اسلام

کیا حدیث میں بتایا ہوا علاج ہر ایک کر سکتا ہے؟

    احادیثِ مبارَکہ میں بیان کردہ علاج بھی اپنی مرضی سے نہیں کرنے چاہئیں۔ بے شک سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامِینِ والا شان حق، حق اور حق ہی ہیں۔ مگر جو علاج نبیوں کے سرتاج ،صاحِبِ معراج صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تجویز فرمائے ہیں ہو سکتا ہے وہ خاص خاص مَوقَعوں موسِموں کی مُناسِبتوں اور مخصوص لوگوں کے مزاجوں اور طبیعتوں کے مُوافِق ہوں جیسا کہ حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اِس حدیثِ پاک فِی الحَبَّۃِالسَّوداءِ شِفاءٌ مِّن کُلِّ داءٍ اِلَّاالسّامَ۔ یعنی کالا دانہ(کلونجی) میں موت کے سِوا ہر بیماری سے شِفاہے” کے تحت فرماتے ہیں:ہر مرض(میں شِفا)سے مُراد ہر بلغمی اور رطوبت کے اَمراض میں (شفا ہے)، کیونکہ کلونجی گرم اور خشک ہوتی ہے لہٰذا مَرطُوب(یعنی تَری والی)اور سردی کی بیماریوں میں مُفید ہو گی ۔آگے چل کر مزید فرماتے ہیں:یہاں مُراد عرب کی عام بیماریاں ہیں (مِرقات)یعنی کلونجی عرب کی عام بیماریوں میں مفید ہے۔ خیال رہے کہ احادیثِ شریفہ کی دوائیں کسی حاذِق طبیب(یعنی ماہرِطبیب ) کی رائے سے استِعمال کرنی چاہئیں (اہلِ عرب کو تجویز کردہ دوائیں )صِرف (اپنی)رائے سے استِعمال نہ کریں کہ ہمارے (طَبعی )مزاج اہلِ عرب کے(طَبعی )مزاج سے جُداگانہ ہیں۔
 (مراٰۃ ج 6 ص 216،217،ضیاء القراٰن پبلی کیشنزمرکز الاولیاء لاہور)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!