطا فرماتا ہے کہ حضرت مريم نے حضرت زکريا عليہ السلام کے سوال کا جواب ايسا ايمان افروز ديا کہ سبحان اللہ ، چوتھے يہ کہ بعض اللہ والوں کے لئے جنتی ميوے آئے ہيں۔ حضرت مريم کو يہ پھل جنت سے ملتے تھے۔پانچویں يہ کہ حضرت مريم کی پرورش جنتی ميووں سے ہوئی نہ کہ ماں کے دودھ يا دنيا وی غذاؤں سے (خزائن العرفان) کيونکہ والدہ محترمہ تو ان کے پيدا ہوتے ہی احبار کے سپرد کر گئی تھيں، اور ثابت نہيں ہوتا کہ آپ کے لئے کوئی دائی مقرر کی گئی ہو۔ (تفسير نورالعرفان)