اسلام
زکوٰۃ دینے میں شک ہوتو؟
اگرشک ہو کہ زکوٰۃ ادا کی تھی یانہیں ؟توایسی صورت میں زکوٰۃ ادا کرے ۔
(ردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ ،مطلب فی زکوٰۃ …الخ،ج۳،ص۲۲۸ )
لاعلمی میں کم زکوٰۃ دینا
اگر لاعلمی کی بنا پر زکوٰۃ کم ادا کی تو جتنی زکوٰۃ دی وہ ادا ہوگئی کیونکہ ادائے زکوٰۃ میں نیت ضرور شرط ہے لیکن مقدارِ زکوٰۃ کا صحیح معلوم ہونا شرط نہیں ۔مگرایسا شخص گنہگار ہوگاکیونکہ زکوٰۃکی ادائیگی میں تاخیر گناہ ہے ،ایسے شخص کو چاہے کہ توبہ کرے اور حساب لگا کر بقیہ زکوٰۃ ادا کرے ۔(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ،ج۱۰، ص۱۲۶)
زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے وکیل بنانا
زکوٰۃکی ادائیگی کے لیے کسی کووکیل بنانا جائز ہے ۔
(ماخوذ ازردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ ،مطلب فی زکوٰۃ …الخ،ج۳،ص۲۲۴ )
وکیل کو زکوٰۃ کا علم ہونا
وکیل کو زکوٰۃ کے بارے میں بتاناضروری نہیں، اگر دل میں زکوٰۃ کی نیت ہے اور وکیل کو کہا کہ یہ نفلی صدقہ وخیرات ہے یا عیدی ہے یا قرض ہے فلاں کو دے
دو،تو بھی وکالت درست ہے۔ لیکن بتادینا بہتر ہے تاکہ وہ ادائیگی کی شرائط کا خیال رکھ سکے ۔
(ماخوذ ازردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ ،مطلب فی زکوٰۃ …الخ،ج۳،ص۲۲۳ )
کیا وکیل بھی زکوٰۃ کی نیت کرے؟
اگر وکیل کو مالک (یعنی مؤکل )نے زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت سے مال دیا تو وکیل کو دوبارہ نیت کرنے کی حاجت نہیں کیونکہ اصل یعنی مالک کی نیت موجود ہے ۔
(الدرالمختار،کتاب الزکوٰۃ ،مطلب فی زکوٰۃ …الخ،ج۳،ص۲۲۲ ملخصاً)
نفلی صدقہ کے لئے وکیل بنانے کے بعد زکوٰۃ کی نیت کرنا
وکیل کو دیتے وقت کہا نفل صدقہ یا کفارہ ہے مگر اس سے پہلے کہ وکیل فقیروں کو دے، اُس نے زکوٰۃ کی نیّت کر لی تو زکوٰۃہی ہے، اگرچہ وکیل نے نفل یا کفارہ کی نیّت سے فقیر کو دیا ہو۔
(الدرالمختار وردالمحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفائ، ج۳، ص۲۲۳)
مختلف لوگوں کی زکوٰۃ ملانا
اگر دینے والوں نے ملانے کی صراحۃً اِجازت دی تھی یا اس پر عرف جاری ہو اورمؤکل اس عرف سے واقف ہو تووکیل مختلف لوگوں کی زکوٰۃ کو آپس میں ملاسکتا ہے ورنہ نہیں ۔
(الدرالمختار،کتاب الزکوٰۃ ،مطلب فی زکوٰۃ …الخ،ج۳،ص۲۲۳ ملخصاً)
وکیل کا کسی کو وکیل بنانا
وکیل مزید کسی کو وکیل بناسکتاہے۔(المرجع السابق،ص۲۲۴)
کیا وکیل کسی کوبھی زکوٰۃ دے سکتا ہے؟
اگر دینے والوں نے مطلقاً اجازت دی ہو کہ جس مصرفِ زکوٰۃ میں چاہو صرف کرو تو جس میں چاہے صرف کرے اور اگر دینے والوں نے کسی معیَّن مصرف میں خرچ کرنے کا کہا ہوتو وہیں صرف کرنا پڑے گا ۔فتاوی شامی میں ہے :”جب زکوٰۃ دینے والے نے یہ کہا ہو کہ فلاں پر زکوٰۃ کی رقم صرف کرو تو وکیل کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور پر زکوٰۃ کی رقم صرف کرے ۔”(المرجع السابق)
کیا وکیل خود زکوٰۃ رکھ سکتا ہے؟
جب دینے والوں نے مطلقاً اجازت دی ہو کہ جہاں چاہو صرف کرو تو مستحق ِ زکوٰۃ ہونے کی صورت میں وکیل خود زکوٰۃ رکھ سکتا ہے ورنہ نہیں۔در مختار میں ہے :”وکیل کو جائز ہے کہ اپنے فقیر بیٹے یا بیوی کو زکوٰۃ دے دے مگر خود نہیں لے سکتا ، ہاں!اگر دینے والے نے یہ کہا ہو کہ جہاں چاہو مصرف ِ زکوٰۃ میں صرف کرو تو اپنے لئے بھی جائز ہے جبکہ فقیر ہو۔”
(الدر المختار،کتاب الزکوٰۃ،ج۳،ص۲۲۴)
زکوٰۃ پیشگی ادا کرنا
پیشگی زکوٰۃدے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے2شرائط ہیں۔
(۱)دینے والا مالک ِ نصاب ہو ،(۲)اختتامِ سال پر نصاب مکمل ہو ۔
اگر دونوں میں سے ایک بھی شرط کم ہوگی تو دیا جانے والا مال نفلی صدقہ شمار ہوگا ۔
(الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکوٰۃ،الباب الاول، ج۱، ص۱۷۶)