اسلام
خلافت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
خلافت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بکثرت آیات واحادیث آپ کی خلافت کی طرف مشیر ہیں۔ ترمذی وحاکم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
جولوگ میرے بعد ہیں، ابوبکر و عمر، ان کا اتباع کرو۔(1)
ابن عسا کرنے ابن عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ ایک عورت حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ کچھ دریافت کرتی تھی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا :پھر آئے گی۔ عرض کی: اگر میں پھرحاضر ہوں اور حضورکو نہ پاؤ ں یعنی اس وقت حضورپردہ فرما چکیں۔ اس پر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو آئے او ر مجھے نہ پائے تو ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوجانا کیونکہ میرے بعد وہی میرے خلیفہ ہیں۔ (2)
بخاری ومسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام مریض ہوئے اور مرض نے غلبہ کیا تو فرمایا کہ ابوبکر کو حکم کروکہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا: یارسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم وہ نرم دل آدمی ہیں آپ کی جگہ کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھاسکیں گے۔ فرمایا:حکم دو ابوبکر کو کہ نماز پڑھائیں۔حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پھر وہی عذر پیش کیا۔ حضور نے پھر یہی حکم بتاکید فرمایا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارک میں نماز پڑھائی۔ یہ حدیث متواتر ہے۔حضرت عائشہ و ابن مسعود و ابن عباس وابن عُمر و عبداللہ بن زمعہ وابو سعید وعلی بن ابی طالب و حفصہ وغیرہم سے مروی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس پربہت واضح دلالت
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مطلقاً تمام صحابہ سے افضل اور خلافت و امامت کے لئے سب سے احق واولیٰ ہیں۔(1)
اشعری کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امامت کاحکم دیاجب کہ انصار ومہاجرین حاضر تھے ۔اور حدیث میں ہے کہ قوم کی امامت وہ کرے جو سب میں اَقْرَء ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ میں سب سے اقرء اور قرآن کریم کے سب سے بڑے عالم تھے۔ اسی لئے صحابہ کرام نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اَحَقْ بِالْخِلَافَہ ہونے کااستدلال کیاہے۔ ان استدلال کرنے والوں میں سے حضرت عمر اور حضرت علی بھی ہیں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ ایک جماعت علماء نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت آیات قرآنیہ سے مُسْتَنْبَطْ کی ہے۔(2) وَقَدْ ذَکَرَھَا الشَّیْخُ جَلاَلُ الدِّیْن اَلسُّیُوْطِیُّ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فِیْ تَارِیْخِہٖ۔
علاوہ بریں اس خلافتِ راشدہ پر جمیع صحابہ اور تمام امت کا اجماع ہے۔ لہٰذا اس خلافت کا منکر شرع کا مخالف اور گمراہ بددین ہے۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ خلافت مسلمانوں کے لئے ظِلِّ رحمت ثابت ہوا اور دین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلمکو جو خطرات عظیمہ اور ہولناک اندیشے پیش آگئے تھے وہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے صائب، تدبیر صحیح اور کامل دینداری و زبردست اتباع سنت کی برکت سے دفع
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ہوئے اور اسلام کو وہ استحکام حاصل ہوا کہ کفار و منافقین لرزنے لگے اور ضعیف الایمان لوگ پختہ مومن بن گئے آپ کی خلافت راشدہ کا عہدا گر چہ بہت تھوڑا اور زمانہ نہایت قلیل ہے لیکن اس سے اسلام کو ایسی عظیم الشان تائیدیں اور قوتیں حاصل ہوئیں کہ کسی زبردست حکومت کے طویل زمانہ کو اس سے کچھ نسبت نہیں ہوسکتی۔
آپ کے عہد مبارک کے چند اہم واقعات یہ ہیں کہ آ پ نے جیشِ اسامہ کی تَنْفِیْذکی جس کو حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے عہد مبارک کے آخر میں شام کی طرف روانہ فرمایاتھا۔ ابھی یہ لشکر تھوڑی ہی دو ر پہنچا تھا اور مدینہ طیبہ کے قریب مقامِ ذی خُشُب ہی میں تھا کہ حضور اقدس علیہ الصلوٰ ۃ و السلام نے اس عالم سے پردہ فرمایا ۔یہ خبر سن کر اطرافِ مدینہ کے عرب اسلام سے پھر گئے اور مرتد ہوگئے۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مجتمع ہو کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر زوردیا کہ آپ اس لشکر کو واپس بلالیں۔ اس وقت اس لشکر کاروانہ کرنا کسی طرح مَصْلَحَتْ نہیں،مدینہ کے گِرْد تو عرب کے طوائف کثیرہ مرتد ہوگئے اور لشکر شام کو بھیج دیا جائے۔ اسلام کے لئے یہ نازک ترین وقت تھا، حضور اقد س علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے کفار کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور ان کی مردہ ہمتوں میں جان پڑگئی تھی، منافقین سمجھتے تھے کہ اب کھیل کھیلنے کا وقت آگیا۔ ضعیفُ الایمان دین سے پھر گئے۔ مسلمان ایک ایسے صدمے میں شکستہ دل اور بے تاب وتواں ہور ہے ہیں جس کا مثل دنیا کی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا۔ان کے دل گھائل ہیں اور آنکھوں سے اشک جاری ہیں، کھانا پینا برا معلوم ہوتا ہےزندگی ایک ناگوار مصیبت نظرا ۤتی ہے۔ اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانشین کو نظم قائم کرنا، دین کا سنبھالنا ، مسلمانوں کی حفاظت کرنا، ارتداد کے سیلاب کو روکنا کس قدر دشوار تھا۔ باوجود اس کے
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روانہ کئے ہوئے لشکر کو واپس کرنا اور مرضئ مبارکہ کے خلاف جرأت کرنا صدیق سراپا صدق کا رابطہ نیا ز مندی گوارانہ کرتاتھا اور اس کو وہ ہر مشکل سے سخت ترسمجھتے تھے۔اس پر صحابہ کا اصرار کہ لشکر واپس بلالیاجائے اور خود حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لوٹ آنا اورحضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کرنا کہ قبائل عر ب آمادۂ جنگ اور درپے تخریب ِاسلام ہیں اور کار آزمابہادر میرے لشکر میں ہیں انھیں اس وقت روم پر بھیجنا اور ملک کوایسے دلاور مردانِ جنگ سے خالی کرلینا کسی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا۔یہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے اور مشکلات تھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اعتراف کیا ہے کہ اس وقت اگرحضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ دوسرا ہوتا تو ہرگز مستقل نہ رہتا اور مصائب وافکار کا یہ ہجوم اور اپنی جماعت کی پریشان حالت مبہوت کر ڈالتی مگر اللہ اکبر حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پائے ثبات کوذَرَّہْ بھر لغزش نہ ہوئی اور ان کے استقلال میں ایک شمّہ فرق نہ آ یا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر پرند میری بوٹیاں نوچ کھائیں تومجھے یہ گوارا ہے مگر حضور انور سیّدعالَم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مرضئ مبارک میں اپنی رائے کودخل دینا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روانہ کئے ہوئے لشکر کو واپس کرنا ہرگز گوارا نہیں۔یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ایسی حالت میں آپ نے لشکر روانہ فرمادیا۔
اس سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیرت انگیز شجاعت و لیاقت اور کمالِ دلیری و جوانمردی کے علاوہ ان کے توَكّلِ صادق کا پتہ چلتا ہے اور دشمن بھی انصافاً یہ کہنے پر مجبور ہوتاہے کہ قدرت نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعدخلافت و جانشینی کی اعلیٰ قابلیت و اہلیت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمائی تھی۔اب یہ لشکر روانہ ہوا اور جو قبائل مرتد ہونے کے لیے تیار تھے اور یہ سمجھ چکے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کے
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بعد اسلام کا شیرازہ ضرور درہم برہم ہوجائے گا اور اس کی سَطْوَت وشوکت باقی نہ رہے گی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ لشکر اسلام رومیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوگیا اسی وقت ان کے خیالی منصوبے غلط ہوگئے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ سید عالم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے عہد مبارک میں اسلام کے لیے ایسا زبردست نظم فرمادیا ہے جس سے مسلمانوں کا شِیْرَازَہ درہم برہم نہیں ہوسکتا اور وہ ایسے غم و اَنْدُ وْہ کے وقت میں بھی اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے سامنے اقوام عالم کو سَرْنِگُوْں کرنے کے لیے ایک مشہور و زبردست قوم پر فوج کَشی کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ اسلام مٹ جائے گا اور اس میں کوئی قوت باقی نہ رہے گی بلکہ ابھی صبر کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ یہ لشکر کس شان سے واپس ہوتاہے۔ فضلِ الٰہی سے یہ لشکرِ ظفر پیکر فتحیاب ہوا، رومیوں کو ہزیمت ہوئی۔
جب یہ فاتح لشکر واپس آیا وہ تمام قبائل جو مرتد ہونے کا ارادہ کرچکے تھے اس ناپاک قصد سے باز آئے اور اسلام پر صدق کے ساتھ قائم ہوئے۔ بڑے بڑے جلیل القدر صائب الرائے صحابہ علیہم الرضوان جو اس لشکر کی روانگی کے وقت نہایت شدت سے اختلاف فرمارہے تھے اپنی فکر کی خطا اور صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے مبارک کے صائب اور ان کے علم کی وسعت کے معترِف ہوئے۔(1)
اسی خلافت مبارکہ کا ایک اہم واقعہ مانعینِ زکوٰۃ کے ساتھ عَزْمِ قِتال ہے جس کا مختصر حال یہ ہے جب حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر مدینہ طیبہ کے حوالی و ا طراف میں مشہو ر ہوئی تو عرب کے بہت گروہ مرتد ہوگئے اور انہوں
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے قتال کرنے کے لئے اٹھے، امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے وقت کی نزاکت ،اسلام کی نو عمری ،دشمنوں کی قوت، مسلمانوں کی پریشانی،پَراگَنْدَہ خاطِری کا لحاظ فرماکر مشورہ دیا کہ اس وقت جنگ کے لئے ہتھیار نہ اٹھائے جائیں مگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ارادہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور آپ نے فرمایا کہ قسم بخدا! جو لوگ زمانہ اقدس میں ایک تسمہ کی قدر بھی ادا کرتے تھے اگر آج انکار کریں گے تو میں ضرور ان سے قتال کروں گا۔ آخر کار آپ قتال کے لئے اٹھے اور مہاجرین و انصار کو ساتھ لیا اور اعراب اپنی ذریتوں کولے کر بھاگے۔ پھر آپ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر لشکر بنایا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں فتح دی اور صحابہ نے خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحتِ تدبیر اور اِصابتِ رائے کا اعتراف کیااور کہا :خداکی قسم! اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ کھول دیا جو انہوں نے کیا حق تھا۔(1)
اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اگر اس وقت کمزوری دکھائی جاتی تو ہر قوم اور ہر قبیلہ کو احکامِ اسلام کی بے حرمتی اور ان کی مُخالَفَت کی جرأٔت ہوتی اور دینِ حق کا نظم باقی نہ رہتا۔ یہاں سے مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے کہ ہر حالت میں حق کی حمایت اور ناحق کی مخالفت ضروری ہے اور جو قوم ناحق کی مخالفت میں سستی کرے گی جلد تباہ ہوجائے گی۔ آج کل کے سادہ لوح فرقِ باطلہ کے رد کرنے کو بھی منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس
وقت آپس کی جنگ موقوف کرو۔ انھیں حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس طریق عمل سے سبق لینا چاہیے کہ آ پ نے ایسے نازک وقت میں بھی باطل کی سرشِکَنی میں توقف نہ فرمایا۔ جو فرقے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ان سے غفلت کرنا یقیناً اسلام کی نقصان رسانی ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
پھر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ لشکر لے کریمامہ کی طرف مسیلمہ کذاب کے قتال کے لئے روانہ ہوئے۔ دونوں طرف سے لشکر مقابل ہوئے ، چند روزجنگ رہی۔ آخِرُ الا َمْر مسیلمہ کذاب ، وحشی (قاتل حضرت امیر حمزہ) کے ہاتھ سے مارا گیا۔ مسیلمہ کی عمر قتل کے وقت ڈیڑھ سو برس کی تھی۔ 12ھ میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علا ابن حضرمی کو بحرین کی طرف روانہ کیا۔ وہاں کے لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ جُواثيٰ میں ان سے مقابلہ ہوا اور بکرمہ تعالیٰ مسلمان فتح یاب ہوئے۔ عمان میں بھی لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ وہاں عکرمہ ابن ابی جہل کو روانہ فرمایا۔ نجیر کے مرتد ین پر مہاجربن ابی امیہ کو بھیجا۔ مرتدین کی ایک اور جماعت پر زیاد بن لبید انصاری کو روانہ کیا اسی سال مرتدین کے قتال سے فارغ ہوکر حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرزمین بصرہ کی طرف روانہ کیا۔ ا ۤپ نے اہل ابلہ پر جہاد کیا اور ابلہ فتح ہوا اور کسریٰ کے شہر جو عراق میں تھے فتح ہوئے۔ اس کے بعد آ پ نے عمر وبن عاص اور اسلامی لشکروں کو شام کی طرف بھیجا اور جمادی الاولیٰ13ھمیں واقعہ اجنادین پیش آیا او ر بفضلہٖ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اسی سال واقعہ مرج الصفرہوا اور مشرکین کو ہزیمت ہوئی۔(1)
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے تھوڑ ے سے زمانہ میں شب و روز کی پیہم سعی سے بدخواہان اسلام کے حو صلے پست کردئیے اور ارتداد کاسیلاب روک دیا۔ کفار کے قلوب میں اسلام کا وقار راسخ ہوگیا اور مسلمانوں کی شوکت و اقبال کے پھریرے عرب و عجم بحروبر میں اڑنے لگے۔
آپ قرآن کریم کے پہلے جامع ہیں اور آپ کے عہد مبارک کا زرین کارنامہ ہے کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جہادوں میں وہ صحابہ کرام جو حافظِ قرآن تھے شہید ہونے لگے تو آپ کو اندیشہ ہوا کہ اگر تھوڑے زمانہ بعد حفاظ باقی نہ رہے تو قرآن پاک مسلمانوں کو کہا ں سے میسر آئے گا۔ یہ خیال فرماکر آپ نے صحابہ کوجمعِ قرآن کا حکم دیا اور مصاحف مرتب ہوئے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
1۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم،احادیث فضائل الشیخین،
الحدیث:۴۵۱۱،ج۴،ص۲۳
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث والآیات
المشیرۃ الی خلافتہ…الخ،ص۴۷
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب اہل العلم والفضل…الخ، الحدیث:۶۷۸،
ج۱،ص۲۴۲و تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث
والآیات المشیرۃ الی خلافتہ…الخ، ص۴۷،۴۸ملتقطاً
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ،فصل فی الاحادیث والآیات
المشیرۃ الی خلافتہ…الخ،ص۴۸-۴۹
1۔۔۔۔۔۔الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،القسم الثانی،الباب الاول فی مناقب خلیفۃ رسول
اﷲ ابی بکر الصدیق…الخ، الفصل التاسع فی خصائصہ، ذکر شدۃ باسہ وثبات
قلبہ…الخ،ج۱، الجزء۱،ص۱۴۸،۱۴۹ملخصاً
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی ما وقع فی خلافتہ،
ص۵۶۔۵۷ملخصاً
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، فصل فی ما وقع فی خلافتہ،
ص۵۸ ملخصاً