اسلام
مسلمان عورتوں کا پردہ
۔اﷲ و رسول (جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم) نے انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق بدکاری کے دروازوں کو بند کرنے کے لئے عورتوں کو پردے میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پردے کی فرضیت اور اس کی اہمیت قرآن مجید اور حدیثوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے عورتوں پر پردہ فرض فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
وَقَرْنَ فِیۡ بُیُوۡتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوۡلٰی
”تم اپنے گھروں کے اندر رہو اور بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلو جس طرح پہلے زمانے کے دور جاہلیت میں عورتیں بے پردہ باہر نکل کر گھومتی پھرتی تھیں۔” (پ22،الاحزاب:33)
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے صاف صاف عورتوں پر پردہ فرض کرکے یہ حکم دیا ہے کہ وہ گھروں کے اندر رہا کریں اور زمانہ جاہلیت کی بے حیائی و بے پردگی کی رسم کو چھوڑ دیں۔ زمانہ جاہلیت میں کفار عرب کا یہ دستور تھا کہ ان کی عورتیں خوب بن سنور کر بے پردہ نکلتی تھیں ۔ اور بازاروں اور میلوں میں مردوں کے دوش بدوش گھومتی پھرتی تھیں۔اسلام نے اس بے پردگی کی بے حیائی سے روکااور حکم دیا کہ عورتیں گھروں کے اندر رہیں اور بلا ضرورت باہر نہ نکلیں اور اگر کسی ضرورت سے انہیں گھر سے باہر نکلنا ہی پڑے تو زمانہ جاہلیت کے مطابق بناؤ سنگار کرکے بے پردہ نہ نکلیں۔ بلکہ پردہ کے ساتھ باہر نکلیں۔ حدیث شریف میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ ”عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے جس وقت وہ بے پردہ ہو کر باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانک جھانک کر دیکھتا ہے۔”
(الجامع الترمذی، کتاب الرضاع ، باب۱۸،رقم ۱۱۷۶،ج۲،ص۳۹۲)
اور ایک حدیث میں ہے کہ ”بناؤ سنگھار کر کے اترااترا کر چلنے والی عورت کی مثال اس تاریکی کی ہے جس میں بالکل روشنی ہی نہ ہو۔”
(جامع الترمذی ، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی کراہیۃ خروج النساء فی الزینۃ ، رقم ۱۱۷۰، ج۲،ص۳۸۹)
اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲتعالی عنہ سے روایت ہے کہ ”حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا جو عورت خوشبولگا کر مردوں کے پاس سے گزرے تاکہ لوگ اس کی خوشبو سونگھیں وہ عورت بدچلن ہے۔”
(سنن النسائی،کتاب الزینۃ،باب مایکرہ للنساء من الطیب،ج۸،ص۱۵۳)
پیاری بہنو! آج کل جو عورتیں بناؤ سنگھار اور عریاں لباس پہن کر خوشبو لگائے بلا پردہ بازاروں میں گھومتی ہیں اور سینما’ تھیٹروں میں جاتی ہیں وہ ان حدیثوں کی روشنی میں اپنے بارے میں خود ہی فیصلہ کرلیں کہ وہ کون ہیں؟ اور کتنی بڑی گناہگار ہیں؟
اے اﷲعزوجل کی بندیو! تم خدا کے فضل سے مسلمان ہو۔ اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے تمہیں ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے احکام کو سنو اور ان پر عمل کرو۔ اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے تمہیں پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے تم کو لازم ہے کہ تم پردہ میں رہا کرو اور اپنے شوہر اور اپنے باپ داداؤں کی عزت و عظمت اور ان کے ناموس کو برباد نہ کرو۔ یہ دنیا کی چند روزہ زندگی آنی فانی ہے۔ یاد رکھو! ایک دن مرنا ہے اور پھر قیامت کے دن اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو منہ دکھانا ہے۔ قبر اور جہنم کے عذابوں کو یاد کرو حضرت خاتون جنت بی بی فاطمہ زہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور امت کی ماؤں یعنی رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مقدس بیویوں کے نقش قدم پرچل کر اپنی دنیا و آخرت کو سنوارو۔ اور خدا کے لئے یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی عورتوں کے طریقوں پر چلنا چھوڑ دو۔
پردہ عزت ہے بے عزتی نہیں:۔آج کل بعض ملحد قسم کے دشمنان اسلام مسلمان عورتوں کو یہ کہہ کر بہکایا کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو پردہ میں رکھ کر عورتوں کی بے عزتی کی ہے اس لئے عورتوں کو پردوں سے نکل کر ہر میدان میں مردوں کے دوش بدوش کھڑی ہو جانا چاہے۔ مگر پیاری بہنو! خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ ان مردوں کا یہ پروپیگنڈہ اتنا گندا اور گھناؤنا فریب اور دھوکہ ہے کہ شاید شیطان کو بھی نہ سوجھا ہوگا۔
اے اﷲعزوجل کی بندیو! تمہیں انصاف کرو کہ تمام کتابیں کھلی پڑی رہتی ہیں اور بے پردہ رہتی ہیں مگر قرآن شریف پر ہمیشہ غلاف چڑھا کر اس کو پردے میں رکھا جاتا ہے تو بتاؤ کیا قرآن مجید پر غلاف چڑھانا یہ قرآن کی عزت ہے یا بے عزتی؟ اسی طرح تمام دنیا کی مسجدیں ننگی اور بے پردہ رکھی گئی ہیں مگر خانہ کعبہ پر غلاف چڑھاکر اس کو پردہ میں رکھا گیا ہے تو بتاؤ کیا کعبہ مقدسہ پر غلاف چڑھانا اس کی عزت ہے یا بے عزتی؟ تمام دنیا کو معلوم ہے کہ قرآن مجید اور کعبہ معظمہ پر غلاف چڑھا کر ان دونوں کی عزت و عظمت کا اعلان کیا گیا ہے کہ تمام کتابوں میں سب سے افضل و اعلیٰ قرآن ہے۔ اور تمام مسجدوں میں افضل و اعلیٰ کعبہ معظمہ ہے اسی طرح مسلمان عورتوں کو پر دہ کا حکم دے کر اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی طرف سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ اقوام عالم کی تمام عورتوں میں مسلمان عورت تمام عورتوں سے افضل و اعلیٰ ہے۔
پیاری بہنو! اب تمہیں کو اس کا فیصلہ کرنا ہے کہ اسلام نے مسلمان عورتوں کو پردوں میں رکھ کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا ان کی بے عزتی کی ہے؟
کن لوگوں سے پردہ فرض ہے؟:۔ہر غیر محرم مرد خواہ اجنبی ہو خواہ رشتہ دار باہر رہتا ہو یا گھر کے اندر ہر ایک سے پردہ کرنا عورت پر فرض ہے۔ ہاں ان مردوں سے جو عورت کے محرم ہیں پردہ کرنا عورت پر فرض نہیں۔ محرم وہ مرد ہیں جن سے عورت کا نکاح کبھی بھی اور کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا۔ مثلاً باپ’ دادا’ چچا’ ماموں’ نانا’بھائی’ بھتیجا’ بھانجا’ پوتا’ نواسہ’ خسر ان لوگوں سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ غیر محرم وہ مرد ہیں جن سے عورت کا نکاح ہو سکتا ہے جیسے چچا زاد بھائی’ ماموں زاد بھائی’ پھوپھی زاد بھائی’ خالہ زاد بھائی’ جیٹھ اور دیور وغیرہ یہ سب عورت کے غیر محرم ہیں۔اور ان سب لوگوں سے پردہ کرنا عورت پر فرض ہے۔ ہمارے یہاں یہ بہت ہی غلط خلاف شریعت رواج ہے کہ عورتیں اپنے دیوروں سے بالکل پردہ نہیں کرتیں۔ بلکہ دیوروں سے ہنسی مذاق’ اور ان کے ساتھ ہاتھا پائی تک کرنے کو برانہیں سمجھتیں۔ حالانکہ دیور عورت کا محرم نہیں ہے۔ اس لئے دوسرے تمام غیر محرم مردوں کی طرح عورتوں کو دیوروں سے پردہ کرنا فرض ہے۔ بلکہ حدیث شریف میں تو یہاں تک دیوروں سے پردہ کی تاکید ہے کہ ”اَلْحَمْوُالْمَوْتُ” یعنی دیور عورت کے حق میں ایسا ہی خطرناک ہے جیسے موت۔ اور عورت کو دیور سے اسی طرح دور بھاگنا چاہے جس طرح لوگ موت سے بھاگتے ہیں۔
(صحیح البخاری ، کتاب النکاح ۔۱۱۲۔باب لایخلون رجل بامرأۃ الخ،رقم ۵۲۳۲، ج۳، ص۴۷۲)
بہر حال خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ غیر محرم سے پردہ فرض ہے’ چاہے وہ اجنبی مرد ہو یا رشتہ دار’ دیور’ جیٹھ بھی غیر محرم ہیں اس لئے ان لوگوں سے بھی پردہ کرنا ضروری ہے اسی طرح کفار و مشرکین کی عورتوں سے بھی مسلمان عورتوں کو پردہ کرنا لازم ہے۔ اور ان کو گھروں میں آنے جانے سے روک دینا چاہے۔
مسئلہ:۔عورت کا پیر بھی عورت کا غیر محرم ہے اس لئے مریدہ کو اپنے پیر سے بھی پردہ کرنا فرض ہے۔اور پیر کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ اپنی مریدہ کو بے پردہ دیکھے یا تنہائی میں اس کے پاس بیٹھے۔ بلکہ پیر کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ عورت کا ہاتھ پکڑ کر اس کو بیعت کرے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہا نے عورتوں کی بیعت کے متعلق فرمایا کہ حضور علیہ ا لصلوۃ و السلام یٰاَۤ یُّھَا ا لنَّبِیُّ اِذَا جَآءَ کَ الْمُؤمِنَاتُ سے عورتوں کاامتحان فرماتے تھے جو عورت اس آیت کا اقرار کرلیتی تھی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اس سے فرماتے تھے کہ میں نے تجھ سے یہ بیعت لے لی۔ یہ بیعت بذریعہ کلام ہوتی تھی۔ خدا کی قسم کبھی بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے بیعت کے وقت نہیں لگا۔
(صحیح البخاری ، کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ،رقم ۴۱۸۲،ج۳،ص۷۵)