اسلام

فضائل ومسائل رمضان

ازاعلیٰ حضرت آقائے نعمت پیرسیدمقبول احمدشاہ قادر ی سہروردی علیہ الرحمہ

فضائل ومسائل رمضان
ارشاد اللہ عزوجل:  – 
یا ایھاالذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون 
اے ایمان والو تم پر روزہ فض کیا گیا۔جیسا ان پر فرض ہوا تھا ۔ جو تم سے پہلے ہوئے ۔ تا کہ تم گناہوںسےبچو ۔ رمضان شریف کی غرض و غایت یہ ہے ۔ اللہ پاک کو منظور ہے کہ مسلمانوں کو متقی پرہیز گار بنانا ، اور ان کو گناہوں سے بچانا۔ بخاری شریف اور مسلم شریف میں ہے۔ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ جب رمضان آتا ہے ، آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔ ایک روایت میںآیا ہے، کہ جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کئے جاتے ہیں،اور شیا طین زنجیروں میں جکڑدئے جاتے ہیں۔ سند امام احمداور مام ترمذی اور امام ابن ماجہ میں ہے فرمایا نبی کریم ﷺنے جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے، تو شیا طین اور شر کش جن قید کئے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کئے جاتے ہیں،تو ان میںسے کوئی، دروازہ کھولا نہیں جاتا اور جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ اور منادی پکارتا رہتا ہے۔ 

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اےخیر طلب کرنے والے متوجہ ہو اور اے شر کے چاہنے والے باز ریہ اور کچھ لوگ جہنم سے آزاد ہوتے ہیں۔یہ ہر رات میں ہوتا ہے ۔ مسند امام احمد اور نسا ئی میں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایارمضان آیا برکت کا مہینہ اللہ تعا لیٰ نے اس کے روزے تم پر فرض کئے۔اس میں آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ۔جہنم کے درواے بند کئے جاتے ہیں ۔ سر کش شیا طتین کو طوق ڈال دئے جاتے ہیں اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے ۔ یعنی ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے ۔ اگر کوئی آدمی ہزار مہینے تک عبادت کرے اس را ت میں عبادت کرنا، ہزار مہینے سے بہتر ہے جو اس مہینے کی بھلائی سے محروم رہا وہ بے شک محروم ہے بیہقی شریف ہے، یب رمضان کا مہینہ آتا، حضورﷺ سب قیدیوں کو رہا فرماتے۔ ہر سائل کو عطا فرماتے۔ سند امام احمد میں ہے ، حضرت نبی کریمﷺ فرماتے ہیں۔ رمضان شریف کی آخری شب میں اس امت کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ عرضکی گئی۔کیا وہ شب قدر ہے، فرمایا نہیں، لیکن کام کرنے والوں کو اس وقت مزدوری پوری دی جاتی ہے کہ جب وہ تمام پورا کام کرلے۔
بیہقی شعاب الیمان میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شعبان کے آخیر میںوعظ فرمایا۔ اے لوگو تمہارے پاس عظمت وال برکت والا مہینہ آتا ہے ۔ وہ جس میں ایک رات ہزار مہینے سے بہتر ہے، اس مہینے کے دن کا روزہ اللہ پا نے فرض کیا۔ اور رات میں تطوعسنت کیا۔ اس مہینے میں نیک کام کرنا ایسا ہے ، جیسے اور کسی مہینے میں فرض ادا کرناہے ۔ اس مہینے میں جس نے فرض ادا کیا ، تو ایسا ہے جیسے اور دنوں میں ستّرفرض ادا کیا ۔ یہ مہینہ صبر کا ہے ، صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ مہینہ مواسات اور محبت کا ہے اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جو اس مہینہ میں روزہدار کو افطار کرائےاس کے گناہوں کے لئے مغفرت ہےاور اس کی گردن ، یعنی سارا بدن آزاد کر دیا جا ئیگا یعنی اس کا سارا بدن جہنم سے محفوظ رہیگا۔ اس افطار کرانے والے کےلئے ویسا ہی ثواب ہوگا۔ جیسا روزہ رکھنے والے کو ملےگا۔ بغیر اس کے کہ اس کے اجر میں سے کچھ کم ہو۔ ہم نے عرضکی یا رسول اللہﷺ ہم میں کا ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا جس سے روزہ دارکو افطار کرائیں، حضور پر نور ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو دیگا ۔جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک گھونٹ پانی یا ایک خرمہ سے روزہ دار کو افطار کرائے۔ جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا ، اس کو اللہ تعا لیٰ میرے حوض سے پانی پلا ئےگا۔ کہ کبھی پیا سا نہ ہوگا ۔ یہاںتک کہ جنت 
میں داخلہوجائے یہ وہ مہینہ ہے اس کا اول رحمت ہے ، یعنی پہلے دس روز میں اللہ تعا لیٰ کی طرف سے مسلمان روزہ دار پر رحمت برستی ہے اور اس کااوسط مغفرت ہے ، یعنی بیچ کے دس روز بھی اللہ پاک گنہگار روزہ داروں سے گناہ بخش دیتا ہے، اس کا آخر جہنم سے آزادی ہے ،یعنی جو لوگ جہنم کے لائق ہیں آخری عشرہ میں ان کے لئے جہنم سے خلاصی لکھ دیتے ہیں ، جو اپنے غلام پر اس مہینے میں تخفیف کرے یعنی اپنے کام کمی کرے اللہ تعالیٰ اسے بخش دیگا اور جہنم سے آزاد فرمادیگا ۔ صحیحین اور ترمذی وغیرہ میں ہے ۔ حضور پر نور ﷺنے فرمایا جنت میں آٹھ دروازے ہیں۔ ان میں ایک دروازے کا نام ریان ہے اس دروازے سے وہی جائیںگے جو روزہ رکھتے ہیں ۔ بخاری شریف اور مسلم شریف میں ہے ۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔ جو یمان کی وجہ سے ثواب کے لئے رمضان کاروزہ رکھے گا اس کے اگلے گناہ بخش دئے جائیںگے ، اور جو ایمان کی وجہ سے ثواب کے لئے رمضان کی راتوں کو قیام کریگا، یعنی ترویح کی نماز پڑھےگا ، اس کے اگلے گناہ بخش دئے جائیںگے اور ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لئے شب قدر کو قیام کرےگا اس کے اگلے گناہ بخش دئے جائیںگے ۔ مسند امام احمد اور بیہقی شعبان الایمان میں ہے فرمایا نبی کریم ﷺ  نے روزہ اور قرآن بندے کے لئے شفا عت کریںگے ۔ روزہ کہیگا ، اے رب میں نے کھانے پینے اور خواہشوں سے دن میں اس کو روک دیا، میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما ۔ قرآن کہیگا ، اے رب !میں نے اسی رات میں اسے سونے روک دیا ، میری شفاعت اس کے حق میں قبول 
فرما۔ ان دونوں کی شفاعتیں قبول ہو جائیںگی۔
صحیحین میںہے حضور پر نور ﷺ نے فرمایا آدمی کے ہر نیک کام  کا بدلہ دس سے لیکر سات سو تک دیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ 

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

نے فرمایا ۔ مگر روزہ میرے لئے ہے ۔ اور اس کو اجر میں دونگا ۔ بندہ نے اپنی خواہش اور کھانے پینے کو میرے لئے ترک کر دیا ہے ،اور فرمایا روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ، ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت اور روزہ دار کی منہ کی بو اللہ عزوجل کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے، روزہ سِپر ہے، یعنی ڈھال، جہنم سے بچنے کے لئے ، جب کسی کےروزہ کا دن ہو نہ بیہودہ بکے اور نہ چیخے، پھر اگر اس سے کوئی گالی گلوج کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو ، کہدے کہ میں روزہ دار ہوں۔اسی حدیث کے مثل امام مالک اور ابو داؤد وغیرہ نے روایت کی ہے۔

مسا ئل ۔ روزہ عرف شرع میں مسلمان کا نیت عبادت صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے کو قصداََ کھانے پینے جماع سے باز رکھنا، عورت کا حیض ونفاس سے خالی ہونا شرط ہے۔ یہ کتب میں موجود ہے۔ روزہ کے تین درجے ہیں۔ ایک عام لوگوں کا روزہ ی پیٹ اور شرمگاہ کو کھانے پینے اور جماع سے روکنا۔دوسرا خاص کا روزہ کپہ ان کپے علاوہ آنکھ زبان ہاپتھ پاؤں اور اعضا کو گنا سے باز رکھنا ، تسرا خاص الخاصکا کہ جمیع ما سوا اللہ سے اپنے آپ کو بلکل جدا کرنا صرف اسی کی طرف متوجہ رہنا۔ (   جوہر ہ نیرہ   ) مسئلہ:ـــ-نیت دل کے ارادہ کا نام ہے ، زبان سے کہنا شرط نہیں، مگر زبان سے کہنا مستحب ہے، اگر رات میں نیت کرے تو یوں کہے،  نویت ان اصوم غداََ للہِ تعا لیٰ من فرض رمضان ھٰذا یعنی میں نے نیت کی اللہ عزوجل کے لئے اس رمضان کا فرض روزہ کل رکھونگا اور دن می نیت کرے تو یہ کہے نویت ان اصوم ُ ھٰذا لیوم للہِ تعالیٰ من فرض رمضان یعنی میں نیت کی اللہ تعا لیٰ کے لئے آج رمضان کا فرض روزہ رکھونگا ۔یہ نیت ہر روز کرے مگر دن میں نیت کرنے کی شرط یہ ہےکہ صبح صادق سے روزے کی نیت کرے اگر کہا کہ اب روزہ رکھتا ہوںاور صبح صادق کی نیت ن کی تو اس کا روزہ نہ ہوا۔ مسئلہ :ــــــ  بھول کر کھایا یا پیا یا جماع کیا ، تو روزہ فاسد نہیں ہوتا ۔ رمضان میں بلا 
عذر جو شخص علانیہ قصداََ کھائے تو حکم ہے کہ اسے قتل کیا جائے ۔  (درالمختار  ۔  ردالمختار)۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!