اسلام
فعل، فاعل اور مفعول کا حذف
۱۔جب حذف فعل پرکوئی قرینہ(ایساامر جو فعل محذوف پر دلالت کرے)پایا جائے تو فعل کو حذف کرنا جائز ہے۔ جیسے کوئی سوال کرے:مَنْ جَاءَ ؟ اور اس کے جواب میں صرف:زَیْدٌکہاجائے تو اس سے پہلےجَاءَ فعل محذوف ہو گااور زَیْدٌ اس کا فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع
ہوگا۔اور فعل محذوف پر قرینہ سوال ہوگا؛کیونکہ جوچیز سوال میں مذکور ہوتی ہے وہ جواب میں بھی ملحوظ ہوتی ہے۔
۲۔ اگر فاعل ایسے کلمہ کے بعد آجائے جو صرف فعلوں پر داخل ہوتے ہیں(۱) تو فعل کا حذف کرنا و اجب ہے۔ جیسے آیت کریمہ: (وَاِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِسْتَجَارَکَ) یہاں أَحَدٌ سے پہلے اِسْتَجَارَکَ فعل محذوف ہے جس کی تفسیر بعد والااِسْتَجَاَرَک کررہاہے۔
۳۔ جب سوال کے جواب میں صرف نَعَمْ یا بَلٰی کہا جائے تو سوال میں جوفعل، فاعل اور مفعول مذکور ہوں گے سب محذوف مانے جائیں گے۔ جیسے: أَ أَیْقَظَ زَیْدٌ بَکْراً لِصَلٰوۃِ الْفَجْرِ؟ کے جواب میں نَعَمْ یا بَلٰی کہا تو فعل ،فاعل اور مفعول تینوں محذوف ہوں گے۔
چند ترکیبی قواعد:
۱۔ بذریعہ عطف ایک فعل کے کئی فاعل ہوسکتے ہیں۔ جیسے: جَاءَ زَیْدٌ وَبَکْرٌ وَخَالِدٌ۔
میں جَاءَ فعل ،زَیْدٌ معطوف علیہ، واؤ عاطفہ، بَکْرٌ معطوف اول ،واؤ عاطفہ ،خَالِدٌ معطوف ثانی ،معطوف علیہ اپنے معطوفات سے ملکر فاعل ،فعل فاعل ملکر جملہ فعلیہ ۔
۲۔ فعل کافاعل کبھی مفردہوتاہے اورکبھی مرکب توصیفی واضافی وغیرہ۔ جیسے:جَاءَ زَیْدٌمیں جَاءَ فعل زَیْدٌ فاعل ،فعل فاعل ملکر جملہ فعلیہ ۔ جَاءَ طَعَامُ زَیْدٍ میں جَاءَ فعل طَعَامُ مضاف ، زَیْدٍ مضاف الیہ دونوں ملکر مرکب اضافی ہو کر فاعل ،فعل فاعل ملکرجملہ فعلیہ ۔جَاءَ
رَجُلٌ عَالِمٌ میں جَاءَ فعل ،رَجُلٌ موصوف، عَالِمٌ صفت ،دونوں ملکر مرکب توصیفی ہو کر فاعل،فعل فاعل ملکر جملہ فعلیہ۔
دوسری مثال میں قرینہ لفظیہ ہے۔
1۔۔۔۔۔۔ اس سے مراد حروف تحضیض اورکلمات شرط وجزاء ہیں ۔جیسے :ہَلَّا، اَلَّا، لَوْمَااوراِنْ، لَوْ وغیرہا۔