اسلام

قضیہ شرطیہ منفصلہ کی تقسیمات

    اس کی دوطرح تقسیم کی جاتی ہے:
۱۔ مقدم اورتالی کی ذات کے اعتبار سے    ۲۔ صدق وکذب کے اعتبار سے
۱۔ ذات کے اعتبارسے قضیہ شرطیہ
منفصلہ کی تقسیم
ذات کے اعتبار سے اس کی دوقسمیں ہیں:     ۱۔ منفصلہ عنادیہ     ۲۔ منفصلہ اتفاقیہ
۱۔منفصلہ عنادیہ:
    وہ قضیہ منفصلہ جس کے مقدم اورتالی کی ذات ہی ان کے درمیان جدائی چاہتی ہو۔ جیسے ھٰذَا العَدَدُ اِمَّا زَوْجٌ أَوْفَرْدٌ (یہ عدد جفت ہے یاطاق )۔
وضاحت:
    اس قضیہ میں طاق وجفت ایسے مقدم اور تالی ہیں کہ ان کی ذات ہی جدائی چاہتی ہے کیونکہ کوئی بھی عدد دو حال سے خالی نہیں ہوتا یا تو وہ طاق ہوتاہے یا جفت اور ایک ہی وقت میں دونوں کا اکٹھے ہونا بھی نا ممکن ہے۔
۲۔منفصلہ اتفاقیہ:
    وہ قضیہ جس کے مقدم اور تالی میں جدائی ذاتی نہ ہو بلکہ اتفاقی ہو۔جیسے ھٰذَا الرَّجُلُ اِمَّا أَسْوَدُ أَوْکَاتِبٌ (یہ شخص یاتو کالا ہے یا کاتب ہے )۔
وضاحت:
    اس قضیہ میں اسود اورکاتب ایسے مقدم اورتالی ہیں کہ ان میں ذاتی لحاظ سے کوئی جدائی نہیں لیکن یہاں انفصال (جدائی ) اتفاقی ہے۔ کیونکہ ہوسکتاہے کوئی شخص کاتب بھی ہو اور کالا بھی ہو۔لہذایہ جدائی ذاتی نہیں اتفاقی ہے۔
۲۔صدق وکذب کے اعتبار سے قضیہ شرطیہ منفصلہ کی اقسام
صدق وکذب کے اعتبار سے قضیہ شرطیہ منفصلہ کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ حقیقیہ     ۲۔ مانعۃ الجمع        ۳۔ مانعۃ الخلو
قضیہ منفصلہ حقیقیہ:
    وہ قضیہ جس میں مقدم اور تالی کے درمیان منافات(جدائی) یا عدم منافات صدقا وکذبا دونوں اعتبار سے ہو ۔جیسے ھٰذَا العَدَدُ اِمَّا زَوْجٌ أَوْفَرْدٌ  ( یہ عددیا تو جفت ہے یاطاق)۔
وضاحت:
     صدقاکا معنی یہ ہے کہ مقدم اور تالی ایک شے میں بیک وقت جمع نہ ہوسکیں اور کذبا کا معنی یہ ہے کہ مقدم اور تالی ایک شے سے بیک وقت جدانہ ہوسکیں ۔ جیسے مذکورہ مثال میں طاق وجفت ایسے مقدم اور تالی ہیں کہ یہ دونوں ایک ساتھ کسی عدد میں نہ تو جمع ہوسکتے ہیں اورنہ ہی جداہوسکتے ہیں ،کیونکہ ہر عدد یاتوجفت ہوگا یاطاق، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی عدد نہ تو جفت اور نہ ہی طاق اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ کوئی عدد جفت بھی ہواورطاق بھی۔
۲۔ مانعۃ الجمع:
    وہ قضیہ جس میں مقدم اور تالی کے درمیان منافات(جدائی)یا عدم منافات صرف صدقا ہو۔یعنی مقدم اورتالی کسی ایک شی میں جمع نہ ہوسکتے ہوں ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ مقدم اورتالی میں سے کوئی بھی نہ پایاجائے۔ جیسے ذَالِکَ الْحَیَوَانُ اِمَّا شَاۃٌ أَوْ ظَبْیٌ  ( یہ جانور یا بکری ہے یاہرن ہے) ۔
وضاحت:
    اس مثال میں شاۃ (بکری )اورظبی (ہرن) ایسے مقدم اورتالی ہیں کہ یہ دونوں ایک شے میں جمع نہیں ہوسکتے یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی جانوربکری بھی ہواور ہرن بھی ہاں یہ ممکن ہے کہ وہ جانور نہ بکری ہو نہ ہرن بلکہ کوئی اورجانور ہو۔ جیسے شیر وغیرہ۔
۳۔مانعۃ الخلو:
    وہ قضیہ جس میں مقدم اور تالی کے درمیان جدائی یا عدم جدائی صرف کذبا ہو۔ یعنی یہ دونوں کسی شے سے ایک ساتھ جدانہ ہوسکتے ہو ں ہاں یہ ممکن ہے کہ دونوں ایک ساتھ جمع ہو جائیں۔ زَیْدٌ اِمَّا فِی الْمَاءِ أَوْلاَ یَغْرُقُ  (زید یاتو پانی میں ہوگا یا ڈوب نہیں رہا ہوگا)۔
وضاحت:
    اس مثال میں پانی میں ہونا اورنہ ڈوبنا ایسے مقدم اورتالی ہیں کہ یہ دونوں بیک وقت زید سے جد ا نہیں ہوسکتے یعنی ایسا نہیں ہوسکتاکہ زید پانی میں بھی نہ ہواور ڈوب بھی رہا ہو ہاں ان دونوں کاجمع ہونا ممکن ہے کہ زیدپانی میں بھی ہو اورڈوب نہ رہا ہو کیونکہ ہوسکتاہو وہ تیر رہاہو۔
٭٭٭٭٭
مشق
سوال نمبر1:۔قضیہ شرطیہ متصلہ اور اس کی اقسام مع امثلہ بیان کریں۔
سوال نمبر2:۔ علاقہ کی تعر یف اور اس کی اقسام کی وضاحت کریں۔
سوال نمبر3:۔قضیہ شرطیہ منفصلہ کی تعریف کریں نیز ذات اور صدق و کذب کے اعتبار سے اس کی اقسام لکھیں۔
سوال نمبر4:۔ مندرجہ ذیل قضایا کے بارے میں بتائیں کہ یہ قضیہ شرطیہ یا منفصلہ کی کونسی قسم ہے؟
زید شاعر ہے یا کاتب۔ خالد عالم ہے یا جاہل۔ اگر انسان جاندار ہے تو پتھر بے جان ہے۔
یہ عدد طاق ہے یا جفت۔ یہ شے انسان ہے یا پتھر۔ اگر سورج نکلے گا تو زمین روشن ہو گی۔
اگر زید اسلام قبول کر لے تو اس پر شراب حرام ہوجائے گی۔ایسا نہیں کہ زید اگر روزہ رکھ لے تو دودھ پینا اس کو جائز رہے۔ایسا نہیں کہ یہ انسان یا متقی ہے یا مسلمان۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!