اسلام

اعلان ایمان کرنے والی گوہ

    حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی سلیم کا ایک اعرابی ناگہاں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نورانی محفل کے پاس سے گزرا آپ اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔ یہ اعرابی جنگل سے ایک گوہ پکڑ کر لارہا تھا اعرابی نے آپ کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا کہ وہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ اﷲ کے نبی ہیں۔ اعرابی یہ سن کر آپ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے لات و عزیٰ کی قسم ہے کہ میں اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک میری یہ گوہ آپ کی نبوت پر ایمان نہ لائے، یہ کہہ کر اس نے گوہ کو آپ کے سامنے ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے گوہ کو پکارا تو اس نے ”لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ”اتنی بلند آواز سے کہا کہ تمام حاضرین نے سن لیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرا معبود کون ہے؟ گوہ نے جواب دیا کہ میرا معبود وہ ہے کہ اس کا عرش آسمان میں ہے اور اس کی بادشاہی زمین میں ہے اور اس کی رحمت جنت میں ہے اور اس کا عذاب جہنم میں ہے۔ پھر آپ صلی  اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بلند آواز سے کہا کہ آپ رب العالمین کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں جس نے آپ کو سچا مانا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے آپ کو جھٹلایا وہ نامراد ہو گیا۔ یہ منظر دیکھ کر اعرابی اس قدر متاثر ہو ا کہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں جس وقت آپ کے پاس آیا تھا تو میری نظر میں روئے زمین پر آپ سے زیادہ ناپسند کوئی آدمی نہیں تھا لیکن اس وقت میرا یہ حال ہے کہ آپ میرے نزدیک میری اولاد بلکہ میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کے لئے حمد ہے جس نے تجھ کو ایسے دین کی ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہو گا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص کی تعلیم دی ۔اعرابی قرآن کی ان دو سورتوں کو سن کر کہنے لگا کہ میں نے بڑے بڑے فصیح و بلیغ، طویل و مختصر ہر قسم کے کلاموں کو سنا ہے مگر خدا کی قسم! میں نے آج تک اس سے بڑھ کر اور اس سے بہتر کلام کبھی نہیں سنا۔ پھر آپ صلی  اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ یہ قبیلہ بنی سلیم کا ایک مفلس انسان ہے تم لوگ اس کی مالی امداد کر دو۔یہ سن کر بہت سے لوگوں نے اس کو بہت کچھ دیا یہاں تک کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو دس گابھن اونٹنیاں دیں۔ یہ اعرابی تمام مال و سامان کو ساتھ لے کر جب اپنے گھر کی طرف چلا تو راستے میں دیکھا کہ اس کی قوم بنی سلیم کے ایک ہزار سوار نیزہ اور تلوار لئے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ تم لوگ کہاں کے لئے اور کس ارادہ سے چلے ہو؟ سواروں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس شخص سے لڑنے کے لئے جا رہے ہیں جو یہ گمان کرتا ہے کہ وہ نبی ہے اور ہمارے دیوتاؤں کو برا بھلا کہتا ہے۔ یہ سن کر اعرابی نے بلند آواز سے کلمہ پڑھا اور اپنا سارا واقعہ ان سواروں سے بیان کیا۔ ان سواروں نے جب اعرابی کی زبان سے اس کا ایمان افروز بیان سنا تو سب نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ پڑھا ۔پھر سب کے سب بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تو حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس قدر تیزی کے ساتھ ان لوگوں کے استقبال کے لئے کھڑے ہوئے کہ آپ کی چادر آپ کے جسم اطہر سے گر پڑی اور یہ لوگ کلمہ پڑھتے ہوئے اپنی اپنی سواریوں سے اتر پڑے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم )آپ ہمیں جو حکم دیں گے ہم آپ کے ہر حکم کی فرمانبرداری کریں گے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جھنڈے کے نیچے جہاد کرتے رہو۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں بنی سلیم کے سوا کوئی قبیلہ بھی ایسا نہیں تھا جس کے ایک ہزار آدمی بہ یک وقت مسلمان ہوئے ہوں۔ اس حدیث کو طبرانی و بیہقی و حاکم و ابن عدی جیسے بڑے بڑے محدثین نے روایت کیا ہے۔(1)(زرقانی ج۵ ص۱۴۸ تا ص۱۴۹)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!