اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
بیان نمبر :1
دُرُود شریف کی فضیلت
سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالک و مختار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا ارشاد ِ نور بار ہے :’’زَیِّنُوْا مَجَالِسَکُمْ بِالصَّلَاۃِ عَلَیَّ فَاِنَّ صَلَاَتَکُمْ عَلَیَّ نُوْرٌلَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،یعنی تم اپنی مجلسو ں کو مجھ پر دُرُودِپاک پڑ ھ کر آراستہ کرو کیونکہ تمہارا مجھ پردُرُود پڑھنا بروزِقیامت تمہارے لئے نور ہو گا۔‘‘ (جامع صغیر،حرف الزاء ،ص۲۸۰، حدیث :۴۵۸۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب بھی کسی مَحفِلِ ذکر میں شرکت کی سعادت نصیب ہو اور حضورنبیِّ اکرم، نورِ مُجَسَّمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا اسمِ گرامی لیاجائے تو تَزْئِینِ مجلس اور حصولِ برکت کیلئے دُرُودِپاک پڑھ لینا چاہئے تاکہ ہماراپڑھاہوا دُرُودِپاک روزِ قیامت ہمارے لئے نورہواور ہماری بخشش ومَغْفِرت کا ذریعہ بھی بن جائے جیساکہ
سرکار پر پڑھا ہوا دُ رُود پاک کام آگیا
حضرتِسیِّدُناعبدُاللّٰہ بن عُمَررَضِی اللّٰہ تَعالٰی عَنْہماسے مروی ہے :
’’قِیامت کے دن حضرت سَیِّدُناآدم صَفِیُّ اللّٰہعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامعرش کے قریب وسیع میدان میں ٹھہرے ہوئے ہوں گے، آپ پر دو سبز کپڑے ہوں گے ، اپنی اولاد میں سے ہراُس شخض کو دیکھ رہے ہوں گے جوجنَّت میں جارہا ہوگا اور اپنی اَولاد میں سے اُسے بھی دیکھ رہے ہوں گے جو دَوزَخ میں جارہا ہوگا۔ اسی اَثنا میں آدمعَلَیْہِ السَّلامسرکارِ دوعالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ایک اُمَّتِی کو دَوزَخ میں جاتا ہوا دیکھیں گے۔ سَیِّدُنا آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پکاریں گے ،یا احمد ! یا احمد! حُضُورسراپا نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کہیں گے :’’لَبَّیْکاے ابُوالْبَشَر! ‘ ‘ حضرت سَیِّدُنا آدمعَلَیْہِ السَّلام کہیں گے: ’’آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ اُمَّتِی دَوزَخ میں جارہا ہے۔ ‘‘ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبڑی چُسْتی کے ساتھ تیزتیز(قدموں سے )فِرِشتوں کے پیچھے چلیں گے اور کہیں گے: ’’اے میرے رَبّ کے فِرِشتو! ٹھہرو۔‘‘ وہ عرض کریں گے :’’ ہم مُقَرَّرکردہ فِرِشتے ہیں ، جس کام کا ہمیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے، ہم وہی کرتے ہیں جس کا ہمیں حکم ملا ہے۔‘‘ جب حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم افسردہ ہوں گے تو اپنی داڑھی مُبارک کو بائیں ہاتھ سے پکڑیں گے اور عرش کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہیں گے:’’اے میرے پَرْوَردَگار عَزَّوَجَلَّ ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں فرمایا ہے کہ تو مجھے میری اُ مَّت کے بارے میں رُسوا نہ فرمائے گا ۔ ‘‘عرش سے نِداآئے گی: ’’اے فِرِشتو! محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمکی اِطَاعت کرو اوراِسے لَوٹا دو۔‘‘ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنی جھولی سے سفید کاغذ نکالیں گے اور اُسے مِیزان کے دائیں پَلڑے میں ڈال کر کہیں گے ، ’’بِسْمِ اﷲِ‘‘پس وہ نیکیوں والا پلڑا برائیوں والے پَلڑے سے بھاری ہوجائے گا۔ آواز آئے گی:خوش بَخْت ہے، سعادت یافتہ ہوگیا ہے اور اس کا مِیزان بھاری ہوگیا ہے۔ اِسے جَنَّت میں لے جاؤ۔ وہ بندہ کہے گا:’’ اے میرے پَروَرْدَگارعَزَّوَجَلَّ کے فِرِشتو! ٹھہرو ، میں اِس بندے سے بات تو کرلوں جو اپنے رَبّ عَزَّوَجَلَّ کے حُضُور بڑی کرامت رکھتا ہے ۔‘‘ پھر وہ عرض کرے گا :’’ میرے ماں باپ آپ پرفِدا ہوں ،آپ کا چہرۂ انورکتنا حسین ہے اور آپ کی شَکل کتنی خُوبصُورت ہے، آپ نے میری لغزِشوں کو مُعاف فرمایااور میرے آنسوؤں پر رَحْم فرمایا (آپ کون ہیں ؟) ۔‘‘تو حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرمائیں گے،’’اَنَا نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ وَہٰذِہٖ صَلَا تُکَ الَّتِیْ کُنْتَ تُصَلِّیْ عَلَیَّ وَقَدْوَفَّیْتُکَ اَحْوَجَ مَا تَکُوْنُ اِلَیْہَا،یعنی میں تیرا نبی محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہوں اوریہ تیرا وہ دُرُودہے جوتُو مجھ پر بھیجتا تھا اور میں نے تیر ی وہ تمام حاجات پُوری کردیں جن کا تومُحتاج تھا۔‘‘(موسوعۃ ابن ابی الدنیا فی حسن الظن باللّٰہ۱/۹۱حدیث:۷۹ )
رَبِّ سَلِّمْ !کے کہنے والے پر
جان کے ساتھ ہوں نثار سلام
وہ سلامت رہا قیامت میں
پڑھ لئے دل سے جس نے چار سلام (ذوقِ نعت، ص ۱۱۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حُصولِ برکت ، ترقیٔ معرِفت اور حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی قُربت پانے کیلئے کثرتِ دُرُودو سلام سے بڑھ کرکوئی ذَرِیعہ نہیں ہے ۔ یقینا سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُود و سلام بھیجنے کے بے شُمارفَضائِل وبَرَکات ہیں ج نہیں اِحَاطَۂ تحریرمیں لانامُمْکن نہیں ہے۔
صلاۃ وسلام کے مَوضُوع پربے شُمار کُتُب تَصْنِیف کی جاچُکی ہیں ۔ اس کے فَضائِل و ثَمرات عُلمائے کرام بیان فرماتے رہتے ہیں ۔ قَلَم کی رَوشنائی تو خَتم ہوسکتی ہے، بیان کے اَلفاظ بھی خَتم ہوسکتے ہیں ، مگر حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر دُرُود وسلام کا اِحَاطَہ نہیں ہوسکتا۔یادرکھئے! دُرُودِپاک ایسا عمل ہے کہ خود رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ بھی کرتاہے ۔چُنانچہ قُرآنِ مَجیدفُرقانِ حَمید میں اِرشادِ باری تَعالیٰ ہے: اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ﴿۵۶﴾ (پ۲۲،الاحزاب:۵۶)
ترجمۂ کنزالایمان :بیشک اللّٰہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی)پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
اِس آیتِ مُبارکہ کے نازِل ہونے کے بعدمحبوبِ ربِّ ذُوالجَلال،شَہنشاہِ خوش خِصال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا چہرۂ اَنورخُوشی سے نُور کی کِرنیں لُٹانے لگا اور فرمایا: ’’مجھے مُبارکباد پیش کرو کیونکہ مجھے وہ آیتِ مُبارکہ عطا کی گئی ہے جو مجھے ’’دُنْیاوَما فِیْہا‘‘ (یعنی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس)سے زِیادہ مَحبوب ہے۔‘‘(روحُ البیان، پ۲۲،الاحزاب،تحت الآیۃ ۵۶،۷ /۲۲۳)
پوشِیدہ عِلْم
ایک مرتبہ صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی :’’ یارسُولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی کیا رائے ہے اس فرمانِ باری عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں ’’ اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ ‘‘
نبیِّ اَکرَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا :’’اِنَّ ہٰذَا لَمِنَ الْمَکْتُوْمِ، لَوْلَااَنَّکُمْ سَاَلْتُمُوْنِیْ عَنْہُ مَا اَخْبَرْتُکُمْ بِہٖیعنی بے شک یہ پوشیدہ عِلْم سے متعلق بات ہے اگر تم لوگ مجھ سے اِس بارے میں سُوال نہ کرتے تو میں تُمہیں کُچھ نہ بتاتا۔‘‘اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَکَّلَ بِیْ مَلَکَیْنِ لَا اُذْکَرُ عِنْدَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ فَیُصَلِّیْ عَلَیَّ اِلَّا، بے شک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے میرے لیے دو فِرِشتے مُقرَّر فرمادیئے ہیں ، جس مُسلمان کے سامنے میرا ذِکر کیا جائے اور وہ مجھ پر دُرُود بھیجے ، قَالَ ذَاناکَ الْمَلَکَانِ :غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ وَقَالَ اللّٰہُ وَمَلَائِکَتُہٗ جَوَابًا لِذَیْنِکَ الْمَلَکَیْنِ:آمِیْن،تو وہ دونوں فِرِشتے کہتے ہیں : ’’اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّتیری مَغْفِرت فرمائے اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فِرِشتے ان کے جواب میں آمین کہتے ہیں۔‘‘ (کنزالعمال ،کتاب الاذکار،الباب السابع فی القرآن وفضائلہ،۱/۱۷،الجزء الثانی،حدیث: ۳۰۲۴)
حضرتِ سیِّدُناعلّامہ جلالُ الدِّین سُیُوطِی شافِعی عَلَیْہ رَحْمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی ’’تفسیر دُرِّ مَنثور ‘‘ میں اِبنِ نَجَّار اور اِبنِ مَرْدَوَیْہ کے حوالے سے بیان کردَہ رِوایت میں مزید اِضافہ نقل فرماتے ہیں : ’’وَلَا اُذْکَرُ عِنْدَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ فَلاَ یُصَلِّیْ عَلَیَّ اِلَّااور جس مسلمان کے سامنے میرا ذِکر کیا جائے اور وہ مجھ پر دُرُود نہ بھیجے قَالَ ذٰلِکَ الْمَلَکَانِ: لَا غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ ، وَقَالَ اللّٰہُ وَمَلَائِکَتُہٗ لِذَیْنِکَ الْمَلَکَیْنِ: اٰمِیْنتو وہ دونوں فِرِشتے کہتے ہیں :اللّٰہ عَزَّوَجَلَّتیری مَغْفِرت نہ فرمائے اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فِرِشتے ان کے جواب میں ’’آمین‘‘ فرماتے ہیں۔‘‘(درمنثور،پ۲۲،الاحزاب،تحت الآیہ۵۶، ۶ / ۶۵۲ )
مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مُفْتی احمد یار خان عَلَیْہ رَحْمۃُ الْحنَّان فرماتے ہیں:’’ مذکورہ آیتِ کریمہ (یعنی آیتِ دُرُود) سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی صَرِیح نعت ہے۔ اِس میں اِیمان والوں کو پیارے مصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر دُرُود و سلام بھیجنے کا حُکم دیا گیا ہے۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے قرآنِ کریم میں کافی اَحکامات صادِر فرمائے مثلاً نَماز، روزہ، حج ، وغیرہ وغیرہ مگر کسی جگہ یہ اِرشاد نہیں فرمایا کہ یہ کام ہم بھی کرتے ہیں،
ہمارے فِرِشتے بھی کرتے ہیں اور اِیمان والو ! تُم بھی کیا کرو، صرف دُرُودشریف کیلئے ہی ایسا فرمایا گیا ہے ۔ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے، کیونکہ کوئی کام بھی ایسا نہیں جو خُدا عَزَّوَجَلَّ کا بھی ہو اور بندے کا بھی۔ یقینا اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کے کام ہم نہیں کرسکتے اور ہمارے کاموں سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بُلَند و بالا ہے۔‘‘
اگر کوئی کام ایسا ہے جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا بھی ہو، مَلائکہ بھی کرتے ہوں اور مسلمانوں کو بھی اُس کا حُکم دیا گیا ہوتو وہ صِرف اورصرف آقائے دوجَہان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پردُرُود بھیجنا ہے۔ جس طرح ہِلالِ عید پر سب کی نظریں جمع ہوجاتی ہیں اِسی طرح مَدینہ کے چاند پر ساری مَخلُوق کی اور خُودخالقکی بھی نظر ہے۔ (شانِ حبیب الرحمن، ص۱۸۳ ملخصاً)
برادرِاعلی حضرت، شہنشاہِ سُخَن ، حضرت مَولانا حسن رضا خان عَلَیْہ رَحْمۃُ الرَّحمٰن اپنے نعتیہ دِیوان ’’ذَوقِ نعت‘‘میں کیا خُوب اِرشاد فرماتے ہیں :
جِنکے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں حسُن و جَمال
اے حَسِیں ! تیری اَدا اُس کو پسند آئی ہے (ذوقِ نعت، ص۱۷۵)
ایسا تجھے خالِق نے طَرَح دار بنایا
یُوسُف کو تِرا طالِبِ دِیدار بنایا (ذوقِ نعت،ص ۳۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاور فِرِشتوں کے دُرُود بھیجنے کا ذِکر کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی دُرُودوسلام بھیجنے کا حکم دیاگیا۔ یہ بات ذِہن نشین رہے کہ اگرچہ ایک ہی لَفْظ کی نِسبت اللّٰہ تعالیٰ، فِرِشتوں اورمُومنین کی طرف کی گئی ہے لیکن مَنسُوب اِلیہ کے اِعتبار سے اسکا معنی مختلف ہے۔ چنانچہ امام بَغَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ القوی فرماتے ہیں :’’اللّٰہ(عَزَّوَجَلَّ)کا دُرُود ہے رَحمت نازِل فرمانا، جبکہ فِرِشتوں کا اور ہمارا دُرُود دُعائے رَحمت کرنا ہے۔‘‘ (شرح السنۃ للامام بغوی، کتاب الصلاۃ ،باب الصلاۃ علی النبی،۲/ ۲۸۰)
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے مذکورہ آیتِ مُبارکہ میں یہ خبر دی ہے کہ ہم ہر آن اور ہر گھڑی اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر رَحمتوں کی بارِش برساتے ہیں ۔ یہاں ایک سُوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللّٰ ہی رَحمتیں نازِل فرمارہا ہے تو ہمیں دُرُود شریف پڑھنے یعنی رَحمت کے لیے دُعا مانگنے کاکیوں حُکم دیا جارہا ہے، کیونکہ مانگی وہ چیز جاتی ہے جو پہلے سے حاصل نہ ہو، تو جب پہلے ہی سے رَحمتیں اُتر رہی ہیں ، پھر مانگنے کا حُکم کیوں دیا؟
اِس کا جَواب یہ ہے کہ کوئی سُوالی کسی دَروازے پر مانگنے جاتا ہے تو گھر والے کے مال و اَولاد کے حق میں دُعائیں مانگتا ہوا جاتاہے، سَخی کے بچے زِندہ رہیں ،مال سلامت رہے، گھر آباد رہے وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ دُعائیں مالکِ مکان سنتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ یہ بڑ امُہَذَّب سُوالی ہے، بھِیک مانگنا چاہتا ہے مگر
ہمارے بچوں کی خیر مانگ رہا ہے،خُوش ہو کر کچھ نہ کچھ جھولی میں ڈال دیتا ہے۔ یہاں حُکم دیا گیا:اے اِیمان والو! جب تُم ہمارے یہاں کچھ مانگنے آؤ تو ہم تو اَولاد سے پاک ہیں ، مگر ہمارا ایک پیارا حبیب ہے ، محمد مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماُس حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی، اُس کے اَہلِ بیت (عَلَیْھِمُ الرِّضْوان)کی اور اُس کے اَصحاب کی خیر مانگتے ہوئے، اُن کو دُعائیں دیتے ہوئے آؤ تو جن رَحمتوں کی اُن پر بارِش ہورہی ہے اُس کا تُم پر بھی چھینٹا ڈال دیا جائے گا ۔(شان حبیب الرحمن،ص۱۸۴ملخصاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ان چھینٹوں میں سے ایک چھینٹایہ ہے کہ رِوایت میں آتا ہے: ’’مَنْ صَلَّی عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَمَلَائِکَتُہُ سَبْعِیْنَ صَلَاۃً،یعنی جس نے نبیِّکریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَ التَّسْلِیم پر ایک بار دُرُود ِ پاک پڑھا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے فِرِشتے اس پرستَّر رَحمتیں نازِل فرماتے ہیں۔‘‘(مسند احمد ،مسند عبداللّٰہ بن عَمْرو بن العاص،۲/ ۶۱۴ ،حدیث:۶۷۶۶)
دُرُود شریف پڑھنا دَرْاَصل اپنے پَرْوَرْدَگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ سے مانگنے کی ایک اَعلیٰ ترکیب ہے۔
میرے آقا اعلیٰ حضرت،امامِ اَہلِ سُنَّت ، مُجدِّدِدین ومِلَّت،اِمام احمد رضا خان عَلَیْہ رَحْمۃُ الرَّحمٰن اپنے مشہورِ زمانہ نعتیہ دِیوان ’’حدائقِ بخشش شریف‘‘ میں بارگاہِ رِسالت میں عرض کرتے ہیں:
وہی رَبّ ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو ترا آستاں بتایا (حدائقِ بخشش، ص ۳۶۳)
مُفَسّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مُفْتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمۃُ الحنَّان مزید اِرشاد فرماتے ہیں : ’’اِس آیتِ مُقدَّسہ میں مُسلمانوں کوخبردار فرمادیا گیا کہ اے دُرُود و سلام پڑھنے والو! ہر گز ہر گز یہ گُمان بھی نہ کرنا کہ ہمارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ہماری رَحمتیں تُمہارے مانگنے پر مَوقُوف ہیں اور ہمارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتُمہارے دُرُود و سلام کے مُحتاج ہیں ۔ تم دُرُود پڑھو یا نہ پڑھو،اِن پر ہماری رَحمتیں برابر برستی ہی رہتی ہیں ۔تُمہاری پیدائش اور تُمہارا دُرُود و سلام پڑھنا تو اب ہوا۔ پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر رَحمتوں کی برسات تو جب سے ہے جب کہ ’’جب‘‘ اور ’’کب‘‘ بھی نہ بنا تھا۔ ’’جہاں ‘‘ ’’وہاں ‘‘ ’’کہاں ‘‘ سے بھی پہلے اِن پر رَحمتیں ہی رَحمتیں ہیں ۔ تم سے دُرُود و سلام پڑھوانا یعنی پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے لیے دُعائے رَحمت منگوانا تُمہارے اپنے ہی فائدے کے لیے ہے تم دُرُود و سلام پڑھو گے تو اِس میں تُمہیں کثیر اَجر و ثواب ملے گا۔ ‘‘(شان حبیب الرحمن،ص۱۸۴ملخصاً )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!شیخِ طریقت ،اَمیرِ اَہلسُنَّتدَامَتْ بَرَکاتُھُمُ الْعالِیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’ کسی گُناہ سے جان چُھڑانی ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس گُناہ کے بارے میں قُرآن و حدیث میں جو مَذَمَّت وارِد ہوئی نیز اسکے کرنے پر جو عذابات بیان ہوئے، ان کا مُطالَعہ کریں ۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ غیرمَحسُوس طریقے پر اس گُناہ کا علاج شُروع ہوجائے گا۔نیز کسی نیک عمل کی عادت بنانی ہو تواسکے فَضائِل اور ثواب پر توجُّہ کریں ،اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ دل اس نیک عمل کی طرف مائل ہوگا۔‘‘ آئیے ! دُرُودو سلام کی عادت بنانے کی نِیَّت سے اسکے کچھ فَضائل سُنتے ہیں ۔
اِنعامات کی بَرسات
حضرت سیِّدُناشیخ عبدالحق مُحدِّثِ دہلوی عَلَیہ رَحْمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی ’’جذبُ الْقُلوب ‘‘میں ارشادفرماتے ہیں :’’جب بندئہ مُومن ایک بار دُرُود شریف پڑھتا ہے تو اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ)اس پردس بار رَحمت بھیجتا ہے، (دس گُناہ مٹاتا ہے ) دس دَرَجات بُلَند کرتا ہے، دس نیکیاں عطا فرماتا ہے، دس غلام آزاد کرنے کا ثواب (التر„غیب والتر „ھیب، کتاب الذکر والدعاء،الترغیب فی اکثارالصلاۃ علی النبی،۲/ ۳۲۲، حدیث: ۲۵۷۴) اور بیس غَزَوات میں شُمولیت کا ثواب عطا فرماتا ہے۔ (فردوس الاخبار، باب الحاء، ۱/۳۴۰ ،حدیث:۲۴۸۴) دُرُودِپاک سببِ قُبولیتِ دُعا ہے،(فردوس الاخبار، باب الصاد،۲/۲۲،حدیث:۳۵۵۴) اِس کے پڑھنے سے شَفاعتِ مصطفیٰ
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمواجب ہوجاتی ہے۔ (معجم الاوسط،من اسمہ بکر، ۲/ ۲۷،حدیث: ۳۲۸۵) مصطفٰیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کابابِ جنَّت پر قُرب نصیب ہوگا، دُرُودِپاک تمام پریشانیوں کو دُور کرنے کے لیے اور تمام حاجات کی تکمیل کے لیے کافی ہے، (درمنثور، پ۲۲، الاحزاب، تحت الآیۃ۵۶، ۶/ ۶۵۴، ملخصًا) دُرُودِپاک گُناہوں کاکَفَّارہ ہے، (جلاء الافہام، ص۲۳۴) صَدَقہ کا قائم مَقام بلکہ صَدَقہ سے بھی اَفضل ہے۔‘‘ (جذبُ القلوب، ص۲۲۹)
حضرت سیِّدُناشیخ عبدالحق مُحدِّثِ دہلوی عَلَیہ رَحْمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی مزید فرماتے ہیں : ’’دُرُود شریف سے مصیبتیں ٹلتی ہیں ، بیماریوں سے شِفاء حاصل ہوتی ہے، خوف دُور ہوتاہے، ظُلم سے نَجات حاصل ہوتی ہے، دُشمنوں پرفَتْح حاصل ہوتی ہے، اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ)کی رِضا حاصل ہوتی ہے اور دل میں اُس کی مَحَبَّت پیدا ہوتی ہے، فِرِشتے اُس کا ذِکر کرتے ہیں ، اَعمال کی تکمیل ہوتی ہے، دل و جان، اسباب و مال کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، پڑھنے والاخُوشحال ہوجاتاہے، بَرَکتیں حاصل ہوتی ہیں ، اَولاددَر اَولاد چار نسلوں تک بَرَکت رہتی ہے۔ ‘‘(جذبُ القلوب، ص۲۲۹)
دُرُود شریف پڑھنے سے قِیامت کی ہولناکیوں سے نَجات حاصل ہوتی ہے، سَکَرَاتِموت میں آسانی ہوتی ہے، دُنیا کی تَباہ کارِیوں سے خَلاصی
(نَجات) ملتی ہے، تنگدستی دُور ہوتی ہے، بھولی ہوئی چیزیں یاد آجاتی ہیں ، مَلائکہ دُرُود پاک پڑھنے والے کو گھیر لیتے ہیں ، دُرُود شریف پڑھنے والا جب پُل صِراط سے گُزرے گا تو نُور پھیل جائے گااور وہ اُس میں ثابِت قدم ہو کر پَلک جھپکنے میں نَجات پا جائے گا۔ عظیم تر سَعادت یہ ہے کہ دُرُود شریف پڑھنے والے کا نام حُضُور سراپا نُور،فیض گنجور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں پیش کیا جاتاہے، تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی محبت بڑھتی ہے، محَاسِنِ نبویہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دل میں گھر کر جاتے ہیں اور کثرتِ دُرُود شریف سے صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا تصوُّر ذِہن میں قائم ہوجاتا ہے اورخُوش نَصیبوں کو دَرَجہ قُربتِ مُصْطفوِی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حاصل ہوجاتا ہے اورخَواب میں سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم کا دِیدار ِ فیضِ آثار نصیب ہوتا ہے۔ روزِقیامت مَدَنی تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مُصافَحہ کی سعادَت نصیب ہوگی، فِرِشتے مرحباکہتے ہیں اورمَحَبَّت رکھتے ہیں ، فِرِشتے اُس کے دُرُود کو سونے کے قَلموں سے چاندی کی تختیوں پر لکھتے اور اُس کے لیے دُعائے مَغْفِرت کرتے ہیں ۔ا ورفِرِشْتگانِ سَیّاحِین (زمین پر سیر کرنے والے فِرِشتے) اُس کے دُرُود شریفکو مدَنی سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ بے کَس پناہ میں پڑھنے والے اور اس کے باپ کے نام کے ساتھ
پیش کرتے ہیں ۔(جذبُ لقلوب، ص۲۲۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سَعادَتِ عُظْمٰی
حضرت سیِّدُناشیخ عبدالحق مُحدِّثِ دہلوی عَلَیہ رَحْمۃُ اللّٰہِ الْقَوِی ’’جذبُ الْقُلوب‘‘ میں مزید فرماتے ہیں :’’دُرُودوسلام پیش کرنے والے کے لیے سعادت دَر سعادَت یہ ہے کہ اُسے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبنفسِ نفیس جوابِ سلام سے مُشرَّف فرماتے ہیں ۔ ایک اَدنیٰ غُلام کے لیے اِس سے بالا تَر سعادَت اور کون سی ہوسکتی ہے کہ رَحمت ِعالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخُود جوابِ سلام کی صُورَت میں دُعائے خَیروسَلامَتی فرمائیں ۔ اگر تمام عُمر میں صِرف ایک بار بھی یہ شَرف حاصل ہوجائے تو ہَزارہا شَرافت وکَرامت اور خَیر وسَلامتی کا مُوجب ہے۔ ‘‘ (جذبُ القلوب، ص۲۳۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّتبلیغِ قُرآن وسُنَّت کی عالمگیر غیر سیاسی تَحریک دعوتِ اِسلامی کے مَہکے مَہکے مدَنی ماحول میں بکثرت سُنَّتیں سیکھی اور سِکھائی جاتی ہیں،فَرائِض وواجبات کی پابندی کے ساتھ ساتھ سُنَن ومُسْتحبات کی پابندی کا بھی ذِہن دیا جاتا ہے ،نیز ذِکر ودُرُود کی کثرت کا بھی عادی بنایا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ حمدِ خُداعَزَّوَجَلَّاور نعتِ پاکِ مُصْطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بہاریں بھی حاصل ہوتی ہیں ۔دعوت ِ اِسلامی کے مدَنی ماحول میں رہتے ہوئے حَمد ونعت کی بَرَکات حاصل کرنے والوں پر بعض اَوقات ایسی کرم نَوازی ہوتی ہے کہ سُننے والے اَش اَش کر اُٹھتے ہیں ۔چُنانچہ
مُصْطَفٰے جانِ رَحْمَت کا دِیدار
مَرکزُالا َو ْ لیا(لاہور ) کے مُقیم اِسلامی بھائی کے بیان کالُبِّ لُباب کچھ اسطرح ہے کہ خُوش قِسمَتی سے ایک بار مجھے عاشِقانِ رسُول کے ہمراہ سُنَّتوں کی تَربیت کے لیے مدَنی قافِلے میں سَفر کی سعادَت نصیب ہوئی۔سَفر کے دوران ایک روز شُرکائے قافِلہ نے مَحفلِ نعت کا اِنْعِقاد کیا جس میں عاشِقانِ رسُول نے نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی مَحَبَّت میں ڈوب کر پُر سو زاَنداز میں نعتِ رسُول پڑھیں ج نہیں سُن کرمیرا دل چوٹ کھا گیا اور اسی سوز وگداز کے عالَم میں میری آنکھ لگ گئی ۔ ظاہری آنکھیں توکیا بند ہوئیں دل کی آنکھیں روشن ہو گئیں ۔ کیا دیکھتاہوں کہ میرے سامنے سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب و سینہ، فیَض گنجینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جلوہ فر ماہیں اور میں بِلک بِلک کے رو رہا ہوں ۔ اتنے میں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مجھ اَدنیٰ اُمَّتِی پر رَحم آ گیا اور آپ نے اپنے دامنِ رَحمت کو وسیع فر مایا اور مجھ عِصْیاں شعار کو آغوشِ رَحمت میں جگہ عطا فرمائی۔ مجھے یوں لگا جیسے مجھے جہاں بھر کا خَزانہ مل گیا ہو۔اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ
یہ سب بہاریں مدنی قافلے میں سفر کرنے کی وجہ سے ملیں ورنہ کہاں حُضُورِانور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اورکہاں مجھ سا عاصِی۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اے ہمارے پیارے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں نبیِّکریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سچی مَحَبَّت عطافرما،زندگی بھر آپ کی سنتوں پر چلنے اورآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذاتِ طیِّبہ پر کثرت سے جھوم جھوم کر دُرُدوسلام کے نذرانے پیش کرنے کی توفیق عطافرما ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭…٭…٭…٭