اسلام
ضلال کے معنی اور انکی پہچان
الف: جب ”ضلال” کی نسبت غیرنبی کی طرف ہو تواس کے معنی گمراہ ہوں گے۔
ب:جب ”ضلال” کی نسبت نبی کی طر ف ہو تو اس کے معنی وار فتہ محبت یا راہ سے ناواقف ہوں گے ۔
” الف” کی مثال یہ ہے :
(1) مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَاہَادِیَ لَہٗ
جسے خدا گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ۔(پ9،الاعراف:186)
(2) غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآ لِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
ان کا راستہ نہ چلا جن پر غضب ہو انہ گمراہوں کا ۔(پ1،الفاتحۃ:7)
(3) وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ﴿٪۱۷﴾
جسے رب گمراہ کردے تم اس کیلئے ہادی رہبر نہ پاؤ گے ۔(پ15،الکھف:17)
ان جیسی تمام آیتو ں میں چونکہ ضلال کا تعلق نبی سے نہیں غیر نبی سے ہے تو اس کے معنی ہیں گمراہی خواہ کفر ہو یا شرک یا کوئی اور گمراہی سب اس میں داخل ہوں گے ۔
”ب”کی مثالیں :
(1) وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾
اے محبوب رب نے تمہیں اپنی محبت میں وارفتہ پایا تو اپنی راہ دے دی ۔(پ30،الضحی:7)
(2) قَالُوۡا تَاللہِ اِنَّکَ لَفِیۡ ضَلٰلِکَ الْقَدِیۡمِ ﴿۹۵﴾
وہ فرزندان یعقوب بولے کہ خدا کی قسم تم تو اپنی پرانی خودر فتگی میں ہو۔(پ13،یوسف:95)
(3) قَالَ فَعَلْتُہَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾
فرمایا موسیٰ نے کہ میں نے قبطی کو مارنے کا کام جب کیا تھا جب مجھے راہ کی خبر نہ تھی۔(پ19،الشعرآء:20)
یعنی نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے قبطی مرجائے گا ۔ان جیسی تمام آیتو ں میں ”ضلال” کے معنی گمراہی نہیں ہوسکتے کیونکہ نبی ایک آن کے لئے گمراہ نہیں ہوتے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(1) مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی ۚ﴿۲﴾
تمہارے صاحب محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نہ بہکے نہ بے راہ چلے ۔(پ27،النجم:2)
(2)لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّلٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۱﴾
حضر ت شعیب نے فرمایا کہ مجھ میں گمراہی نہیں لیکن میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں ۔(پ8،الاعراف:61)
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ نبی گمراہ نہیں ہوسکتے۔ آیت ۲ میں”لکن” بتارہا ہے کہ نبوت اور گمراہی جمع نہیں ہوسکتی ۔