اسلام
ضد
اپنی کسی بات پر اس طرح اڑ جانا کہ کوئی لاکھ سمجھائے مگر کسی کی بات اور سفارش قبول نہ کرے۔ اس بری خصلت کا نام ”ضد” ہے یہ اس قدر خراب اور منحوس عادت ہے کہ آدمی کی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر ڈالتی ہے ایسے آدمی کو دنیا میں سب لوگ ”ضدی ” اور ”ہٹ دھرم” کہنے لگتے ہیں۔ اور کوئی بھی اس کو منہ لگانے اور اس سے بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وہ خبیث عادت تھی جس نے ابو جہل کو جہنم میں دھکیل دیا کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور مومنوں نے اس کو لاکھوں مرتبہ سمجھایا اور اس نے شق القمر اور کنکریوں کے کلمہ پڑھنے کا معجزہ بھی دیکھ لیا مگر پھر بھی اپنی ضد پر اڑا رہا۔ اور ایمان نہ
لایا۔ قرآن وحدیث میں یہ حکم ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم ہے کہ اپنے بزرگوں اور مخلص دوستوں کا مشورہ ضرور مان لے اور مسلمانوں کی جائز سفارش کو قبول کرکے اپنی رائے اور اپنی بات کو چھوڑ دے اور حق ظاہر ہوجانے کے بعدہر گز ہرگز اپنی رائے اور اپنی بات پر ضد کرکے اڑا نہ رہے بہت سے آدمی خاص طور سے عورتیں اس بری عادت میں مبتلا ہیں۔ خدا کے لئے ان سب کو چاہے کہ اس بری عادت کو چھوڑ کر دونوں جہان کی سعادتوں سے سر فراز ہوں۔