اسلام
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کی تصانیف، علم وفن اور بحث کا شاہکار
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کی تصانیف، علم وفن اور بحث کا شاہکار
از: مولانا محمد انوار احمد نظامی، استاذ جامعہ نظامیہ، حیدرآباد
قدرت عموماً کسی ایک میدان یا فن میں کسی کو صلاحیتوں سے نوازتی ہے لیکن کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی شخصیت ہمہ جہتی خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ اور جو مختلف علوم وفنون میں یکساں قدرت رکھتے ہیں ان ہی باخدا بندوں میں شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمۃ والرضوان بھی شامل ہیں۔
آپ نے اپنی تصانیف میں مختلف مباحث کے دوران آیات ربانی کی جو تشریح وتوضیح فرمائی ہے انہیں دیکھ کہ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بلند پایہ ’مفسر‘ ہیں۔ جب آپ علم حدیث اور اصول حدیث پر بحث کرتے ہیں تو آپ کے اندر ’محدث کبیر‘ کا جلوہ نظر آتا ہے فقہ اور متعلقات فقہ پر آپ کی تحریریں آپ کو ’فقیہ اعظم‘ کہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ جب آپ تاریخ کے حوالے سے احقاق حق وابطال باطل کا فریضہ انجام دیتے ہیں پڑھنے والا آپ کو ’مورخ‘ کی مسند پر جلوہ افروز پاتا ہے۔ آپ کی کتابوں میں معقولی ومنقولی رنگ اور بحث وتحقیق کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ کبھی آپ عظیم ’اسلامی فلسفی‘ نظر آتے ہیں۔
غرض آپ کی شخصیت ہر زاویہ سے اس قدر مکمل ہے کہ یہ چھاپ صدیوں میں کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ علوم وفنون میں یکساں درک اور تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ فلسفہ کلام اور ادب میں اعلیٰ ترین صلاحیتیں آپ کو ایک عہد ساز شخصیت ثابت کرتی ہیںجس نے تاریخ ساز خدمات انجام دیں۔
انوار احمدی :
نبی کریمﷺ کی محبت اصل ایمان ہے۔ مسلمانوں میں اس جذبہ کو پیدا کرنے کے لئے عظمت رسالت پر مشتمل مضامین کا تذکرہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے بیسیوں اہل علم نے یہ کام انجام دیا ہے لیکن بانی جامعہ نے انوار احمدی کے ذریعہ مسلمانوں کی جو خدمت انجام دی اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کتاب میں نبی کریمﷺ کے فضائل مناقب اور آداب کو نہایت ہی شرح وبسط کے ساتھ والہانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ الفاظ قاری کے دل پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
حضرت مولانا مفتی ولی اللہ صاحبؒ‘ سابق شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ فرماتے ہیں کہ:
’’سیرت کی دیگر کتابوں کے مطالعہ سے احوال رسالت مآب ﷺ سے واقفیت حاصل ہوتی ہے جب کہ ’انوار احمدی‘ کے مطالعہ سے رسول کریمﷺ کا عشق ومحبت حاصل ہوتی ہے‘‘۔
اس اثر انگیزی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کتاب حضرت شیخ الاسلام نے مدینہ طیبہ کے قیام کے دوران تالیف فرمائی ہے۔ زائد از تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ سے بار بار شائع ہوتی ہے اور عاشقان رسالت اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔
افادۃ الافہام فی ازالۃ الاوہام (حصہ اول ودوم) :
تحریک قادیانیت ہندوستانی مسلمانوں پر کاری ضرب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فتنہ کی سرکوبی میں جن علماء نے سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا اور اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتے ہوئے اس کا قلع قمع کیا ان میں شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقیؒ بانی جامعہ نظامیہ کا نام امتیازی شان کے ساتھ موجود ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے ’’ازالۃ الاوہام‘ کے نام سے انکار ختم نبوت کی ناپاک جرأ ت کی اور اپنے خاص پیرایہ بیان کے ذریعہ باطل نظریات کی عیارانہ ترویج کی کوشش کی تو حضرت شیخ الاسلام نے ’افادۃ الافہام فی ازالۃ الاوہام‘ کے نام سے دو حصوں میں تقریبا آٹھ سو صفحات زیب قرطاس فرمائے جس میں ازالۃ الاوہام کا محاسبہ کیا گیا اور آپ نے اپنے خدا داد علم وتفقہ کے ذریعہ باطل کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ اس کتاب کو دنیا بھر کے علمی حلقوں میں اس قدر قبولیت حاصل ہوئی کہ پاکستان کی عدالتوں میں قادیانیت کے خلاف تمام فیصلوں میں اس کتاب کی عبارتوں کو بطور سند ودلیل پیش کیا گیا۔
یہ کتاب جہاں رد قادیانیت کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے وہیں تحفظ ختم نبوت کے لیے بے پناہ علمی ومعقولی مواد فراہم کرتی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام نے رد قادیانیت میں ’انوار الحق‘ کے نام سے ایک اور رسالہ بھی تحریر کیا جس میں قادیانی علماء کی تحریروں کا رد ابطال فرمایا۔
حقیقۃ الفقہ حصہ اول ودوم :
فقہ حنفی کی تدوین میں احادیث کریمہ کو بنیادی اور حتمی حیثیت دی گئی لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ قصور علم وفہم کی وجہ بعض اصحاب سرتاج الامۃ حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہؓ سے منسوب فقہ حنفی کو خلاف سنت قرار دیتے ہیں۔ حضرت بانی جامعہ نظامیہ نے حقیقۃ الفقہ کے ذریعہ دو حصوں میں اس طرح کے نظریات کا کافی وشافی رد فرمایا اور نہایت شرح وبسط کے ساتھ فقہ اور ضرورت فقہ پر روشنی ڈالی ہے۔ تقریبا ۷۰۰ صفحات پر محیط یہ علمی ذخیرہ بحث وتحقیق استدلال اور علم وفن کا منہ بولتا شاہکار ہے۔
حدیث‘ اصول حدیث‘ فقہ‘ اصول فقہ‘ ناسخ‘ منسوخ‘ مجتہد‘ محدث اور فقیہ کے فرائض منصبی جیسے عنوانات اور بالخصوص تدوین فقہ کے لیے ائمہ فقہ حنفی کی جانفشانیوں کو حضرت شیخ الاسلام نے تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے جن خاص بندوں سے احقاق حق وابطال باطل کا کام لیا ہے۔ ان نفوس قدسیہ میں حضرت شیخ الاسلام کا نام پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ آپ کی یہ کاوشیں کس قدر ثمر آور ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ان تحریروں کی وجہ مسلک حق کا تحفظ ہورہا ہے اور آپ کے مخالفین اپنے مبلغ علم کی قلت وکوتاہی کے سبب لا جواب ہیں جس کے لیے نتیجہ میں باطل مشن کمزور پڑ رہا ہے۔
الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع :
انکار حدیث‘ خطر ناک جرأ ت بالکل ایمان کے منافی عمل ہے لیکن بعض حضرات کو ضعف حدیث کے بہانے انکار حدیث کی عادت ہوگئی ہے۔ اس مذموم رجحان کے سد باب کے لیے شیخ الاسلام عارف باللہ حضرت انوار اللہ فاروقیؒ بانی جامعہ نظامیہ نے ’’الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘ کو تالیف فرمایا جس کے ذریعہ قرائن وضع حدیث، قواعد جرح وتعدیل اور اس جیسے بیسیوں اصول حدیث کے ذریعہ یہی پیغام دیا ہے کہ مخلص ائمہ فقہ کو مختلف توجیہات پیش کرکے رد کرنا در حقیقت اپنے آپ سے ناانصافی ہے۔ اس کتاب اور بالخصوص حقیقۃ الفقہ کے ذریعہ حضرت شیخ الاسلام کے علم وفن کے تنوع کا احساس بخو بی ہوجاتا ہے کہ جہاں آپ علم فقہ میں یدطولی رکھتے ہیں وہیں آپ ایک عظیم الشان ونابغہ روزگار محدث بھی ہیں۔ حضرت مولانا محمد خواجہ شریف صاحب شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ نے اس کتاب کا عربی ترجمہ کیا ہے جسے عرب دنیا میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی اور علماء عرب نے مصنف کے علم وفن اور مترجم کی عربیت پر حیرت کا اظہار کیا۔
کتاب العقل :
جدید تعلیم نے بالخصوص عصر حاضر میں نئی پود کو فکر وتفحص کے نئے پیمانے دیے ہیں۔ جس کی وجہ بسا اوقات نئی نسل کے بعض افراد دین کو عقل کے معیار پر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور احکام دین کی عقلی تشریح کبھی کبھی ان کے ایمان وایقان کی لو کو مدھم کردیتی ہے۔ اس خطرناک رجحان کے سد باب کے لیے ’’کتاب العقل‘‘ کا مطالعہ اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ دینی ابواب میں عقل کہاں تک چل سکتی ہے۔ زائد از تین سو صفحات پر مشتمل یہ علمی ذحیرہ عقل کو روشن کردیتا ہے۔
اسکے علاوہ ’رسالہ وحدۃ الوجود‘ رسالہ خلق افعال‘ انوار التمجید‘ خدا کی قدرت‘ شمیم الانوار‘ شیخ الاسلام عارف باللہ امام انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ نظامیہ کے حیرت انگیز علم وفن کے آئینہ دار ہیں۔
مقاصد الاسلام (گیارہ حصے):
ملت کا خیر خواہ ہر دم پوری دلسوزی کے ساتھ قوم وملت کی فکری‘ علمی واعتقادی غلطیوں پر فکر مند رہتا ہے اور ملی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت مختلف اقدامات کے ذریعہ کارہائے خیر کی تکمیل میں لگا رہتا ہے۔ ۱۳ ویں صدی ہجری میں حضرت شیخ الاسلام نے ہندوستان بھر میں ملی بیداری اور دین کے احساس کا احیاء فرمایا اس سلسلہ میں نہ صرف عملی سعی فرمائی بلکہ اپنی تصانیف کے ذریعہ بھی اصلاح فکر وعمل کا مسعود کام انجام دیا۔
چنانچہ انگریزوں نے سرزمین ہند پر اپنے تہذیبی نقوش چھوڑنے کا منصوبہ بنایا اور فکر وعمل کوکھوکھلا کرنے کی سازش تیار کی تو بانی جامعہ نظامیہ نے ان کے خلاف قلمی جہاد کے طور پر ضرورت کے لحاظ سے تحقیقی مضامین کے ایک سلسلہ کا آغاز فرمایا۔
جس میں اہم اسلامی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے جس کے سینکڑوں صفحات پر مشتمل گیارہ حصے علم وعمل کا ایک بیش بہا خزانہ ہیں۔
حضرت شیخ الاسلام کا قائم کردہ کارکرد ادارہ ’’مجلس اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ‘‘ ان تمام کتابوں کو اہتمام کے ساتھ شائع کرتا ہے۔ یہ کتابیں شوق کے ہاتھوں لی جاتی ہیں اور عقیدت واحترام سے پڑھی جاتی ہیں۔
٭٭٭