اسلام
بیٹی کے فضائل
بیٹی کے فضائل
یا درکھئے! بیٹی کی فضیلت کسی طرح کم نہیں اس ضِمن میں مُلا حَظہ ہوں تین فرامینِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:-
(۱)جس نے اپنی تین بیٹیوں کی پرورش کی وہ جنَّت میں جائے گا اور اسے راہِ خدا عزوجل میں اُس جہاد کرنے والے کی مِثل اَجْر ملے گا جس نے دورانِ جہاد روزے رکھے اورنَماز قائم کی۔ (التر غیب والترہیب ۳ص۴۶حدیث۲۶دارالکتب العلمیہ بیروت) (۲) جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور اُن کے ساتھ اچّھا سُلوک کرے تو داخِلِ جنَّت ہو گا۔ (جامع ترمذی ج۳ص۳۶۶حدیث۱۹۱۹دارالفکر بیروت)
(۳)جو شخص تین بیٹیوں یا بہنوں کی اس طرح پرورش کرے کہ ان کوادب سکھائے اور ان پر مہربانی کا برتاؤ کرے یہاں تک کہ اللہ عزوجل انہیں بے نیاز کردے (یعنی وہ بالِغ ہوجائیں یا ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں ) ۱؎ تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنَّت واجِب فرمادیتاہے۔یہ ارشاد نبوی سُن کر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کی،اگر کوئی شخص دو لڑکیوں کی پروَرِش کرے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ اس کیلئے بھی یِہی اَجر و ثواب ہے یہاں تک کہ اگر لوگ ایک کا ذِکر کرتے توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے ۔ ( شرح السنۃ للبغوی ج۶ص۴۵۲حدیث۳۳۵۱)
اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رِوایَت فرماتی ہیں، میرے پاس ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کر مانگنے کے لیے آئی (بعض مجبوریوں میں مانگنا جائز ہے یہ بی بی صاحِبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا انھیں مجبوریوں میں پھنسی ہوں گی اس لیے سوال درست تھا) ۲ ؎ تو ایک کھجور کے سوا اس نے میرے پاس کچھ نہیں پایا،وُہی ایک کھجور میں نے اس کو دے دی۔ تو اس نے اس ایک کھجور کو اپنی دو بیٹیوں کے درمیان تقسیم کر دیااور خود نہیں کھایا اوربیٹیوں کے ساتھ چلی گئی ۔ اِس کے بعد جب رسو ل اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے پاس تشریف لائے اور میں نے اس واقِعہ کا تذکِرہ حُضُور سے کیا ، تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، جو شخص ان
؎۱ اشعۃ اللمعات ج ۴ ،ص۱۳۲، ؎۲ مراۃ المناجیح ج۲ ص ۵۴۵۔
بیٹیوں کے ساتھ مُبتَلا کیا گیا اس نے ان بیٹیوں کے ساتھ اچّھاسُلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لئے آگ (جہنَّم ) سے پردہ اور آڑ بن جائیں گی۔ ( صحیح مسلم ص۴۱۴حدیث۲۶۲۹دارابن حزم بیروت)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول اور سنّتوں بھرے اجتماعات میں رَحمتیں کیوں نازِل نہ ہو ں گی کہ ان عاشقانِ رسول میں نہ جانے کتنے اولیاء کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تعالٰی ہوتے ہوں گے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، جماعت میں بَرَکت ہے اور دعائے مجمعِ مسلمین اقرب بقبول( یعنی مسلمانوں کے مجمع میں دعا مانگنا قبولیت کے قریب تر ہے) عُلَماء فرماتے ہیں ، جہاں چالیس مُسلمان صالِح( یعنی نیک)جَمع ہوتے ہیں اُن میں سے ایک ولیُّ اللہ ضَرور ہوتاہے ۔ (فتاوٰی رضویہ تخریج شدہ ج ۲۴ ص۱۸۴ ، تیسیر شرح جامِعِ صغیر ، تحت ا لحدیث ۷۱۴،ج۱،ص۳۱۲، طبعۃ دارالحدیث ، مصر ) بِالفرض دُعاء کی قَبولیّت کا اَثر ظاہِر نہ ہو تب بھی حَرفِ شکایت زبان پر نہیں لانا چاہئے۔ ہماری بہتری کس بات میں ہے اِ س کویقینا اللہ عزوجل ہم سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔ ہمیں ہر حال میں اُس کا شکر گزار بندہ بن کر رَہنا چاہئے۔ وہ بیٹا دے تب بھی اُس کا شکر ، بیٹی دے تب بھی شکر، دونوں ۲ دے تب بھی شکر اور نہ دے تب بھی شکر شکر ہر حال میں شکر
شکر اور شکرہی ادا کرنا چاہئے۔پارہ ۲۵ سورۃُ الشُّوریٰ کی آیت نمبر ،۴۹اور ۵۰ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لِلہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ ؕیَہَبُ لِمَنْ یَّشَاءُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَاءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ۴۹﴾ اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّ اِنَاثًا ۚ وَ یَجْعَلُ مَنۡ یَّشَاءُ عَقِیۡمًا ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌ قَدِیۡرٌ ﴿۵۰﴾
ترجَمہ کنزالایمان: اللہ ہی کیلئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے، جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اوربیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کر دے بیشک وہ علم و قدرت والا ہے۔ ( پ ۲۵ الشوریٰ ۴۹، ۵۰)
صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں،وہ مالِک ہے اپنی نِعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کر ے جسے جوچاہے دے۔ انبیاء علیھم السلام میں بھی یہ سب صورَتیں پائی جاتی ہیں۔حضرتِ سیِّدُنا لُوط عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام و حضرتِ سیِّدُناشُعَیب عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے صرف بیٹیاں تھیں کوئی بیٹا نہ تھا اور حضرتِ سیِّدُناابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے صرف فرزند تھے کوئی دُختر ہوئی ہی نہیں اور سیِّدُالانبیاء
حبیبِ خدا مُحمَّدِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ تعالیٰ نے چار فرزند عطا فرمائے اور چار صاحِبزادیاں اور حضرت سیِّدُنا یحیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے کوئی اولاد ہی نہیں۔ (خزائن العرفان ص ۷۷۷)