اسلام
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی علوم دینیہ کے سر چشمہ
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
علوم دینیہ کے سر چشمہ
از: مولانامفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی و قادری
‘نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد
حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ حافظ امام ابوالبرکات محمد انوار اللہ فاروقی چشتی صابری بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ والرضوان کو اللہ سبحانہ وتعالی نے دینی و دنیوی فوقیت اور علمی سیادت وقیادت سے بہرہ ور فرمایا، آپ اپنے وقت کے علماء ربانیین کے امام ومقتدیٰ تھے آپ کو تمام علوم دینیہ شرعیہ، تفسیر، حدیث،فقہ، تاریخ وسیرت، منطق، وفلسفہ کلام عقائد میں کمال براعت اور مہارت تامہ ویدطولیٰ حاصل تھا۔ آپ کا خاندان فاروقی ہے، چنانچہ سیدنا عمر بن خطاب فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے فیضان علمی سے آپ کو حظ وافر سرفراز ہوا، آپ کے خاندان میں اولیاء کرام اور مجددین عصر گزرے ہیں اور ایسی عظمت و جلالت کے مالک کہ جن کے دور میں ان کے علمی پایہ اور مرتبہ کی کوئی اور شخصیت نہیں تھی۔حضرت خواجہ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جیسے ولی باکرامت اور حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے مجد دین آپ کے اجداد میں ہیں۔
آپ کے خاندان کے کتنے ایک بزرگ، قضاۃ اور قاضی القضاۃ کے عہدۂ جلیلہ پر متمکن رہے ہیں، اسی کی برکت تھی کہ اللہ جل وعلا نے حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ کو تمام علوم دینیہ میں تبحر اور علمی گہرائی وگیرائی سے سرفراز فرمایا اور فقہی بصیرت میں ایسا ملکہ عطا فرمایا کہ آپ اپنے تمام معاصرین و اقران پر فائق وممتاز تھے اور ہر کوئی آپ کے علم وفضل، رفعت وجلالت کی مدح وثناء میں رطب اللسان ہے۔
علم فقہ انسان کی زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ اسی سے دین ودنیا کی صلاح وفلاح قائم ہے، علم فقہ، خالق ومخلوق کے درمیان رابطہ کو مضبوط ومستحکم کرتا ہے اور حقوق وفرائض بھی اسی سے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر فقہ نہ ہو تو حیوانیت کے سوا کچھ نہیں، علم فقہ دراصل قرآن کریم اور حدیث شریف کا نچوڑاور مہکتا ہوا عطر ہے۔ عالم کی باغ وبہار اور باد نسیم کی بھینی مہکتی ہوئی خوشبو اور دنیا میں امن و سلامتی کا نظام وقیام سب اسی سے ہے۔ علم فقہ کو مضبوط تھامنا دراصل قرآن وحدیث کو مضبوطی سے تھامنا ہے۔ اور یہ بات قطعی ہے کہ قرآن و حدیث کو تھامنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان نے اپنی گراں قدر تصانیف بالخصوص حقیقۃ الفقہ، حصہ اول و دوم میں اسی سے بحث فرمائی ہے۔ اور ہر مسئلہ دلائل قرآن، وبراہین حدیث سے مدلل و مبرھن فرمایا ہے آپ کا اسلوب مخاطب کو مطمئن کردیتا ہے۔ اور ہر مخاطب اگرچہ مخالف ہو اس کو پوری رغبت کے ساتھ قبول کرلیتا ہے۔ اور اس میں حلاوت ولذت محسوس کرتا ہے ایک فقیہ کے لئے جتنے علوم میں مہارت اور دسترس کی ضرورت ہے۔ حضرت علیہ الرحمۃ کو ان سب پر کامل عبور تھا۔ حضرت نے اپنی تالیفات کے ذریعے قوم کی خیر خواہی فرمائی ہے۔ آپ کا انداز کسی کے ساتھ بھی حتی کہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی جارحانہ نہیں ہے بلکہ ناصحانہ ہے ۔ حضرت علیہ الرحمۃکا یہی وہ وصف امتیاز ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے ہر انسان کے دل میں حضرت کی محبت ڈالدی ہے۔ دنیائے علم وفن میں آپ کا شہرہ ہے۔
حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ نے اپنی شاہ کار تصنیف ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ کے ذریعے علم فقہ کی حقیقت تقلید کی ضرورت، اور عدم تقلید سے ہونے والے فساد پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔ اور غیر مقلدین کے لئے ترک تعصب کے سلسلہ میں خیر خواہی اور نصیحت فرمائی ہے۔ ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ حصہ اول میںآپ نے فقہ کی ضرورت فقیہ کے فرائض فقیہ اور مجتھد کے مابین فرق ضرورت اجتہاد، قیاس جائز وناجائز، احکام کا معلول بعلت ہونا ،امام صاحب کا امام اعظم ہونا، اور سب میں افقہ ہونا، کل احادیث کا امام صاحب کے پیش نظر ہونا اور محدثین امام صاحب کے دعاگو ہیں، اس جیسے اہم مضامین کو آپ نے بڑ ی جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح حصہ دوم میں تدوین فقہ اور تقلید کی ضرورت اور تقلید انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ محدثین امام صاحب کی تقلید کیا کرتے تھے اور تقلید کو باعث نجات سمجھتے تھے۔ تمام مقلدین عامل بالحدیث ہیں۔ مذاہب اربعہ کی حقانیت، اس طرح کے بیشتر اہم تر مضامین پر قرآن وحدیث سے مدلل بحث فرمائی اور ان کو ثابت کیا ہے۔ علم فقہ میں آپ کا مرتبہ آپ کی علمی گہرائی وگیرائی، معانی و مطالب کی بلندی، آپ کے اسلوب استدلال اور طریقہ استخراج سے معلوم ہوتی ہے۔ مختصر عبارت میں طویل مضامین کو بیان کرنا آپ کا طرہ امتیاز ہے۔
ایک فقیہ کے لیے ابتدائی جن امور کی ضرورت ہے ان میں سب سے پہلے عربی زبان اور اس کے علوم بلاغت سے کامل معرفت ضروری ہے اور دوسری بات قرآن وحدیث سے متعلق تمام علوم پر بصیرت کا ہونا اور روایت ودرایت سے متعلق تمام مباحث کا احاطہ کرنا۔ اور مراتب حدیث و مراتب اصحاب حدیث اور طبقات فقہاء وطبقات کتب فقہ سے کلی واقفیت لازمی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام ان تمام علوم ومعارف میں یکتائے روزگار تھے۔ زبان عربی اور اس کے آداب میں جو آپ کو قدرت کاملہ حاصل تھی اس کا اندازہ آپ کی متعدد کتابوں میں جگہ جگہ علمی مباحث سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً آیتِ توقیر سے متعلق آپ نے جو علمی بحث فرمائی ہے۔ وہ نہایت ہی اہم اور آپ کی خدا داد قابلیت کا نتیجہ ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام نے یہ وضاحت فرمائی کہ تعظیم وتوقیر تو رسول پاک ﷺ کی مراد ہے۔ لیکن تسبیح اللہ تعالی کی مراد ہے۔ ’’وتسبحوہ‘‘ میں ’’ہ‘‘ جو ضمیر منصوب ہے اس کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ تسبیح کلمہ تنزیہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی مختص ہے۔ لیکن اس تفسیر پر ایک زبردست اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ ’’وتعزروہ وتوقروہ‘‘کی ضمیر کا مرجع جب رسول پاکﷺ ہیں اور ’’وتسبحوہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالی ہو تو یہ انتشار مرجع قرار پائے گا، جو بغیر کسی قرنیہ کے پسند نہیں، اور کلام بلیغ کے شایان نہیں، لیکن حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان نے اس اعتراض کو دفع کرتے ہوئے بڑی مبسوط علمی بحث فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا کہ
’’ یہ سب تکلیف اس وجہ سے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ تسبیح کے معنی حضرتﷺ کی نسبت صادق نہیں آتے اور اگر تسبیح کے معنی جب مناسب مقام لئے جائیں تو پھر کسی قسم کا اشکال باقی نہیں رہتا کیونکہ حق تعالیٰ کی تنزیہ الوہیت سے متعلق ہے یعنی اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو شان الوہیت کے منافی ہو۔ اور رسول اللہ ﷺ کی تنزیہ رسالت سے متعلق ہوگی یعنی حضرت میں کوئی بات ایسی نہیں جو شان رسالت کے منافی ہو چنانچہ اس قسم کی تنزیہ نبی کریمﷺ کی خود حق تعالی نے فرمائی ہے وَمَا ھُوَ عَلٰی الْغَیْبِ بِضَنِیْنَ، وَلَوْکُنْتَ فَظًّاغَلِیْظًا الْقَلْبِ لَا انْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ، عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ، مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنْ۔
پھر جس لحاظ سے کہ حضرتﷺ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ فرمایا تو اسی لحاظ سے حضرتﷺ کی تسبیح حق تعالی کی تسبیح ہوجائے تو کیا تعجب ہے بہر حال ’’تسبحوہ‘‘ کی ضمیربھی رسولہ کی طرف پھرسکتی ہے‘‘۔(۱)
ناظرین کرام اس علمی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت کو علوم عربیہ وبلاغت پر ہی دسترس حاصل نہیں بلکہ آپ علوم تفسیر میں بھی بڑی دقیق نظر رکھتے تھے اور آپ فنافی الرسول کے درجہ پر فائز نظر آتے ہیں۔ چونکہ فقیہ کے لئے جن علوم میں مہارت ضروری ہے منجملہ ان کے تفسیر بھی ہے۔ اور حضرت شیخ الاسلام کو علوم قرآن میں کامل عبور و دستگاہ تام حاصل تھی۔ آپ کی تصانیف میں جگہ جگہ اس کی روشن دلیلیں موجود ہیں۔ چنانچہ آپ ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ میں ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
’’ہر حکم معلل ہے اور فرماتے ہیں اس پرکئی آیات قرآنیہ گواہی دے رہی ہیں، منجملہ ان آیات کے چند آیات یہ ہیں: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَ وَالْاِنْسَ اِلّاَلِیَعْبُدُوْنَ، وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانٍ قَوْمِہِ لِیَتَبَیَّنَ لَھُم، وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَھُمْ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔ (۲)
ان آیتوں سے احکام کا معلل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ افعالِ الھیہ معلّل بالاغراض نہیں ہوتے تو حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’معلل بالاغراض نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ افعال الھیہ میں کوئی ایسی غرض نہیں ہوسکتی، جس سے اس کا ذاتی نفع اور استکمال ہو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ افعال الھیہ منافع اور مصالح اور فوائد سے خالی ہوں۔ بلکہ بلحاظ ’’فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ‘‘ یہ ماننا پڑے گاکہ خدائے تعالی کے ہر فعل میں صدہا منافع ہیں، جن کا ادراک طاقت بشری سے خارج ہے۔غرضکہ جو احکام خدائے تعالی نے مقرر کئے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی علت ضرور ہوگی جومصالح عباد سے متعلق ہے، اس سے ثابت ہے کہ ہر حکم معلل ہے۔‘‘ (۳)
قارئین کرام! اس سے علم تفسیر حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان کا بلند مرتبہ معلوم ہوتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ علم فقہ میں آپ کاتفوق بھی آشکار ہوتا ہے۔ آپ کی گراں بہا کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علوم حدیث، روایت ودرایت، سند ومتن، علل حدیث، علم رجال اور اس کے متعلقات پر بھی آپ کو کمال بصیرت حاصل تھی۔
’’الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘ ا ور حدیث شریف میں آپ کا قلمی مخطوطہ بنام ’’انتخاب صحاح‘‘ جو عربی زبان میں ہے۔ آپ کے علم حدیث میںکمال تبحر پر شاھد عدل ہیں آپ کی علم وفضل میں بلندی کا ہم کیا اندازہ کرسکتے ہیں۔ آپ کے اساتذہ اجلّہ اور آپ کے پیر ومرشد بھی آپ کے علم فقہ ہی میں نہیں بلکہ تمام علوم ظاہر وباطن کے جامع ہونے کی تعریف وتوصیف فرمائے ہیں، جو ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ کے جلیل القدر استاذ حضرت علامہ عبدالحی فرنگی محلی علیہ الرحمہ جو امام فقہ مانے جاتے ہیں اور شرح وقایہ و ہدایہ پرحواشی جو آپ کی فقاھت کی روشن دلیل ہیں پھر حدیث شریف میں وہ مقام بلند کہ موطا امام مالک پر آپ کا حاشیہ اس کی گواہی دیتا ہے نیز منطق و فلسفہ میں بھی آپ ماہر اور صاحب تصانیف کثیرہ ہیں، ’’حل المغلق فی بحث المجھول المطلق‘‘ جیسی تصنیف لطیف میں بایں الفاظ آپ کا ذکر فرمایا ہے۔
’’ الفتھاحین قراء ۃ الذکی المتوقد المولوی الحافظ انواراللہ بن المولوی محمد شجاع الدین الحیدرآبادی‘‘ میں نے یہ رسالہ اس وقت تالیف کیا جبکہ زیرک وفہیم طالب علم مولوی حافظ محمد انواراللہ بن مولوی محمد شجاع الدین حیدرآبادی میرے پاس تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔
اور آپ کے پیر ومرشد شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ جو اہل اللہ اور خاصان خدا سے ہیں عاشق رسول اور مقام فنائیت پر فائز تھے جن کی تمام دنیا میں شہرت ہے۔آپ نے انوار احمدی کی تقریظ میں شیخ الاسلام کو ان القاب سے سرفراز فرمایا۔’’ حضرت علامہ زماں وفرید دوراں ،عالم باعمل وفاضل بے بدل، جامع علوم ظاہری وباطنی’’’ عارف باللہ مولوی محمد انواراللہ حنفی چشتی سلمہ اللہ تعالی‘‘ اور حضرت شیخ المشائخ رحمۃ اللہ علیہ نے بانی جامعہ نظامیہ کی کتاب ’’انوارالتمجید فی ادلۃ التوحید ‘‘پر ایک تقریظ میں آپ کی کتاب کی بے حد تعریف وتوصیف فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اس کتاب میں کوئی بات قابل گرفت نہیں ہے مزید فرمایا کہ حقیقت میں ’انواراللہ‘ طالبان شریعت وطریقت کے لئے کافی ہیں، اور جو ان کے انوار کی روشنیوں میں راہ سلوک طے کرے گا وہ بہ تائید الہی منزل مقصود کو پہنچ جائے گا۔
حقا کہ طالبان شریعت و طریقت، انواراللہ است ہر کہ درلمعات ایں انوار سالک خواہد شد بتائید الہی بمنزل مطلوب خواہدرسید(۴)
ناظرین کرام غور فرمائیں کہ ان بزرگوں نے حضرت شیخ الاسلام سے متعلق جو توصیفی کلمات ارشاد فرمائے ہیں در حقیقت وہ الہامی کلمات ہیں اور ان میں اتنی معنویت ہے کہ اگر ایک ایک کی تشریح کی جائے تو اس کے لئے مستقل ایک ایک مقالہ درکار ہے الغرض شیخ الاسلام کو علم و فضل تقوی و ورع کی ساری فضیلتیں حاصل تھیں آپ خدا داد ذہانت اور علمی بصیرت کے مالک تھے۔ فراست ایمانی سے سرفراز تھے آپ داعی حق ہونے کے ساتھ ساتھ اصولی اور علم کلام کے ماہر اور تفسیر وحدیث اور خاص طور پر علم فقہ میں اپنے اقران پر ممتاز و فائق تھے۔
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱)امام محمد انوار اللہ فاروقی؍ مقاصد الاسلام حصہ یازدہم ص ۱۴، مجلس اشاعۃ العلوم ، حیدرآباد۔ ۱۳۳۹ھ
(۲) امام محمد انوار اللہ فاروقی؍حقیقۃ الفقہ ج۱، ص۱۹۰، مجلس اشاعۃ العلوم 1984ء
(۳) امام محمد انوار اللہ فاروقی؍حقیقۃ الفقہ ج۱، ص۱۹۰، مجلس اشاعۃ العلوم 1984ء
(۴) امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ؍انوارالتمجید، صـــ۱۴۰مطبوعہ ۱۳۴۱ھ، شمس الاسلام پر یس، حیدرآباد دکن)۔٭٭
آپ کے خاندان کے کتنے ایک بزرگ، قضاۃ اور قاضی القضاۃ کے عہدۂ جلیلہ پر متمکن رہے ہیں، اسی کی برکت تھی کہ اللہ جل وعلا نے حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ کو تمام علوم دینیہ میں تبحر اور علمی گہرائی وگیرائی سے سرفراز فرمایا اور فقہی بصیرت میں ایسا ملکہ عطا فرمایا کہ آپ اپنے تمام معاصرین و اقران پر فائق وممتاز تھے اور ہر کوئی آپ کے علم وفضل، رفعت وجلالت کی مدح وثناء میں رطب اللسان ہے۔
علم فقہ انسان کی زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ اسی سے دین ودنیا کی صلاح وفلاح قائم ہے، علم فقہ، خالق ومخلوق کے درمیان رابطہ کو مضبوط ومستحکم کرتا ہے اور حقوق وفرائض بھی اسی سے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر فقہ نہ ہو تو حیوانیت کے سوا کچھ نہیں، علم فقہ دراصل قرآن کریم اور حدیث شریف کا نچوڑاور مہکتا ہوا عطر ہے۔ عالم کی باغ وبہار اور باد نسیم کی بھینی مہکتی ہوئی خوشبو اور دنیا میں امن و سلامتی کا نظام وقیام سب اسی سے ہے۔ علم فقہ کو مضبوط تھامنا دراصل قرآن وحدیث کو مضبوطی سے تھامنا ہے۔ اور یہ بات قطعی ہے کہ قرآن و حدیث کو تھامنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان نے اپنی گراں قدر تصانیف بالخصوص حقیقۃ الفقہ، حصہ اول و دوم میں اسی سے بحث فرمائی ہے۔ اور ہر مسئلہ دلائل قرآن، وبراہین حدیث سے مدلل و مبرھن فرمایا ہے آپ کا اسلوب مخاطب کو مطمئن کردیتا ہے۔ اور ہر مخاطب اگرچہ مخالف ہو اس کو پوری رغبت کے ساتھ قبول کرلیتا ہے۔ اور اس میں حلاوت ولذت محسوس کرتا ہے ایک فقیہ کے لئے جتنے علوم میں مہارت اور دسترس کی ضرورت ہے۔ حضرت علیہ الرحمۃ کو ان سب پر کامل عبور تھا۔ حضرت نے اپنی تالیفات کے ذریعے قوم کی خیر خواہی فرمائی ہے۔ آپ کا انداز کسی کے ساتھ بھی حتی کہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی جارحانہ نہیں ہے بلکہ ناصحانہ ہے ۔ حضرت علیہ الرحمۃکا یہی وہ وصف امتیاز ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے ہر انسان کے دل میں حضرت کی محبت ڈالدی ہے۔ دنیائے علم وفن میں آپ کا شہرہ ہے۔
حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ نے اپنی شاہ کار تصنیف ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ کے ذریعے علم فقہ کی حقیقت تقلید کی ضرورت، اور عدم تقلید سے ہونے والے فساد پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔ اور غیر مقلدین کے لئے ترک تعصب کے سلسلہ میں خیر خواہی اور نصیحت فرمائی ہے۔ ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ حصہ اول میںآپ نے فقہ کی ضرورت فقیہ کے فرائض فقیہ اور مجتھد کے مابین فرق ضرورت اجتہاد، قیاس جائز وناجائز، احکام کا معلول بعلت ہونا ،امام صاحب کا امام اعظم ہونا، اور سب میں افقہ ہونا، کل احادیث کا امام صاحب کے پیش نظر ہونا اور محدثین امام صاحب کے دعاگو ہیں، اس جیسے اہم مضامین کو آپ نے بڑ ی جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح حصہ دوم میں تدوین فقہ اور تقلید کی ضرورت اور تقلید انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ محدثین امام صاحب کی تقلید کیا کرتے تھے اور تقلید کو باعث نجات سمجھتے تھے۔ تمام مقلدین عامل بالحدیث ہیں۔ مذاہب اربعہ کی حقانیت، اس طرح کے بیشتر اہم تر مضامین پر قرآن وحدیث سے مدلل بحث فرمائی اور ان کو ثابت کیا ہے۔ علم فقہ میں آپ کا مرتبہ آپ کی علمی گہرائی وگیرائی، معانی و مطالب کی بلندی، آپ کے اسلوب استدلال اور طریقہ استخراج سے معلوم ہوتی ہے۔ مختصر عبارت میں طویل مضامین کو بیان کرنا آپ کا طرہ امتیاز ہے۔
ایک فقیہ کے لیے ابتدائی جن امور کی ضرورت ہے ان میں سب سے پہلے عربی زبان اور اس کے علوم بلاغت سے کامل معرفت ضروری ہے اور دوسری بات قرآن وحدیث سے متعلق تمام علوم پر بصیرت کا ہونا اور روایت ودرایت سے متعلق تمام مباحث کا احاطہ کرنا۔ اور مراتب حدیث و مراتب اصحاب حدیث اور طبقات فقہاء وطبقات کتب فقہ سے کلی واقفیت لازمی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام ان تمام علوم ومعارف میں یکتائے روزگار تھے۔ زبان عربی اور اس کے آداب میں جو آپ کو قدرت کاملہ حاصل تھی اس کا اندازہ آپ کی متعدد کتابوں میں جگہ جگہ علمی مباحث سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً آیتِ توقیر سے متعلق آپ نے جو علمی بحث فرمائی ہے۔ وہ نہایت ہی اہم اور آپ کی خدا داد قابلیت کا نتیجہ ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام نے یہ وضاحت فرمائی کہ تعظیم وتوقیر تو رسول پاک ﷺ کی مراد ہے۔ لیکن تسبیح اللہ تعالی کی مراد ہے۔ ’’وتسبحوہ‘‘ میں ’’ہ‘‘ جو ضمیر منصوب ہے اس کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ تسبیح کلمہ تنزیہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی مختص ہے۔ لیکن اس تفسیر پر ایک زبردست اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ ’’وتعزروہ وتوقروہ‘‘کی ضمیر کا مرجع جب رسول پاکﷺ ہیں اور ’’وتسبحوہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالی ہو تو یہ انتشار مرجع قرار پائے گا، جو بغیر کسی قرنیہ کے پسند نہیں، اور کلام بلیغ کے شایان نہیں، لیکن حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان نے اس اعتراض کو دفع کرتے ہوئے بڑی مبسوط علمی بحث فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا کہ
’’ یہ سب تکلیف اس وجہ سے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ تسبیح کے معنی حضرتﷺ کی نسبت صادق نہیں آتے اور اگر تسبیح کے معنی جب مناسب مقام لئے جائیں تو پھر کسی قسم کا اشکال باقی نہیں رہتا کیونکہ حق تعالیٰ کی تنزیہ الوہیت سے متعلق ہے یعنی اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو شان الوہیت کے منافی ہو۔ اور رسول اللہ ﷺ کی تنزیہ رسالت سے متعلق ہوگی یعنی حضرت میں کوئی بات ایسی نہیں جو شان رسالت کے منافی ہو چنانچہ اس قسم کی تنزیہ نبی کریمﷺ کی خود حق تعالی نے فرمائی ہے وَمَا ھُوَ عَلٰی الْغَیْبِ بِضَنِیْنَ، وَلَوْکُنْتَ فَظًّاغَلِیْظًا الْقَلْبِ لَا انْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ، عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ، مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنْ۔
پھر جس لحاظ سے کہ حضرتﷺ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ فرمایا تو اسی لحاظ سے حضرتﷺ کی تسبیح حق تعالی کی تسبیح ہوجائے تو کیا تعجب ہے بہر حال ’’تسبحوہ‘‘ کی ضمیربھی رسولہ کی طرف پھرسکتی ہے‘‘۔(۱)
ناظرین کرام اس علمی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت کو علوم عربیہ وبلاغت پر ہی دسترس حاصل نہیں بلکہ آپ علوم تفسیر میں بھی بڑی دقیق نظر رکھتے تھے اور آپ فنافی الرسول کے درجہ پر فائز نظر آتے ہیں۔ چونکہ فقیہ کے لئے جن علوم میں مہارت ضروری ہے منجملہ ان کے تفسیر بھی ہے۔ اور حضرت شیخ الاسلام کو علوم قرآن میں کامل عبور و دستگاہ تام حاصل تھی۔ آپ کی تصانیف میں جگہ جگہ اس کی روشن دلیلیں موجود ہیں۔ چنانچہ آپ ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ میں ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
’’ہر حکم معلل ہے اور فرماتے ہیں اس پرکئی آیات قرآنیہ گواہی دے رہی ہیں، منجملہ ان آیات کے چند آیات یہ ہیں: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَ وَالْاِنْسَ اِلّاَلِیَعْبُدُوْنَ، وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانٍ قَوْمِہِ لِیَتَبَیَّنَ لَھُم، وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَھُمْ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔ (۲)
ان آیتوں سے احکام کا معلل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ افعالِ الھیہ معلّل بالاغراض نہیں ہوتے تو حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’معلل بالاغراض نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ افعال الھیہ میں کوئی ایسی غرض نہیں ہوسکتی، جس سے اس کا ذاتی نفع اور استکمال ہو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ افعال الھیہ منافع اور مصالح اور فوائد سے خالی ہوں۔ بلکہ بلحاظ ’’فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ‘‘ یہ ماننا پڑے گاکہ خدائے تعالی کے ہر فعل میں صدہا منافع ہیں، جن کا ادراک طاقت بشری سے خارج ہے۔غرضکہ جو احکام خدائے تعالی نے مقرر کئے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی علت ضرور ہوگی جومصالح عباد سے متعلق ہے، اس سے ثابت ہے کہ ہر حکم معلل ہے۔‘‘ (۳)
قارئین کرام! اس سے علم تفسیر حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان کا بلند مرتبہ معلوم ہوتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ علم فقہ میں آپ کاتفوق بھی آشکار ہوتا ہے۔ آپ کی گراں بہا کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام علوم حدیث، روایت ودرایت، سند ومتن، علل حدیث، علم رجال اور اس کے متعلقات پر بھی آپ کو کمال بصیرت حاصل تھی۔
’’الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘ ا ور حدیث شریف میں آپ کا قلمی مخطوطہ بنام ’’انتخاب صحاح‘‘ جو عربی زبان میں ہے۔ آپ کے علم حدیث میںکمال تبحر پر شاھد عدل ہیں آپ کی علم وفضل میں بلندی کا ہم کیا اندازہ کرسکتے ہیں۔ آپ کے اساتذہ اجلّہ اور آپ کے پیر ومرشد بھی آپ کے علم فقہ ہی میں نہیں بلکہ تمام علوم ظاہر وباطن کے جامع ہونے کی تعریف وتوصیف فرمائے ہیں، جو ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ کے جلیل القدر استاذ حضرت علامہ عبدالحی فرنگی محلی علیہ الرحمہ جو امام فقہ مانے جاتے ہیں اور شرح وقایہ و ہدایہ پرحواشی جو آپ کی فقاھت کی روشن دلیل ہیں پھر حدیث شریف میں وہ مقام بلند کہ موطا امام مالک پر آپ کا حاشیہ اس کی گواہی دیتا ہے نیز منطق و فلسفہ میں بھی آپ ماہر اور صاحب تصانیف کثیرہ ہیں، ’’حل المغلق فی بحث المجھول المطلق‘‘ جیسی تصنیف لطیف میں بایں الفاظ آپ کا ذکر فرمایا ہے۔
’’ الفتھاحین قراء ۃ الذکی المتوقد المولوی الحافظ انواراللہ بن المولوی محمد شجاع الدین الحیدرآبادی‘‘ میں نے یہ رسالہ اس وقت تالیف کیا جبکہ زیرک وفہیم طالب علم مولوی حافظ محمد انواراللہ بن مولوی محمد شجاع الدین حیدرآبادی میرے پاس تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔
اور آپ کے پیر ومرشد شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ جو اہل اللہ اور خاصان خدا سے ہیں عاشق رسول اور مقام فنائیت پر فائز تھے جن کی تمام دنیا میں شہرت ہے۔آپ نے انوار احمدی کی تقریظ میں شیخ الاسلام کو ان القاب سے سرفراز فرمایا۔’’ حضرت علامہ زماں وفرید دوراں ،عالم باعمل وفاضل بے بدل، جامع علوم ظاہری وباطنی’’’ عارف باللہ مولوی محمد انواراللہ حنفی چشتی سلمہ اللہ تعالی‘‘ اور حضرت شیخ المشائخ رحمۃ اللہ علیہ نے بانی جامعہ نظامیہ کی کتاب ’’انوارالتمجید فی ادلۃ التوحید ‘‘پر ایک تقریظ میں آپ کی کتاب کی بے حد تعریف وتوصیف فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اس کتاب میں کوئی بات قابل گرفت نہیں ہے مزید فرمایا کہ حقیقت میں ’انواراللہ‘ طالبان شریعت وطریقت کے لئے کافی ہیں، اور جو ان کے انوار کی روشنیوں میں راہ سلوک طے کرے گا وہ بہ تائید الہی منزل مقصود کو پہنچ جائے گا۔
حقا کہ طالبان شریعت و طریقت، انواراللہ است ہر کہ درلمعات ایں انوار سالک خواہد شد بتائید الہی بمنزل مطلوب خواہدرسید(۴)
ناظرین کرام غور فرمائیں کہ ان بزرگوں نے حضرت شیخ الاسلام سے متعلق جو توصیفی کلمات ارشاد فرمائے ہیں در حقیقت وہ الہامی کلمات ہیں اور ان میں اتنی معنویت ہے کہ اگر ایک ایک کی تشریح کی جائے تو اس کے لئے مستقل ایک ایک مقالہ درکار ہے الغرض شیخ الاسلام کو علم و فضل تقوی و ورع کی ساری فضیلتیں حاصل تھیں آپ خدا داد ذہانت اور علمی بصیرت کے مالک تھے۔ فراست ایمانی سے سرفراز تھے آپ داعی حق ہونے کے ساتھ ساتھ اصولی اور علم کلام کے ماہر اور تفسیر وحدیث اور خاص طور پر علم فقہ میں اپنے اقران پر ممتاز و فائق تھے۔
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱)امام محمد انوار اللہ فاروقی؍ مقاصد الاسلام حصہ یازدہم ص ۱۴، مجلس اشاعۃ العلوم ، حیدرآباد۔ ۱۳۳۹ھ
(۲) امام محمد انوار اللہ فاروقی؍حقیقۃ الفقہ ج۱، ص۱۹۰، مجلس اشاعۃ العلوم 1984ء
(۳) امام محمد انوار اللہ فاروقی؍حقیقۃ الفقہ ج۱، ص۱۹۰، مجلس اشاعۃ العلوم 1984ء
(۴) امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ؍انوارالتمجید، صـــ۱۴۰مطبوعہ ۱۳۴۱ھ، شمس الاسلام پر یس، حیدرآباد دکن)۔٭٭