اسلام
جلدی مَچانے والے کی دُعاء قبول نہیں ہوتی!
جلدی مَچانے والے کی دُعاء قبول نہیں ہوتی!
(دعاء کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ)دُعاء کے قَبول میں جلدی نہ کرے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ خُدائے تعالیٰ تین
آدمیوں کی دُعاء قَبول نہیں کرتا ۔ایک وہ کہ گُناہ کی دُعاء مانگے۔دوسرا وہ کہ ایسی بات چاہے کہ قَطْعِ رِحم ہو۔تیسرا وہ کہ قَبول میں جلدی کرے کہ میں نے دُعاء مانگی اب تک قَبول نہیں ہوئی۔ (الترغیب والترہیب ج۲ص۳۱۴حدیث۹)
اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ناجائز کام کی دُعاء نہ مانگی جائے کہ وہ قَبول نہیں ہوتی۔نیز کسی رِشتہ دار کا حق ضائع ہوتا ہوایسی دُعاء بھی نہ مانگیں اور دُعاء کی قَبولِیَّت کیلئے جلدی بھی نہ کریں ورنہ دُعاء قَبول نہیں کی جائے گی۔
اَحسَنُ الْوِعَاءِ لِاٰدابِ الدُّعاءِ پر اعلیٰ حضرت ،امامِ اَہلِسُنَّت ، مولیٰنا شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے حاشِیہ تحریر فرمایا ہے۔اور اس کا نام ذَیلُ الْمُدَّعا لِاَحسَن الْوِعاء رکھا ہے ۔اسی حاشیہ میں ایک مَقام پر دُعاء کی قَبولِیَّت میں جلدی مچانے والوں کو اپنے مخصُوص اور نِہایَت ہی عِلْمی انداز میں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
اَفسروں کے پاس تو بار بار دھکّے کھاتے ہو مگر۔۔۔۔
سَگانِ دُنیا(یعنی دُنْیوی اَفسروں) کے اُمِّیدواروں (یعنی اُن سے کام نِکلوانے کے آرزو مَندوں)کو دیکھا جاتا ہے کہ تین تین برس تک اُمِّیدواری (اور انتظار)میں گُزارتے ہیں ،صُبح وشام اُن کے دروازوں پر
دَوڑتے ہیں،(دَھکّے کھاتے ہیں)اور وہ (اَفسران)ہیں کہ رُخ نہیں مِلاتے ،جواب نہیں دیتے ،جِھڑَکْتے ،دِل تنگ ہوتے ،ناک بَھوں چَڑھاتے ہیں،اُمِّیدواری میں لگایا تَو بَیگار(بے کار محنت) سَرپرڈالی،یہ حضرت گِرِہ (یعنی اُمِّید وار جیب)سے کھاتے، گھر سے منگاتے ،بیکار بَیگار (فُضُول محنت) کی بَلاء اُٹھاتے ہیں ، اور وہاں( یعنی افسروں کے پاس دھکّے کھانے میں) برسَوں گُزریں ہُنُوز (یعنی ابھی تک گویا )روزِ اوّل (ہی) ہے۔مگر یہ( دنیوی افسروں کے پاس دھکّے کھانے والے ) نہ اُمّید تَوڑَیں ،نہ(افسروں کا ) پیچھا چَھوڑَیں۔اور اَحْکَمُ الْحَاکِمِین، اَکْرَمُ الْاکْرَمِیْن، عَزَّجَلَالُہٗکے دروازے پراَوّل تَو آتا ہی کون ہے! اور آئے بھی تَو اُکتاتے، گھبراتے، کل کا ہوتا آج ہوجائے،ایک ہفتہ کچھ پڑھتے گُزرا اور شِکایَت ہونے لگی،صاحِب !پڑھا تَو تھا،کچھ اَثَر نہ ہوا!یہ اَحمَق اپنے لئے اِجابَت (یعنی قَبولِیَّت )کا دروازہ خُود بند کرلیتے ہیں۔ مُحمَّدرَّسُوْ لُ اللہ ! صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:
یُسْتَجابُ لِاَحَدِکُمْ مَالَمْ یُعَجِّلْ یَقُوْلُ دَعَوْتُ فَلَمْ یَسْتَجِبْ لِی۔ (صحیحُ البخاری ج ۴ص۲۰۰حدیث ۶۳۴۰ )
ترجمہ:”تُمہاری دُعاء قَبول ہوتی ہے جب تک جلدی نہ کرو یہ مت کہوکہ میں نے دُعاء کی تِھی قَبول نہ ہوئی۔”
بَعض تَواِس پر ایسے جامَے سےباہَر(یعنی بے قابو ) ہوجاتے ہیں کہ اَعْمال واَدْعِیَّہ (یعنی اوراد اور دُعاؤں)کے اَثر سے بے اِعتِقاد ،بلکہ اللہ عزوجل کے وَعدئہ کرم سے بے اِعتِماد ،وَالْعِیَاذُ بِاللہِ الْکَرِیْمِ الْجَوَاد۔ایسوں سے کہاجائے کہ اَے بے حَیاء!بے شَرمو!!ذرا اپنے گَرِیبان میں مُنہ ڈالو۔اگر کوئی تُمہارا برابر والا دَوست تم سے ہزار بار کچھ کام اپنے کہے اور تُم اُس کا ایک کام نہ کرو تَو اپنا کام اُس سے کہتے ہوئے اَوّل تَو آپ لَجاؤ (شرماؤ)گے،(کہ) ہم نے تَو اُس کا کہنا کیا ہی نہیں اب کِس مُنہ سے اُس سے کام کو کہیں؟اور اگر غَرَض دِیوانی ہوتی ہے(یعنی مطلب پڑا تو) کہہ بھی دیا اور اُس نے (اگر تمہاراکام)نہ کیا تَو اصْلاً مَحَلِّ شِکایَت نہ جانو گے( یعنی اس بات پر شکایت کروگے ہی نہیں ظاہر ہے خود ہی سمجھتے ہو) کہ ہم نے (اُس کاکام ) کب کیا تھا جو وہ کرتا۔
اب جانچو،کہ تم مالِک عَلَی الْاِطْلَاق عَزَّجَلَالہ،کے کِتنے اَحکام بَجالاتے ہو؟ اُس کے حُکم بجا نہ لانا اور اپنی دَرخواست کا خواہی نَخَواہی (ہرصُورت میں) قَبول چاہنا کیسی بے حیائی ہے!
او اَحمَق! پھر فَرق دیکھ ! اپنے سَر سے پاؤں تک نَظَرِ غور کر! ایک ایک رُوئیں میں ہَروَقت ہر آن کتنی کتنی ہزاردَرْ ہزار دَرْ ہزار صَد ہزار بے شُمار
نِعمتیں ہیں۔ تُو سوتا ہے اور اُس کے مَعْصُوم بندے (یعنی فِرِشتے)تیری حِفاظت کو پَہرا دے رہے ہیں ،تُو گُناہ کررہا ہے اور (پھربھی) سَرسے پاؤں تک صِحّت و عافِیَّت،بَلاؤں سے حِفاظَت ،کھانے کا ہَضم ،فضلات ( یعنی جسم کے اندر کی گندگیوں) کا دَفع ،خُون کی رَوانی، اَعضاء میں طاقَت، آنکھوں میں روشنی ۔ بے حِساب کرم بے مانگے بے چاہے تُجھ پر اُتر رہے ہیں۔ پھر اگر تیری بَعض خواہِشیں عطا نہ ہوں،کِس مُنہ سے شِکایَت کرتا ہے ؟ تُو کیا جانے کہ تیرے لئے بَھلائی کا ہے میں ہے!تُو کیا جانے کیسی سَخْت بَلاآنے والی تھی کہ اِس (بظاہرنہ قَبول ہونے والی ) دُعاء نے دَفع کی ،تُو کیا جانے کہ اِس دُعاء کے عِوَض کیسا ثواب تیرے لئے ذَخِیرہ ہورہا ہے ،اُس کا وَعدہ سچّا ہے اور قَبول کی یہ تینوں صُورتیں ہیں جن میں ہر پہلی، پچھلی سے اَعلیٰ ہے۔ ہاں، بے اِعتِقادی آئی تَویقین جان کہ ماراگیااور اِبلیسِ لَعِین نے تجھے اپنا ساکر لیا۔ وَالْعِیَاذُ بِاللہِِ سُبْحٰنَہ، وَتَعَالیٰ۔ ( اور اللہ کی پناہ وہ پاک ہے اور عظمت والا)
اَے ذَلیل خاک!اے آبِ ناپاک!اپنا مُنہ دیکھ اور اِس عظیم شَرَف پر غور کر کہ اپنی بارگاہ میں حاضِر ہونے ،اپنا پاک، مُتَعَالی( یعنی بلند ) نام لینے، اپنی طرف مُنہ کرنے ،اپنے پُکارنے کی تجھے اجازت دیتا ہے۔لاکھوں مُرادیں اِس فَضْلِ عظیم پر نِثار۔
اوبے صَبرے !ذرابھیک مانگنا سِیکھ۔اِس آستانِ رَفیع کی خاک پر لَوٹ جا۔اور لِپٹا رہ اور ٹِکٹِکی بندھی رکھ کہ اب دیتے ہیں ،اب دیتے ہیں!بلکہ پُکارنے، اُس سے مُناجات کرنے کی لَذَّت میں ایسا ڈوب جا کہ اِرادہ ومُراد کچھ یاد نہ رہے ، یقین جان کہ اِس دروازے سے ہرگِز مَحروم نہ پِھر یگاکہ مَنْ دَقَّ بَابَ الْکَرِیْم اِنْفَتَحَ (جس نے کریم کے دروازے پر دستک دی تو وہ اس پر کُھل گیا ) وَبِا للہِ التَّوْفِیْقُ۔ (اور توفیق اللہ عزوجل کی طرف سے ہے) (ذَیلُ الْمُدَّعا لِاَحسَنِ الْوِعاء ص۳۴تا ۳۷)