اسلام
انصار کی ایمانی شجاعت
محاصرہ کی وجہ سے مسلمانوں کی پریشانی دیکھ کر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
نے یہ خیال کیا کہ کہیں مہاجرین و انصار ہمت نہ ہار جائیں اس لئے آپ نے ارادہ فرمایا کہ قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ بن حصن سے اس شرط پر معاہدہ کر لیں کہ وہ مدینہ کی ایک تہائی پیداوار لے لیا کرے اور کفار مکہ کا ساتھ چھوڑ دے مگر جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے اپنا یہ خیال ظاہر فرمایاتو ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر اس بارے میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی اتر چکی ہے جب تو ہمیں اس سے انکار کی مجال ہی نہیں ہو سکتی اور اگر یہ ایک رائے ہے تو یا رسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) جب ہم کفر کی حالت میں تھے اس وقت تو قبیلہ غطفان کے سرکش کبھی ہماری ایک کھجور نہ لے سکے اور اب جب کہ اﷲ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو اسلام اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی غلامی کی عزت سے سرفراز فرما دیا ہے تو بھلا کیونکر ممکن ہے کہ ہم اپنا مال ان کافروں کو دے دیں گے؟ ہم ان کفار کو کھجوروں کا انبار نہیں بلکہ نیزوں اور تلواروں کی مار کا تحفہ دیتے رہیں گے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا،یہ سن کر حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خوش ہوگئے اورآپ کوپوراپورااطمینان ہو گیا۔(1)
(زرقانی ج۲ص۱۱۳)
خندق کی و جہ سے دست بدست لڑائی نہیں ہو سکتی تھی اور کفار حیران تھے کہ اس خندق کو کیونکر پار کریں مگر دونوں طرف سے روزانہ برابر تیر اور پتھر چلا کرتے تھے آخر ایک روز عمرو بن عبدودو عکرمہ بن ابو جہل وہبیرہ بن ابی وہب وضرار بن الخطاب وغیرہ کفار کے چند بہادروں نے بنو کنانہ سے کہا کہ اٹھوآج مسلمانوں سے جنگ
کرکے بتا دو کہ شہسوار کون ہے؟ چنانچہ یہ سب خندق کے پاس آ گئے اور ایک ایسی جگہ سے جہاں خندق کی چوڑائی کچھ کم تھی گھوڑا کودا کر خندق کو پار کر لیا۔(1)
1۔۔۔۔۔۔المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الخندق…الخ، ج۳،ص۴۲ملخصاً