اسلام
حضورشیخ الاسلام تنظیمی وتحریکی خدمات
حضورشیخ الاسلام تنظیمی وتحریکی خدمات
غلام ربانی فداؔ
مدیرجہان نعت ہیرور
حضوشیخ الاسلام رئیس المحققین سندالمتکلمین تاجداراہل سنت حضرت علامہ الحاج سیدمحمدمدنی میاں دام ظلہ علینا کی جلیل القدر دینی و علمی خدمات اپنے پورے عہد پر چھائی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے حمایت حق اور باطل کی سر کوبی کے لئے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے ہیں تاریخ کا سینہ اب دن بہ دن ان کے انوار سے درخشاں اور تابناک ہوتا جارہاہے ۔ انہوں نے جو کچھ کیا محض رضائے الہی کی خاطر نہ کہ شہرت و عزت کی خواہش اور نہ صلہ و ستائش کی کوئی ہوس ۔ قلم کی نوک سے علم و فضل اور عشق و عرفان کی ایسی موسلادھار بارش برسائی کہ ارض ہند سے لے کر جزیرۃ العرب تک کی سر زمین نم ہوگئی ۔خطابت کایہ عالم کہ ہر دل شکر گزار اور ہر زبان مدح خواں ہوگئی ۔کائنات شعروادب کے ماہتاب اخترکچھوچھوی کے شعری آفتاب سے لفظوں کی روشنی کے لئے سائل بنے کھڑے ہیں۔ جب اسلام اور اہل اسلا م کو نیست و نابود کرنے والی تحریکیں بڑے زور و شور سے برساتی مینڈیکوں کی طرح جنم لینے لگی تو آپ نے احیاء سنت کے لئے18اگست 1980کو محدث اعظم مشن کے نام سے ایک عالمی تحریک کی بنیاد ڈالی ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک دنیا بھر میں چھاگئی ۔ اس کے علاوہ دیگرتحریکوںسے وابستگی رہی اور سرپرستی فرمائی۔مجھے کامل یقین ہے کہ سرپرستی میں چلنے والی کئی تحریکیں ہوسکتی ہیں۔جن کی صحیح معلومات ناچیزکوحاصل نہیں ۔یہ ایک زمینی حقیقت ہے جس سے فرار محال ہےعالم اسلام وسنیت پرسب سے زیادہ احسانات سلسلۂ اشرفیہ جشتیہ بہشتیہ کے ہیں بہترین مقرروخطیب ، بے مثال مفتیان کرام وعلمائے عظام ، اعلیٰ درجے کےمحققین ، نمائندہ ادبا وشعرا غرض کہ ہرشعبۂ حیات سے وابستہ مثالی افراد خانوادۂ سمنان میں جنم لیتے رہے اورلیتے رہیں گے انشاء اللہ مگرمجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے ہمیشہ انہیں فراموش کیا گیاحاسدین نے تاریخ مسخ کرکے پیش کرنے میں کوئی کسرباقی نہ رکھی قابل غوربات یہ ہے کہ ہم اپنا سارا زور اس بات پر صرف کرتے ہیں کہ حاسدین نے سادات کچھوچھہ کوپس پردہ رکھا ۔سچ تو یہ ہے کہ جتناذمہ دارحاسدین اتنے ہی عاشقین بھی۔ کیا ہم نے کبھی دانشوران واہل علم وادب اور عوام الناس کے سامنےایسا تعارف سادات کچھوچھہ پیش کئےجس طرح کرنے کاحق تھا؟۔ آج تک ہم وابستگان سلسلۂ اشرفیہ نے اپنے مشائخ کی خدمات عالیہ جلیلہ پرکتنے سیمینار کئے؟ کتنے کتابیں شائع کی؟ کتنے لوگوں تک پیغام اشرفی کوپہنچایا؟ تاریخ وخدمات کو کس طرح محفوظ کئے؟ سچ تو یہ ہے کہ اس تساہلی کاشکار ہم ہی رہے۔آج یہی کاہلی ہمارے لئے حقیقت کا ایک کڑواگھونٹ بن گئی ہے۔ذیل میں کچھ تنظیمیں وتحریکیں جن کی سرپرستی قبلہ حضورشیخ الاسلام نے فرمائی درج ذیل ہیں۔
آل انڈیاجماعت رضائے مصطفیٰ
اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان علیہ الرحمہ نے آل انڈیا جماعت رضائے مصطفیٰ کی داغ بیل ڈالی جس کی خدمات نمایاں ہیں المختصر ١٩٢١ء کے بعد تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہوتا چلا گیا پھر ١٩٦٠ء ۔١٣٨٠ ھ میں جماعت رضائے مصطفی نے دم توڑدی ۔ کچھ عرصہ تک کچھ سردمہری کااثررہا پھرنئےسرےسےجان ڈالنے کی کوشش ہونے لگی ۔ ابتدأ جماعت رضائےمصطفی کی حیثیت ایک مقامی جمعیت کی تھی،اس جمعیت کےدوبڑےشعبےتھے۔علمی ۔ عملی ۔اس جمعیت نے دونوں پہلؤں پرتاریخ سازکردارسرانجام دیا۔رفتہ رفتہ اس کی حیثیت مرکزی بن گئی ، پورے بر صغیر میں جماعت رضائے مصطفی کی شاخیں قائم ہو گئیں ۔ جماعت کی مرکزی حیثیت بن جانے پراغراض ومقاصد اور قواعد و ضوابط میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی ۔ جماعت رضائے مصطفی کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ١٤جمادی الاولیٰ ١٣٨٣ھ ۔٣ اکتوبر ١٩٦٣ء کو مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضابریلوی کی سرپرستی،اوربرہان ملت مفتی برہان الحق جبل پوری کے زیراہتمام آستانہ عالیہ سلامیہ جبل پورپرکل ھندجماعت رضائےمصطفی کاایک اجلاس منعقدہوا ۔جس میںدوبارجماعت کی تاسیس ہوئی ۔اورحسب ذیل دفعات کااضافہ کیاگیا۔
١۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفی کی دائمی سر پرستی پر حضور مفتیٔ اعظم بریلوی فرمائیں گے ۔
۲۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفی سارے ہند کی کل مقامی،ضلعی،صوبائی،اورکل ہندجملہ تنظیموں کی نگرانی اور جماعت رضائے مصفطی ہوگی ۔ ہندوستان کی ساری سنی تنظیمیں اورجماعتیںکل ہندجماعت مبارکہ کے تحت رہیں گی ۔
٣۔ مختلف سنی تنظیموں کے باہمی اختلاف کی شکل میں کل ہند جماعت مبارکہ کی حیثیت ثالث اور حکم کی ہوگی ۔
٤۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفی کی تنظیم حسب ذیل ہوگی ۔
‘(ا) ہر شہر میں دارالافتا ء قائم کرنا ۔
(ب) ہر شہر میں دارالقضاء قائم کرنا۔
(ج) ہر جگہ مکاتب ومدارس اسلامیہ قائم کرنا۔
آل انڈیاجماعت رضائے مصطفیٰ
اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان علیہ الرحمہ نے آل انڈیا جماعت رضائے مصطفیٰ کی داغ بیل ڈالی جس کی خدمات نمایاں ہیں المختصر ١٩٢١ء کے بعد تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہوتا چلا گیا پھر ١٩٦٠ء ۔١٣٨٠ ھ میں جماعت رضائے مصطفی نے دم توڑدی ۔ کچھ عرصہ تک کچھ سردمہری کااثررہا پھرنئےسرےسےجان ڈالنے کی کوشش ہونے لگی ۔ ابتدأ جماعت رضائےمصطفی کی حیثیت ایک مقامی جمعیت کی تھی،اس جمعیت کےدوبڑےشعبےتھے۔علمی ۔ عملی ۔اس جمعیت نے دونوں پہلؤں پرتاریخ سازکردارسرانجام دیا۔رفتہ رفتہ اس کی حیثیت مرکزی بن گئی ، پورے بر صغیر میں جماعت رضائے مصطفی کی شاخیں قائم ہو گئیں ۔ جماعت کی مرکزی حیثیت بن جانے پراغراض ومقاصد اور قواعد و ضوابط میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی ۔ جماعت رضائے مصطفی کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ١٤جمادی الاولیٰ ١٣٨٣ھ ۔٣ اکتوبر ١٩٦٣ء کو مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضابریلوی کی سرپرستی،اوربرہان ملت مفتی برہان الحق جبل پوری کے زیراہتمام آستانہ عالیہ سلامیہ جبل پورپرکل ھندجماعت رضائےمصطفی کاایک اجلاس منعقدہوا ۔جس میںدوبارجماعت کی تاسیس ہوئی ۔اورحسب ذیل دفعات کااضافہ کیاگیا۔
١۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفی کی دائمی سر پرستی پر حضور مفتیٔ اعظم بریلوی فرمائیں گے ۔
۲۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفی سارے ہند کی کل مقامی،ضلعی،صوبائی،اورکل ہندجملہ تنظیموں کی نگرانی اور جماعت رضائے مصفطی ہوگی ۔ ہندوستان کی ساری سنی تنظیمیں اورجماعتیںکل ہندجماعت مبارکہ کے تحت رہیں گی ۔
٣۔ مختلف سنی تنظیموں کے باہمی اختلاف کی شکل میں کل ہند جماعت مبارکہ کی حیثیت ثالث اور حکم کی ہوگی ۔
٤۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفی کی تنظیم حسب ذیل ہوگی ۔
‘(ا) ہر شہر میں دارالافتا ء قائم کرنا ۔
(ب) ہر شہر میں دارالقضاء قائم کرنا۔
(ج) ہر جگہ مکاتب ومدارس اسلامیہ قائم کرنا۔
(د) ہندوستان کےہرمفتی شہر، اور قاضی کا تعلق کل ہند جماعت رضائے مصطفی سے ہوگا ۔
٥ ۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفی کا انتخاب ہر پانچ سال بعد ہوا کریگا ۔
٦ ۔کل جماعت رضائے مصطفی کا مرکز دفتر بریلی ہی میں زیر نگرانی مفتئی اعظم رہے گا
٧۔ریلیف کمیٹی، مرکز جماعت رضائے مصطفی بریلی کی زیر نگرانی ، تر میم و تبدیل کے کل اختیارات سر پرست وصدر کل جماعت رضائے مصطفی کو حاصل رہیں گے ۔
٨۔ ریلیف کمیٹی مرکز جماعت رضائے مصطفی کےعلاوہ اور کوئی ریلیف کمیٹی قائم نہ ہوگی ۔
٩۔ ریلیف کمیٹی جماعت رضائے مصطفی کا کوئی انتخاب نہ ہوا کریگا ۔ بلکہ سر پرست وصدر کل جماعت رضائے مصطفی اپنے اختیارات ِخصوصی سے نامزد فرمایا کریں۔ جبل پور کے اس کل ہند جماعت رضائےمصطفی کے خصوصی اور انقلابی اجلاس سے قبل امام احمد رضا محدث بریلوی کے عرس کے موقع پر ٢٦ صفر المظفر ١٣٨٣ھ ۔١٨جولائی ١٩٦٣ء کو کل جماعت رضائے مصطفی کا مر کزی انتخاب عمل لا یا گیا۔جس میں حضور مفتئی اعظم بریلوی سر پرست ، مفتی برہان الحق جبل پوری کو کل ہند کا صدر ، اور مولانا ابو الوفا فصیحی غازی پوری کو نا ظم منتخب کیا گیا تھا ۔ بعد ہ اجلاس جبل پور میں بقیہ عہد یدار وں کا انتخاب عمل میں آیا ۔
٭نائب صدر اول ۔۔۔۔۔ حضورشیخ الاسلام علامہ مولانا مدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی ۔
٭نائب صدر دوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفتی رفاقت حسین ، احسن المدارس کا نپور ۔
٭نا ظم اعلیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا علی محمد دھوراجی ، راج پیلا بھڑوچ ۔
٭نائب ناظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبد الصمد مجنون جبل پوری ۔
٭نائب ناظم و خازن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید حمایت رسول رضوی جامع مسجد بریلی
(١) علاوہ ازیں متعدد جلیل القدر علماء کو کل ہند جماعت رضائے مصطفی کو ور کنگ کمیٹی کاممرنامزد کیا گیا۔اس طرح حضور مفتئی اعظم بریلوی کی سر پرستی میں جماعت رضائے مصطفی کی نشاۃ ثانیہ نے اسلامیان ہند کی مذہبی ، قومی ،اسلامی ضرورت کو پورا کردیا ۔
اس وقت جماعت رضائے مصطفیٰ کواپنے ممدوتعاون سے نوازنے والے اکابرعلماء کے اسمائے گرامی:
١۔ حضور مولانا شاہ سید اسماعیل حسن میاں برکاتی ، سجادہ نشین سرکار مارہرہ مطہرہ
٢۔ تاج العلماء حضرت مولانا سید محمد میاں قادری ، سرکار کلاں مارہرہ مطہرہ
٣۔ حضرت مولانا مفتی شاہ محمد عبد السلام رضوی جبل پوری
٤۔ صدر الشریعہ حضرت مولانا مفتی محمد امجد علی رضوی اعظمی
٥۔صدر الافاضل مولانا حکیم سید محمد نعیم الدین مرادآبادی
٦۔ ملک العلماء حضرت مولانا محمد ظفر الدین رضوی بہاری
٧۔ صدر العلماء مولانا رحم الہی منگلوری
٨۔ حضرت مولانا محمود جان رضوی جام جودھ پوری
٩۔ استاذ العلماء حضرت مولانا حسنین رضا خاں بریلوی ایڈیٹر ماہنامہ الرضا بریلی
١٠۔ برہان ملت مفتی برہان الحق رضوی جبل پوری
١١۔ حضرت مولانا امام الدین کوٹلی لوہاران پنجاب
١٢۔ حضرت مولانا سید محمد آصف رضوی قادری کانپوری
١٣۔ مولانا محمد عرفان علی رضوی بیسلپوری
١٤۔ مولانا قاضی ابوالکمال محمد اشہد الدین مرادآبادی
١٥۔قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد القادری مہاجر مدنی
١٦۔ مولانا قاضی محمد قاسم سیال کوٹی
١٧۔ حاجی مفتی جلال الدین لاہوری
مذکورہ بالاحضرات میں وہ شخصیات بھی ہیں جو اپنے عہد کے جید عالم، فقیہ النفس مفتی ، نکتہ رس مدبر ، اثر انگیز مناظر و واعظ اور سیاسی بصیرت کے حامل تھے ۔ان متذکرہ اکابر علما ومشائخین کوحضورشیخ الاسلام کی تبحرعلمی و سیاسی بصیرت ، تنظیم وتحریکی قابلیت پر کامل اعتماد تھا۔
جماعت رضائے مصطفیٰ پر حضورمحدث اعظم اور شیخ الاسلام کا بہت بڑااحسان ہے ۔حضرت مولاناذاکرحسین راج محلی لکھتے ہیں
جماعتی نظم ونسق سے متعلق جوکچھ بھی ہوتارہااس میں حضرت مفتی اعظم ہند (علیہ الرحمہ)اورحضرت محدث اعظم ہند رضی اللہ عنہ کی رائے حرف آخرسمجھی جاتی ،اورہرمجلس مشاورت کی پوری کاروائی حضرت محدث اعظم ہندعلیہ الرحمہ کے استصواب واستفسار پرمعلق کردی جاتی‘‘
عوام اہل سنت اچھی طرح جانتے ہیں اعظمین (محدث اعظم،مفتی اعظم)کے تعلقات و روابط کس قدر مضبوط ومستحکم تھے۔ حضورمحدث اعظم کے انتقال پُرملال کے بعد جماعت کے نظم وضبط کے حوالے سے برصغیر میں حضورمفتی اعظم کو اپنے نائب کی حیثیت سے حضورشیخ الاسلام سے بہترکوئی نہ لگا۔
جماعتی نظم ونسق سے متعلق جوکچھ بھی ہوتارہااس میں حضورمفتی اعظم اور حضورشیخ الاسلام کی باہمی رضامندی ہی سے طئے پاتا۔
ہندوستان سے باہر خصوصاً یوروپ میں جماعت رضائے مصطفیٰ کاعلمبردار اگر کوئی پہنچاتھا تو وہ حضورشیخ الاسلام کی شخصیت تھی ۔آپ نے یوروپ میں جماعت رضائے مصطفیٰ قائم کی نیزاسی جماعت نے حضورشیخ الاسلام کے خطبات کی اہم کتاب خظبات برطانیہ شائع کی۔
اس جماعت کی رگوں میں سادات کچھوچھہ کاخون دوڑرہاہے ۔مگراحسان فراموشی کے اس دورمیں حضورمحدث اعظم اور حضورشیخ الاسلام کی خدمات کوفراموش کردیاگیا۔ حال ہی میں جماعت رضائے مصطفیٰ کےتعارف پرچہ نظرسے گزرا ۔ستم ظریفی اور تعصب کہ مقالہ مگار حضور شیخ الاسلام کے نام مبارک کو صرف ’’مولانامدنی کچھوچھوی‘‘ پرہی اکتفاکیا۔
الجمیعۃ الاشرفیہ:
الجمیعۃ الاشرفیہ اپنے وقت کی ایک اہم سیاسی وتعلیمی ، فلاحی ودینی تحریک تھی۔ جس کی خدمات نمایاں ہیں۔ الجمیعۃ اورجماعتِ رضائے مصطفیٰ کے ماتحت بے شماراجلاس اس تنظیم کے زیراہتمام ہوئے ۔حضورمحدث اعظم ہندکی کرناٹک میں آمدکے ساتھ متعددشاخیں قائم تھیں۔ ایک عرصہ تک اس تنظیم کی سربراہ کی حیثیت سےحضورشیخ الاسلام کی وابستگی رہی۔اس کی شاخیں شہر ہبلی اور بلگام اور بلاری وغیرہ میں بھی قائم تھی۔
محدث اعظم مشن :
ابتداً عرض کرچکاہوں کہ1980میں حضورشیخ الاسلام نے محدث اعظم مشن کی بناڈالی ،ضرورت وقت کی وجہ سے مشن کی شاخیں پورے ہندستان میں پھیل گئیں
مشن کے قیام کی پالیسی ومقاصد یہ ہیں
تنظیم اہل سنت و تبلیغ و حمایت مذہب و ترویج علوم اہلسنت و جماعت و تدابیر ترقی فلاح و صلاح اہلسنت و حسن انتظام ادارےتعلیمی وغیرہ۔ علوم دینیہ و دنیویہ کی تصنیفات قدیم و جدید کا دارالکتب و دار المطالعہ قائم کرنا، اور نافع کتب و رسائل و جرائد کا حسب ضرورت نشر و اجرا کرنا اور فنون و صنائع کا ان کے ماہرین سے تعلیم دلانا۔ نشر و تبلیغ مذہب اہلسنت و جماعت کے وسائل کا حاصل کرنا اور ان سے کام لینا۔ اشاعت مذہب اہلسنت و جماعت دیہات و شہر میں کرنا۔ مسلمانوں میں باہمی اتحاد اور درمیاں برادران اہلسنت خوشگوار تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ مذہبی دار العلوم کو ایسے شاہراہ ترقی پر چلانا کہ اس کی دینی و دنیوی مکمل تعلیم وتربیت اہلسنت و جماعت میں قرون اولی کے سلف صالحین کا نمونہ پیدا کرے اور دیہات میں مدارس جاری کرانا۔ سنن و شعائر اسلام کے اجرا اور بدعات و سئیات کے ابطال و امحاء کی سعی کرنا ۔ تحصیلات و قصبات دیگر بلاد وشہر میں مشن قائم کرنا۔مساجد و اوقاف اہلسنت و جماعت کا انتظام کرنا اور ان کو صحیح مصارف کے لئے محفوظ کرنا۔ اغراض مندرجہ بالاکے واسطے سرمایہ فراہم کرنا اور مختلف شعبہ جات قائم کرنا اور مقاصد مشن کی تکمیل کے لئے رضا کا ران مرتب کرنا اور ان کو اس کی تعلیم و تر بیت دینا۔
■ الغرض مشن اپنی45سالہ حیات میں اپنے مقاصد میں کامیابی وکامرانی کے ساتھ ترقی شاہراہوں پرگامزن ہے ،یہ سب حضورشیخ الاسلام کی دوراندیشی محنت شاقہ اور ریاضت ہی کانتیجہ ہے کہ مشن کے ماتحت سینکڑوں دینی مدارس وعصری درسگاہیں جنم لے چکی ہیں جوقوم وملت کے نونہالوں کو سجانے سنوار نے منہمک ہیں۔ ہرسطح وہرشعبۂ حیات میں محدث اعظم مشن اپنے کامیابی کے پرچم گاڑتی نظر آرہی ہے۔نائب سجادہ نشین آستانۂ محدث اعظم حضرت سید حسن العسکری کی شکل میں مشن کوایک نئی روح وتازگی وجفاکش رہبر قائدومصلح دستیاب ہے ۔تقریباً پچاس ہاسپٹیل عوام الناس کی طبی خدمات میں مصروف ہے۔احیائے اسلام وفروغ سنیت کے لیے گرجاگھروں کوخرید کر مسجد میں تبدیل کررہی ہے۔ حضورشیخ الاسلام کی تمام خدمات میں سب نمایاں ومنفرد خدمت مشن کااحیاء، اس کا ارتقا، اس کی تعمیری وتشکیلی ڈھانچہ ہے۔
سنی جمیعۃ العلما
سنی جمیعۃ العلما کی سرپرستی حضورمحدث اعظم ہندفرمایاکرتے تھے ۔حضرت سیدالعلماء کے دستِ راست سمجھے جاتے تھے۔ حضورمحدث اعظم کی رحلت کے بعد حضورشیخ الاسلام نائب صدر مقرر ہوئے۔ ایک عرصہ تک اپنی دوراندیشی ،فکروتدبر کے ذریعے اس تنظیم کو چارچاندلگا دئے ۔انتشارِ اہل سنت کی بناپر یہ تنظیم بھی اپنے دوراندیش قائد سےمحروم ہوگئی۔
تحریک دعوت اسلامی کی تائید:
تحریک دعوت اسلامی کے لیے تنقیدی وخدماتی جائزہ تقریباً تیس سال پیشتر حضورشیخ الاسلام نے پیش فرمایے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب اچھے اچھے بھی دعوت اسلامی کی خدمات سے کماحقہ آشنا نہ تھے۔مدبرزماں حضورشیخ الاسلام نے جو خطوط متعین فرمائے تھے اگر سنجیدگی سے اس پر ذمہ داران تحریک غوروفکر کے بعد عمل پیراہوتا تو زمانے کے کئی نشیب وفراز سے بچ جاتے۔
مدنی فاؤنڈیشن
مدنی میاں عربک کالج ہبلی جوشیخ الاسلام کااپنا ادارہ ہے ،اور اس کے فارغین کی تعداد سینکڑوں میں ہے ،یہ تنظیم فارغین مدنی میاں عربک کالج کی ہے، مولاناشمس الدین صاحب قاضی صاحب کی کوششوں سے اس کی بنیاد حضورشیخ الاسلام نے 2007میں رکھی۔ اس تحریک کےاغراض ومقاصد میں اہم مقصد علماء اہل سنت خصوصاً خانوادۂ اشرفیہ کی کتب کی اشاعت و بیداریٔ ملت، تعلیمی وفلاحی خدمات ہیں۔ یہ تحریک اپنے زرین اصول کے ساتھ حضورشیخ الاسلام کی سربراہی وسرپرستی میں منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہے درجن بھر سے زائد کتب اشاعت اردو،کنڑا انگریزی میں شائع کرچکی ہے اورحضورمحدث اعظم مخدوم الملت مفسرومترجم قرآن حضرت سیدمحمدکچھوچھوی کانایاب قصیدۂ معراجیہ شائع کرنے کاسہرابھی اسی کے سرجاتاہے۔ اس تنظیم کی خدمات کسی اور وقت کے لیے اٹھارکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی تنظیموں اور تحریکوں سے حضورشیخ الاسلام کی وابستگی رہی ۔جیسے شیخ الاسلام ٹرسٹ (گجرات) الجمیعۃ الاشرفیہ آل انڈیاتبلیغِ سیرت ،آل انڈیا سنی جمعیۃ العلما وغیرہ۔ نہایت تلاش وجستجو کے بعد بھی الجمیعۃ الاشرفیہ کی تفصیلات حاصل نہ ہوسکی۔یقیناً یہ تمام تنظمیں اس بات پر فخرکناں ہیں کہ انہیں قائدو سربراہ ، بانی کی حیثیت سے ایک عظیم مدبر مفکر دوراندیش شخصیت ملی۔
تمام تنظیموں میں سب سے اہم تنظیم محدث اعظم مشن وشیخ الاسلام ٹرسٹ ہے، ایک بات صاف طورسے واضح کردوں کہ اگر کوئی شخص یہ سوچتاہے کہ محدث اعظم مشن ملک بھر کی بے شمار دینی و فلاحی تنظیموں میں سے ایک اور تنظیم کااضافہ ہے تووہ سخت اندھیرے میں ہے۔غوث اعظم کاصدقہ، مخدوم پاک کی کرامت، محدث اعظم کے فیضان ، حضورشیخ الاسلام کی فکر کانام محدث اعظم مشن ہے۔