اسلام
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ بیک نظر
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ بیک نظر
مولانا حافظ وقاری محمد شبیر احمد نظامی یعقوبی‘ استاذ جامعہ نظامیہ حیدرآباد
اسم مبارک: محمد انوار اللہ
کنیت: ابو البرکات
خانوادہ: فاروقی
خطابات: خان بہادر‘ فضیلت جنگ
القاب: شیخ الاسلام، عارف باللہ
والد بزرگوار کا اسم گرامی: حضرت قاضی ابو محمد شجاع الدین فاروقیؒ
دادا کا اسم گرامی: حضرت قاضی سراج الدین فاروقیؒ
نانا کا اسم گرامی: حضرت قاضی محمد سعد اللہؒ
خسر محترم کا اسم گرامی: حضرت حاجی امیر الدین محتسب بنولہؒ
جد اعلیٰ: حضرت شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابلیؒ
سلسلہ نسب: انچالیسویں پشت میں خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے
ولادت باسعادت: ۴؍ربیع الثانی ۱۲۶۴ھ بمقام قندھار، ضلع ناندیڑ (مہاراشٹرا)
والد ماجد کی حیدرآباد آمد: ۱۲۸۱ھ
والد ماجد کی وفات حسرت آیات : ۱۲۸۸ھ میں ہوئی آپ حضرت شاہ شجاع الدین صاحبؒ برہان پوری کے مقبرہ میں مدفون ہیں۔
ابتدائی تعلیم: والد ماجد کے پاس حاصل فرمائی۔
حفظ قرآن کی ابتداء: سات سال میں ہوئی گیارہ (۱۱) سال کی عمر شریف میں مولانا حافظ امجد علی صاحبؒ کے ہاں حفظ قرآن مکمل فرمایا۔
اساتذہ کرام: حضرت ابو محمد شجاع الدین صاحبؒ۔ حضرت مولانا فیاض الدین صاحبؒ اورنگ آبادی۔ حضرت مولانا عبدالحلیم فرنگی محلیؒ۔ علامہ شیخ عبداللہ یمنیؒ نزیل حیدرآباد۔ مولانا حافظ امجد علی صاحبؒ۔ مولانا عبدالحی فرنگی محلیؒ۔
عقد سعید: ۱۲۸۲ھ میں حضرت حاجی محمد امیر الدین صاحبؒ کی صاحبزادی سے ہوا۔ حاجی امیر الدین صاحب کے صاحبزادے دو ہیں محی الدین۔ نظام الدین۔ صاحبزادیاں تین ہیں۔ انور بی (زوجہ شیخ الاسلام) صاحب بی۔ نجیبہ بیگم۔
ملازمت واستعفاء: ۱۲۸۵ھ محکمہ مالگزاری میں خلاصہ نویسی پر مامور ہوئے ڈیڑھ سال اس خدمت کو انجام دینے کے بعد ۱۲۸۷ھ میں مستعفی ہوئے استعفی کا واقعہ مطلع الانوار ص ۱۴ پر ملاحظہ فرمائیں۔
تاسیس جامعہ نظامیہ: دو شنبہ ۱۹ذو الحجہ ۱۲۹۲ھ
زیارت حرمین شریفین: پہلا سفر مبارک ۱۲۹۴ھ اس سفر مبارک میں آپ نے شیخ الوقت فانی فی اللہ باقی باللہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور بلا طلب خرقہ خلافت سے نوازے گئے۔
آصف جاہ سادس کی تعلیم پرتقرر: ۱۲۹۵ھ
دوسرا سفر حجاز مقدس: ۱۳۰۱ھ ۔اہلیہ محترمہ کا انتقال ۲۶؍رمضان المبارک ۱۳۰۴ھ حیدرآباد دکن میں ہوا جس کے بعد تمام عمر شریف عالم تجرد میں بسر فرمائی۔
تیسرا سفر حجاز مقدس:
چوتھا سفر حج وزیارت : ۱۳۰۵ھ اس سفر میں حضرت شیخ الاسلام نے قلمی نوادر کنز العمال (۸جلد) جامع مسانید امام اعظمؒ‘ الجوہر النقی علی سنن البیہقی اور احادیث قدسیہ کو ہزاروں روپئے ذاتی صرف فرماکر نقل کروائے۔قیام مدینہ منورہ کے درمیان آپ کی ہمشیرہ کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا پھر ۶؍شوال ۱۳۰۷ھ کو آپ کے فرزند عبدالقدوس کا انتقال ہوا۔
۱۳۰۸ھ چوتھے حج کے بعد حیدرآباد واپس ہوئے ۔
مدت تعلیم آصف جاہ سابع : اعلی حضرت نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی تعلیم کی مدت ۱۳۰۸ھ تا ۱۳۲۹ھ (۲۱سال )
سفر بغدداد ومقامات مقدسہ : ۱۳۱۴ھ
آصف جاہ سابع کے فرزندوں کی تدریسی مدت: چار سال ۱۳۳۱ھ تا ۱۳۳۵ھ
وفات حسرت آیات: ۲۹؍جمادی الاولی ۱۳۳۶ھ م ۱۹۱۷ء
نماز جنازہ: تاریخی مکہ مسجد میں پڑھائی گئی
تدفین: دکن کی مشہور درسگاہ جامعہ نظامیہ کے وسیع وعریض صحن میںہوئی۔
اولاد: دو لڑکے تین لڑکیاں جن کے اسماء حسب ذیل ہیں:۔ (۱)عبدالجلیل پیدائش جمادی الثانی ۱۲۹۲ھ وفات رمضان المبارک ۱۲۹۵ھ (۲)عبدالقدوس پیدائش صفر ۱۲۹۷ھ وفات شوال ۱۳۰۷ھ (۳)وجہ النساء پیدائش ربیع الاول ۱۲۸۵ھ وفات ۱۳۴۲ھ (۴)فرید النساء پیدائش محرم ۱۲۹۱ھ کم سنی میں فوت ہوئیں (۵)رحمت النساء پیدائش ذی الحجہ ۱۳۰۱ھ وفات شعبان ۱۳۳۲ھ۔
حلیہ مبارکہ: رنگ ہلکا سرخ وسفید‘ چہرہ کتابی‘ آنکھیں بڑی بڑی اور داڑھی گھنی‘ قد بالا‘ سینہ کشادہ اور جسم دوہرہ ورزشی اور مضبوط تھا وصال کے وقت اکثر بال سفید ہوگئے تھے۔
تصانیف: انوار احمدی‘ مقاصد الاسلام (گیارہ حصے) حقیقۃ الفقہ (دو حصے) بشری الکرام‘ الکلام المرفوع‘ افادۃ الافہام (دو حصے) انوار التمجید‘ شمیم الانوار (حمدیہ ،نعتیہ وصوفیانہ کلام) انوار الحق‘ کتاب العقل‘ خدا کی قدرت‘ انوار اللہ الودود، مسئلۃ الربوا‘ منظوم مسدس میلاد النبی۔
مخطوطات: مجموعہ منتخبہ من کتب الصحاح(حدیث عربی)‘ انتخابات فتوحات مکیہ
حواشی: فتوحات مکیہ‘ مسلم الثبوت‘ فصوص الحکم‘ پر آپ نے حاشئیے تحریر کئے ہیں۔
باقیات صالحات: جامعہ نظامیہ‘ دائرۃ المعارف العثمانیہ‘ کتب خانہ آصفیہ‘ (اسٹیٹ سنٹرل لائبرری) مجلس اشاعت العلوم‘ امداد المعارف‘ مدرسہ شاہی مکہ مسجد‘ دارالعلوم معینیہ اجمیر شریف۔
حضرت کے ملکی ہمعصر ادیب: حضرت حسن الزماں الفاطمی‘ عزیز جنگ ولاؔ‘ عبدالحلیم شررؔ‘ مولانا وحید الزماں‘ حضرت سید محمد علی حسین اشرفی میاں‘ حضرت مولانا احمد رضا خاں رضا ؔ‘ عماد الملک بلگرامی‘ محسن الملک‘ مولانا فراہی‘ عبدالجبار خان صوفی‘ محمد حسین آزاد‘ نذیر احمد‘ مانک راؤ وٹھل راؤ‘ شبلی نعمانی‘ سرسید احمد خان‘۔
عالمی معاصرین: حضرت یوسف بن اسماعیل نبھانیؒ (فلسطین) جرجی زیدان (بیروت) جمال الدین افغانی (مصر) علامہ شیخ احمد عمر بن محمد صاحب نفحۃ الیمن(مصر) حضرت وارث علی شاہ‘ حضرت مہر علی شاہ (پاکستان) علامہ شہاب الدین آلوسی (صاحب تفسیر روح المعانی) ۔
چند مشہور تلامذہ: محدث دکن حضرت سیدعبداللہ شاہ نقشبندی‘ حضرت مفتی سید احمد علی قادری صوفی‘ حضرت مفتی محمد رکن الدین ‘ حضرت سید ابراہیم ادیب رضوی‘ نواب میر محبوب علی خان‘ نواب میر عثمان علی خان ‘ حضرت مظفر الدین معلیؔ‘ حضرت مفتی محمد رحیم الدین رحمہم اللہ تعالیٰ۔
وہ باطل نظریات جن کا آپ نے رد فرمایا: وہابیہ‘ شیعہ‘ قادیانیت‘ غیر مقلدیت‘ قدریہ‘ معتزلہ‘ جبریہ‘ اور اہل قرآن۔