اسلام
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کا خاندانی پس منظر
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کا خاندانی پس منظر
از: مولانا قاضی عبدالحق محمد رفیع الدین فاروقی، قاضی قندھار شریف(نبیرہ حضرت شیخ الاسلام)
٭٭سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، محتاج تعارف نہیں خلیفہ دوم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، کے بعد امت مرحومہ کے افضل ترین فرد ہیں آپ کی شان میں متعدد آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی وارد ہیں۔ عدل و انصاف و علم و فضل کے اعتبار سے غیر مسلم مورخین نے بھی آپ کی عظمت کو سلام کیاہے۔
ز عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جلیل القدر صحابی تھے۔ زہد و تقویٰ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔
ز خواجہ ناصر بن عبداللہ تابعین میں سے تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ ابراہیم بن ناصر بھی تابعین سے تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز اسحاق بن ابراہیم تبع تابعین اور عظیم مجتہد تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز ابوالفتح بن اسحاق بھی تبع تابعین سے تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ عبداللہ واعظ الاکبر جید عالم دین اور واعظ و محدث تھے آپ ابوالفتح کے بڑے فرزند تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ عبداللہ واعظ الاصغر بن عبداللہ واعظ الاکبر ظاہری و باطنی علوم کے مخزن تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز خواجہ مسعود بن عبداللہ وقت کی نامور شخصیت ہوئے ہیں خلفائے آل عباس نے بڑی منت سماجت سے آپ کو مکہ سے بلاکر بغداد رکھا وہ آپ کے از حد معتقد تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
زسلیمان بن مسعود علم و عمل کا حسین پیکر تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز محمود بن سلیمان علم و فضل کے علاوہ عسکری امور میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے خلیفہ وقت نے آپ کو ترکستان کے محاذ پر سپہ سالار بناکر بھیجا آپ کامیاب ہوئے پھر آپ نے غزنی کا قلعہ فتح کیا خلیفہ نے آپ کو غزنی کا حکمران بنا دیا۔ (رضی اللہ عنہ)
زنصیر الدین بن محمود، باپ کے بعد حکمران ہوئے کابل فتح کیا اور اسے اپنا پایہ تخت قرار دیا آپ کی وجہ سے ہی حضرت مجدد کابلی بھی کہلواتے ہیں۔ (رضی اللہ عنہ)
ز شہاب الدین معروف بہ فرخ شاہ کابلی، والد بزرگوار کے بعد حکمران ہوئے آپ نے ہندوستان، ایران، توران بدخشاں اور خراسان پر کامیاب حملے کئے آپ اوصاف حمیدہ کے مالک اور عدل گستر فرما روا تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز یوسف بن فرخ شاہ کامیاب حکمران ہوئے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز احمد بن یوسف نہایت متقی اور صاحب حال بادشاہ تھے باطنی استفادہ شیخ شہاب الدین سہروردی سے کیا۔ (رضی اللہ عنہ)
ز شعیب بن احمد باپ کے بعد خانقاہ میں ان کے خلیفہ مقرر ہوئے نہایت صاحب کشف و کرامت تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز عبداللہ بن شعیب نے شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی رضی اللہ عنہ سے استفادہ کیا ان کے خلیفہ بھی تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز اسحاق بن عبداللہ صاحب حال بزرگ تھے اپنے والد کے مرید تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز یوسف بن اسحاق علوم ظاہر و باطن کے جامع تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز سلیمان بن یوسف نہایت متقی اور پارسا شخصیت کے مالک تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
ز نصیر الدین بن سلیمان نے مشائخ چشتیہ سے فیض لیا کامل بزرگ تھے۔ (رضی اللہ عنہ)
حضرت فرید الدین گنج شکرفاروقیؒ
حضرت فرید الدین گنج شکرؒ: مسعود بن سلیمان کا شمار برصغیر پاکستان و ہند کے مشہور و معروف جن کا شمار صوفیہ اسلام کے سلسلہ چشتیہ مشائخ عظام میں ہوتا ہے۔ پاکستان و ہند کے لاکھوں مسلمان ہر دور میں ان کی عقیدت مندی پر آئے ہیں۔
ارباب سیر میں سے اکثر نے لکھا ہے کہ شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ نے ۹۵ برس کی عمر پائی۔ (اقتباس الانوار، ص ۱۷۵، کرمانی: سیر اولیاء، ص ۹۱) عمر کے بارے میں اس روایت کو صحیح سمجھا جائے تو ان کا سن ولادت ۵۷۵ھ؍۱۱۷۴۔ ۱۱۷۵ء نکلتا ہے۔ اس تاریخ کی تصدیق ایک دوسری روایت سے ہوجاتی ہے کہ شیخ مسعود نے پندرہ سال کی عمر میں خواجہ بختیارؒ اوشی کے ہاتھ بیعت کی اور بیعت کے بعد اسی سال زندہ رہے۔ (کرمانی: سیر اولیاء، ص ۹۱، محمد اکرم براسوی: اقتباس الانوار، ص ۱۷۵)
شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے والد کمال الدین یا جمال الدین سلیمان اور دادا شعیب ملتان کے قریب ایک مقام کھوتی وال (سیر اولیاء: کھتوال، تاریخ فرشتہ: کھوتوال، مرقع ملتان، ص ۵۱۰، آج کل تلفظ کوٹھی وال )کے قاضی تھے جو سلطان شہاب الدین غوری معز الدین سام کی مہمات سندھ و ملتان (۵۶۷ھ؍۱۱۷۵ء کے بعد) کے دوران میں کابل سے قصور میں آئے تھے (تاریخ فرشتہ، طبع برگس، بمبئی، ۲:۷۲۵، طبع نولکشور لکھنو، ۲: ۳۸۳، میرزا آفتاب بیگ: تحفہ الابرار، ص ۳۴)، اور قصور کے قاضی نے شیخ مسعود کے دادا شعیب کو کھوتی وال (بستی کا یہ نام غالباً جاٹوں کے ایک قبیلہ ’’کھوتی‘‘ سے منسوب ہے، دیکھئے A Glossary Of : A.H.Rose the Tribes and Castes of the Panjab etc، ۳: ۴۲۴، بذیل مادۂ سندھو، ۴۲۷ بذیل مادۂ سوھی) کا قاضی مامور کروا دیا۔ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے جد اعلیٰ یعنی قاضی شعیب کے والد نے جو وہیں کابل میں قیام پذیر تھے۔ چنگیز خان مغول کے ہاتھوں شہادت کا رتبہ حاصل کیا تھا (کابل پر چنگیز خاں کی یلغار، ۶۲۶ھ؍۱۲۲۰ء)۔ یہ خاندان فرخ شاہ کابلی (ایک بزرگ جنہیں سیرت نگار کابل کا بادشاہ بیان کرتے ہیں) کی اولاد سے تھے۔
فرید الدین گنج شکرؒ قصبہ کھوتی وال میں پیدا ہوئے، انہوں نے ملتان کی ایک مسجد میں مولانا منہاج الدین ترمذی سے تحصیل علم کی، یہیں انہوں نے عمر کے پندرہویں یا اٹھارویں سال میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ (رک باں) کے ہاتھ پر بیعت کرکے صوفیہ کے سلسلۂ چشتیہ میں شمولیت حاصل کی۔
مزید تحصیل علم کی غرض سے وہ کچھ عرصے تک قندھار میں مقیم رہے، وہاں سے بغداد، بلاد ایران اور بخارا کی سیاحت اختیار کی اور مشائخ وقت سے فیض پایا۔ ان میں سے حسب ذیل قابل ذکر ہیں: شہاب الدین سہروردی (م ۶۳۲ھ؍۱۲۳۴ء) (رک باں)، سعد الدین حموی (م حسب بیان تاریخ گزیدہ، ۶۵۸ھ؍۱۲۶۰ء و حسب بیان جامی:نفحات الانس بحوالہ یافعی، ۶۵۰ھ؍۱۲۵۲ء)(رک باں)، اوحد الدین کرمانی (م ۶۳۵ھ؍۱۲۳۷ء)، فرید الدین عطار نیشاپوری (م ۶۲۷ھ؍۱۲۲۹ء) (رک باں)، شیخ سیف الدین باخرزی (م ۶۵۸ھ؍ ۱۲۵۹ء) (رک باں)، بہاء الدین زکریا ملتانی (م ۶۶۴ھ؍۱۲۶۶ء) (رک باں)۔
بالآخر وہ ملتان واپس آئے اور اپنے مرشد اور شیخ خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کاکیؒ (م۶۳۴ھ؍۱۳۳۶ء) کی خدمت میں دہلی حاضر ہوئے اور خرقۂ خلافت پاکر وہیں دروازہ غزنویہ کے نزدیک ایک برج میں مجاہدے میں منہمک ہوگئے۔ دہلی میں انہوں نے اپنے دادا پیر خواجہ معین الدین اجمیریؒ عرف خواجہ غریب نواز (م ۶۲۷ھ؍۱۲۳۰ء) (رک باں) کی خدمت میں حاضر ہوکر بھی روحانی فیوض حاصل کیے اور کچھ عرصہ بعد ان کے شیخ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے حکم پر چند سال ہانسی میں اقامت گزین رہے۔ شیخ کی وفات کی اطلاع پاکر وفات کے چوتھے روز دہلی پہنچ گئے اور شیخ کی وصیت کے مطابق قاضی حمید الدین ناگوری کے ہاتھ سے شیخ کا خرقہ، عصا اور نعلین حاصل کیں اور اس طرح اپنے پیر کے جانشین بنے۔ کچھ دن وہاں قیام کرنے کے بعد ہانسی میں ایک مجذوب سرہنگا نامی کے اصرار پر پھر واپس چلے گئے۔ آخر اژدہام خلائق سے تنگ آکر اپنے آبائی گھر کھوتی وال پہنچے۔
لاہور سے وہ اجودھن چلے گئے۔ اور وہاں خانقاہ کی بنا ڈال کر صوفیۂ اسلام کے طریق پر دین اسلام کی تبلیغ ، اشاعت اور مریدوں اور عقیدت مندوں کی اخلاقی روحانی تربیت کرنے میں مصروف ہوگئے۔
شیخ فرید الدین مسعودؒ نے گنج شکر کے لقب سے شہرت پائی۔ اس بارے میں متعدد روایات کتب سیر میں مذکور ہیں جو شکر کے ساتھ ان کی رغبت اور اس سلسلے میں ان کی بعض کرامتوں کو بیان کرتی ہیں، (مثلاً تاریخ فرشتہ، بمبئی ۲: ۷۳۴، طبع لکھنو، ۲:۳۸۸)
شیخ فرید الدین گنج شکرؒکے اوقات تمام تر عبادت، مجاہدہ نفس و استغراق اور مریدوں کی روحانی تربیت میں گزرتے تھے۔ اس لیے جید عالم ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے پیر خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اوشی کے ملفوظات و ارشادات کو مرتب کرنے کے علاوہ اور کوئی کتاب تالیف نہیں کی۔ خود ان کے ارشادات و اقوال کا مجموعہ ان کے خلیفہ اور جانشین خواجہ نظام الدین اولیاءؒنے مرتب کیا جو راحۃ القلوب کے نام سے طبع ہوچکا ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد تبلیغ دین اور اصلاح اخلاق عوام کے لیے اپنے پیچھے چھوڑی۔ ان میں سے چند مشائخ کبار کی صف میں شمار ہوئے، مثلاً خواجہ نظام الدین اولیاء، شیخ علی احمد صابری، جمال الدین ہانسوی، وغیرہ (تفصیل کے لیے دیکھئے اقتباس الانوار، ص ۱۸۱)۔
تلخیص اردو دائرہ معارف اسلامیہ( ) لاہور پاکستان۔
حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی
حضرت شیخ احمد سرہندی ابن شیخ عبدالاحد فاروقی، کا نسب اٹھائیس واسطوں سے امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ وہ سرہند کے بزرگوں میں سے تھے، بلکہ برصغیر ہند، پاکستان کے لیے باعث فخر تھے، عالم ربانی مجدد الف ثانی علوم ظاہر و باطن میں فاضل تھے اور انسانی شرافت کے لیے روشن دلیل تھے۔ ۹۷۱ھ ۶۴۔۱۵۶۳ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں حفظ قرآن سے فراغت حاصل کرلی اور اس کے بعد علوم مروجہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اول اپنے والد ماجد سے بعض علوم حاصل کئے۔ پھر سیال کوٹ گئے اور مولانا کمال الدین کشمیری نزیل سیال کوٹ سے نہایت محققانہ انداز میں علم معقول کی کتابیں پڑھیں اور علم حدیث مولانا محمد یعقوب کشمیری سے حاصل کیا۔ پھر مولانا عبدالرحمن کی خدمت میں حدیث مسلسل بواسطہ واحد اور دیگر مفردات کی اجازت حاصل کی۔ مولانا عبدالرحمن ہندوستان کے نامور محدث تھے۔ (شیخ احمد سرہندی) سترہ سال کی عمر میں علوم ظاہری سے فراغت حاصل کرکے تدریس و تصنیف میں مشغول ہوگئے۔ سلسلہ چشتیہ میں اپنے والد ماجد سے خلافت پائی تھی اور سلسلۂ قادریہ وغیرہ کی اجازت شیخ سکندر کیتھلی سے ملی، حجاز جانے کے ارادہ سے دہلی پہونچے، وہاں حضرت خواجہ محمد باقی باللہ امکنکی سے ملاقات ہوئی، ان سے سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت کی، دو ماہ اور کچھ دن میں سلسلۂ نقشبندیہ میں ان کو نسبت حضوری حاصل ہوگئی۔ چنانچہ اسی زمانہ میں حضرت خواجہ باقی باللہ نے اپنے ایک مخلص سے فرمایا کہ ’’سرہند کے ایک شخص شیخ احمد نامی نے جو کثیر العلم اور قوی العمل ہے فقیر کے ساتھ کچھ دنوں نشست و برخاست رکھی ہے۔ اس کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا آفتاب ہوگا کہ دنیا اس سے روشن ہوجائے گی‘‘ اور اسی زمانہ میں ان کی شہرت ہوگئی۔ ان کا آستانہ اہل کمال اور صاحب حال حضرات کا مرکز بن گیا۔ دور و نزدیک کے علماء اور ترک و تاجیک کے امراء حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر بہرہ ور ہوتے اور مشائخ سلسلہ ارادت میں منسلک ہوجاتے ان کا سلسلہ ہند۔پاکستان سے ماوراء النہر، روم، شام اور مغرب تک پہنچا۔ ان کی ذات بابرکات خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی، ہزار سال سے علماء اور صوفیاء کے درمیان جو نزاع تھا وہ انہوں نے ختم کردیا اور صلہ کا جو حدیث میں مژدہ ہے اس کا مصداق ہوئے اس لیے کہ علمائے ظاہر اور صوفیاء کے درمیان اتحاد کا باعث ہوئے اور دونوں فریق میں مسئلہ وحدت وجود کے متعلق جو اختلاف تھا اس کو صرف لفظی قرار دیا، صبر و رضا، تسلیم و شفقت اور ارباب حقوق کے ساتھ صلۂ رحمی و رعایت، سلام میں سبقت اور گفتگو میں مخلوق کے ساتھ نرمی ان کی عادت کریمہ تھی اور ان سب باتوں کے باوجود ہزار فضائل سے مقدم کتاب و سنت کی پابندی تھی۔
علمائے ظاہر ین نے سلطان جہانگیر ابن اکبر شاہ سے شکایت کی کہ شیخ احمد دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا مقام صدیق اکبرؓ کے مقام سے بلند ہے۔ سلطان نے شیخ کو بلایا اور حقیقت حال پوچھی۔ شیخ نے جواب دیا کہ آپ کسی خدمت کے لیے اپنے کسی ادنیٰ خادم کو طلب فرمائیں اور از راہِ مہربانی اس سے کوئی پوشیدہ بات کہیں تو ضروری ہے کہ وہ ادنیٰ خادم امرائے عالی قدر کے مقام کو طے کرکے آپ تک پہنچے گا اور پھر وہ خادم واپس لوٹ کر اپنے مقام پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پس اس آمد و رفت سے یہ الزام نہیں آتا ہے کہ ادنیٰ خادم کا مرتبہ امرائے نامدار سے بلند ہوگیا، بادشاہ خاموش ہوگیا اور غصہ سے منہ پھیر لیا اسی وقت دربار شاہی کے حاضرین میں سے ایک شخص نے بادشاہ سے عرض کیا کہ شیخ کے گھمنڈ کو دیکھئے کہ آپ کو سجدہ نہیں کیا، حالانکہ آپ ظل اللہ اور اس کے خلیفہ ہیں بادشاہ کو جلال آگیا شیخ احمد سرہندی کو قلعہ گوالیار میں محبوس کردیا۔ جہانگیر کے بیٹے شاہجہاں نے جو شیخ سے خلوص رکھتا تھا ان کے دربار میں آنے سے پہلے افضل خاں اور خواجہ عبدالرحمن مفتی کو فقہ کی بعض کتابیں لے کر شیخ کے پاس بھیجا تھا اور پیغام دیا تھا کہ علماء نے بادشاہوں کے لیے سجدہ، تحیت جائز رکھا ہے ان (شیخ سرہندی) کو چاہیے کہ وہ ملاقات کے وقت بادشاہ کو سجدہ کریں میں ضامن ہوں کہ بادشاہ سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ شیخ نے اس کے جواب میں کہا کہ سجدہ کی اجازت بصورت مجبوری ہے اور عزیمت یہ ہے کہ سوائے خدائے بزرگ و برتر کے کسی کو سجدہ نہ کیا جائے۔ القصہ شیخ تین سال تک قید رہے اس کے بعد جہانگیر نے ان کو اس شرط کے ساتھ قید سے رہا کیا کہ وہ لشکر سلطانی کے ساتھ رہ کر گشت کریں۔ چنانچہ شیخ کچھ دنوں لشکر سلطانی کے ساتھ رہے اس کے بعد بادشاہ سے وطن کی اجازت لے کر سرہند میں رونق افروز ہوئے۔ ۲۸ صفر بروز سہ شنبہ ۱۰۳۴ھ ۱۶۲۴ء میں وصال ہوا اور سرہند میں دفن ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات ’’رفیع المراتب‘‘ سے نکلتی ہے۔ نوراللہ مضجعہ۔
آپ کی تصنیفات حسب ذیل ہیں
رسالہ تہلیلیہ، رسالۂ اثبات نبوت، رسالہ مبداء و معاد، رسالہ مکاشفاتِ غیبہ، رسالہ آداب المریدین، رسالہ معارف لدنیہ، رسالہ رد الشیعہ، تعلیقات العوارف، شرح رباعیات، خواجہ باقی باللہ، مکتوبات (امام ربانی) سہ جلد۔
ؒمجدد الف ثانی ؒ
حدیث شریف ’’ان اللہ یبعت لہٰذہ الامۃ علی راس کل مائۃ من یجددلھا امردینھا‘‘اللہ تعالیٰ اس اُمت میں ہر صدی کے شروع میں ایسے شخص کو بھیجتا ہے جو اس کے دین کی تجدید کردیتا ہے۔ سنن ابن داؤد وغیرہ۔ کتب معتبرہ میں مروی ہے اور اہل حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ ’’راس ماتہ‘‘ سے مراد آخر صدی ہے اور مجدد کی علامات و شرائط یہ ہیں کہ وہ علوم ظاہر و باطن کا عالم ہووے اور اس کے درس و تالیف و وعظ سے مخلوق کو فائدہ ہو اور سنت کے احیاء اور بدعت کے رد میں سرگرم رہے اور ایک صدی کے آخر میں اور دوسری صدی کے شروع میں علوم کا اشتہار اور فوائد دینیہ کی اشاعت ہووے پس مولانا شیخ احمد کے فضائل و اوصاف بلند آواز سے پکارتے ہیں کہ مجدد ہیں اور ایک صدی کے مجدد نہیں بلکہ ہزار سال کے۔ سو اور ہزار میں فرق ظاہر ہے۔ سرہند، دہلی اور لاہور کے درمیان شارع عام پر ایک شہر ہے جس کا ذکر حسان الہند (غلام علی آزاد بلگرامی) نے سبحۃ المرجان میں کیا ہے۔
( تذکرہ علمائے ہند ص ۸۸ تا ۹۰؍ مولوی رحمن علی، پاکستان ہٹساریکل سوسائٹی کراچی ۱۹۶۱ء )
محمد حبیب الدین صغیرؔ
محمد حبیب الدین صغیرؔ بائیس رجب ۱۳۰۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے تخلص صغیرؔ کے اعداد میں سن ولادت بھی موجود ہے۔ صغیر کے جد اعلیٰ محمد تاج الدین قاضی و خطیب قندھار کو سلطنت دہلی سے ’’قاضی القضاۃ لشکر فیروزی‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ ان کا سلسلہ نسب اور خاندانی حالات ’’تاریخ قندھار دکن‘‘ (مولفہ منشی محمد امیر حمزہ محتسب قندھار) اور ’’انوارالقندھار‘‘ (مولفہ شاہ رفیع الدین) میں تفصیل سے درج ہیں۔