اسلام
ماہرِ طبیب کی تعریف
میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عليه رحمۃُ الرَّحمٰن نے فتاوٰی رضویہ جلد 24صَفْحَہ206پر ایک سُوال کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا اُس کا بعض حصّہ آسان لفظوں میں پیش کرنے کی کوشِش کرتا ہوں:چُنانچِہ فرماتے ہیں:نااہل یعنی جو پورا طبیب نہ ہو اُس کو علاج میں ہاتھ ڈالنا حرام ہے اور اِس کا ترک فرض۔ جس نے فنِّ طِب کے باقاعِدہ اُصول اور طور طریقے سیکھے اور کافی مدّت کسی طبیبِ حاذِق یعنی ماہِر طبیب کے مَطَب(دواخانہ)میں رہ کر کام کیا اور تجرِبہ حاصل ہوا، اکثر مریض اس کے ہاتھ پر شِفا پاتے ہوں اگر چِہ مریضوں کاکم حصّہ شفا پانے میں ناکام بھی رہتا ہو۔ بے علم نا تجرِبہ کار یعنی نیم حکیم جوکہ تَشْخِیْص (تَشْ۔خِیْص)یعنی مرض کی شناخت اورعلاج میں جس طرح کی فاحِش غَلَطیاں یعنی بڑی بڑی خطائیں کیا کرتے ہیں اس طرح کی بُھولیں نہ کرتا ہو وہ لائق طبیب ہے ۔ ایسے ماہرِ طبیب سے بعض اَوقات تَشخیص(یعنی مرض کی شناخت)یا علاج میں غلطی واقِع ہو جائے تو اُس کو نااَہل نہیں کہا جائے گا کہ غلطی سے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام معصوم ہیں وَبس۔ واللہُ تعالٰی اَعلم۔