اسلام
سائنسی ایجادات وتحقیقات ِ حضور شیخ الاسلام
مولانامحمدیحیٰ انصاری اشرفی،حیدرآباد
سائنسی ایجادات وتحقیقات ِ حضور شیخ الاسلام
اسلامی علوم کی روح اس کا فقہ اسلامی کہلاتا ہےاور فقہی مسائل اسلامی معا شرہ، تہذیب و تمدن ،زندگی کے ہر گو شے کو اپنے حصارمیں لئے ہوتے ہیں ۔حقیقتًا دین اسلام ہی انسان کے تمام تر دینی و دنیوی ِ، معا شی ، معاشراتی ،اقتصادی ،ثقا فتی ، اندرونی ،بیرونی ،اصولی ،فروعی ،تفریحی ،روحانی اور مادی مسائل کا جامع حل پیش فرماتا ہے ۔ شعبئہ زندگی کا کو ئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں پیچیدہ مسائل نہ ہو ں اور اسلامی فقہ ان پیچیدہ مسائل کا حل پیش نہ کر نا ہوتا ہو ۔ ائمہ مجہتدین اور فقہاء نے جس ذکاوت وفہم ادراک کے ساتھ دن رات محنت کر کے حا لا ت و کوائف کی روشنی میں اپنے اجہتاد سے مسائل کو حل کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ سائنسی ایجادات انسانوں کے لئے ہیں ۔ کیا آج کو ئی موبائل ، ٹیلیفو ن ،ٹیلیگرا م ، فیاکس ، کمپیو ٹر ، انٹر نٹ ، ٹی وی ، ویڈیو اور الکٹرانکس کی افادیت سے انکار کر سکتا ہے؟ اگر آج کوئی یہ کہے کہ سائنسی ایجادات کے استعمال سے گر یز کرنا چاہئے ، یہ اسلام کے خلاف ہے یا اسلامی قوانین وفقہ سے متصا دم ہیں ، ان تمام چیزوں سے فا ئدہ اٹھا نا ، ان کو استعما ل کرنا حرام ہے تو وہ یقینا’’احمق ، مجنون ، فاتر العقل، فقہی بصیرت سے محروم ، قلیل البضا عہ ، جاہل ، عالَم سے بے خبر اور مخبو ط الحواس ہے۔
چھری کا کام کاٹناہے خواہ سبزی کا ٹی جائے یا کسی کا پیٹ پھا ڑ دیا جائے ۔ اس میں چھری کا قصور نہیںبلکہ استعمال کرنے والے کا قصور ہے۔اگر کوئی فیاکس پر کسی کو گالیاں لکھ کر فیاکس کر دے اور فیاکس و صول کرنے والا یہ کہے کہ فیاکس غلط ہے تو یہ اس کے علم کا قصور کہلائے گا کیو نکہ فیاکس کا گالی سے کیا تعلق ؟ اخبارات و میگزنس میں مذہبی صفحات کے ساتھ ساتھ قلمی صفحات اور اچھی بری خبریں بھی ہوتی ہیں ،کیا قلمی صفحات اور بری خبروں کی وجہ سے کو ئی اخبار و میگزن کے پڑھنے کو نا جائز و حرام قرار دے سکتا ہے ؟
دور جدید میں ہزار ہا سائنسی ایجادات کا ظہور ہو رہا ہے جن کا زمانئہ نبوی تو کیا سینکڑوں سال بعد تک انسان کو ان کے نام و نشا ن تک کاتصور بھی نہیں تھا ۔ ان ایجادات کا ہمارے اسلاف کو گمان تک نہ تھا اور ہم ان سے مستفیض ہو رہےہیں۔
اللہ تعالی نے قر آن مجید میں جہا ں انسا ن کے لے سو ا ر یو ں و غیر ہ کا ذکر فر ما یا ہے و ہا ں اُن کے فوائدو منافع سے بھی آگا ہ فر ما یا ۔ وَالأَنْعَامَ خَلَقَها لَكُمْ فِيها دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْها تَأْكُلُونَ ﴿5﴾ وَلَكُمْ فِيها جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ ﴿6﴾ وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَی بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُواْ بَالِغِيه إِلاَّ بِشِقِّ الأَنفُسِ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿7﴾ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ﴿8﴾ (الخل ؕ۸) اور اُس نے چو پا یوں کو پیدا کیا اُن میں تمہارےلیے گرم لبا س ہے اور دو سر ےفا ئدے ہیں اور اُن میں سے تم کھاتے ہو اور اُن میں تمہارےلے زینت ہے جب شام کو چرا کر انہیںواپس لاتے ہو اور جب چراگاہ میں انہیں چھوڑ جا تے ہو اور وہ چو پا ے تمہارے وزنی سا ما ن اٹھا کر ایسے شہر لے جاتے ہیں تم اُس تک جانو ں کی مشقت کے بغیر نہ پہنچ سکتے بیشک تمہارا رب نہا یت مہر بان بے حد رحم فرمانے والا ہے ۔اور گھو ڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے)تمہاری سواری اور زینت کے لئے اور پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے ۔
(یعنی جو کچھ تم اپنے زمانے میں آرام و آسائش ‘ خورد نوش اور زیب و زینت کی اشیاء دیکھ رہے ہو ان کے علا وہ میں ایسی چیزیں بھی تخلیق کروں گا جن کا تجھے علم و شعور تک نہیں )
ان جد ید تخلیقا ت میں طیارے، ہیلی کا پٹر،گا ڑ یاں ، میزا ئل ،موبائل، بمبار طیارے ، ر یڈار ،ساما نِ حر ب و ضرب (جنگی ہتھیا ر ) ا لیکٹر یشن کا سا ما ن، ٹیلی فون ، فیا کس، ٹیلکس، کمپیو ٹر، کیمرے، ٹیپ ریکار ڈر ، ریڈ یو، آڈیو کیسٹ ، و یڈ یو کیسٹ ، سی ڈیز، وی سی آر، ٹی وی ، ا نٹر نیٹ وغیرہ نہ جا نے کیا کیا حیرت انگیز جدید ایجادات روزانہ ظہو ر پز یر ہیں جو انسان کے لئے با عث عزو شرف اور مو جبِ ز یب و زینت ہیں ۔
اب ان کے استعمال میں مسلمان کے لئے حکم شرعی کیا ہیں؟ یہ کون بتائے؟ ظا ہر ہے علما ئے کرام اور مفتیان عظام کی طر ف ہی ر جو ع کرنا پڑ ے گا۔
آج کا اہم سوال یہ ہے کہ جد ید سا ئنسی ایجا دات کا استعمال کیسے کیا جا ئے؟ کہ اسلامی فقہ کے خلا ف نہ ہو
علماء محققین کو چا ہئے کہ مثبت کردار ادا کرتے ہو ئے سا ئنسی ایجادات پر تحقیق کر کے ان کا شرعی استعمال کا طریقہ بتائیں تا کہ اُمت مسلمہ ان ایجادات سے فائدہ بھی اُٹھا سکے اور اس کا غیر شرعی و غیر اسلامی استعمال بھی نہ ہو۔ عصرِ حاضر کی پیچیدہ مسائل کی فہرست بڑی طویل ہے۔ جدید سائنسی ایجادات کے شرعی استعمال کی نو عیت اور حدود کا تعین کیسے ہو ؟ یہ سوال آج کے دور میں فقہی استنباط ،اصول و تحقیق اور افتادو اجتہاد کے شرعی منہاج کا سب سے اہم اور کلیدی نقطہ ہے جب تک اس سوال کو ہم اسلوب اجتہاد اور منہج تحقیق کی اعلیٰ سطح پربنیادی ،اصولی اور کلی حیثیت سے طے نہیں کریں گے ہمیں آئے دن فقہی جزئیات کاسامنا کرناپڑے گا۔
حضورشیخ الاسلام رئیس المحققین علامہ سیدمحمدمدنی اشرفی جیلانی نے سائنسی تحقیقات اور ایجادات کے استعمال کو یہ کہہ کر استعمال کرنے سے گریزنہ کیا کہ یہ اسلام کے خلاف ہے یااسلامی قوانین وفقہ سے متصادم ہیں بلکہ اپنی ذہانت اور تحقیق سے ان ایجادات کے استعمال کو شرعی طریقے پراستعمال کرنے کاسلیقہ وطریقہ بتایا اور امت مسلمہ کی رہنمائی فرماکر وقت کے دھارے سے مسلمانوں کو الگ نہ ہونے دیا۔
ہمارے علمائے کرام آج کے تمام پیچیدہ سائنسی اور فنی مباحث کی گہرائیوں میں اترنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایساہی ایک پیچیدہ مسئلہ ’ ٹی وی اور ویڈیو‘ کے استعمال کی شرعی حدود سے متعلق ہے ۔
خیال رہے کہ جن امور پرشریعت نے عام حالت میں بھی مسلمان کو پابند کر رکھا ہے ویڈیواور ٹی وی پربھی وہ پابندی برقرار رہے گی یعنی مردو زن کا خوشی وغمی ، شادی وماتم ،سفروحضر،اسکول وکالج اور مزاروبازار میں میل جول اور اختلاط پر ہر حالت میں پابندی ہوگی۔ جس طرح غیرمحرم کی عام حالت میں عورت سے تفریح وغیرہ جائز نہیں اسی طرح ویڈیوکا ،وی سی آر کے ذریعے ٹی وی پر دیکھنا بھی درست نہیں۔ یوں عمومی حالت میں ٹی وی پر خلافِ شریعت افعال کی تائید و توثیق نہیں کی جاسکتی۔
ٹی وی کا رخ کلیسا کی بجائے بیت اللہ کی طرف ،گرجاکے بجائے گنبدخضریٰ کی جانب کردیا جائے۔ ٹی وی پر قرآنِ کریم‘ احادیث نبوی ،مسائلِ دینیہ ،مقالاتِ اسلامیہ اور مضامینِ سیرت مصطفیٰﷺ کا نظارہ کریں۔ منیٰ، عرفات ومزدلفہ صفاومروہ، حجراسود کے گرد پروانہ وار مسلمانانِ عالم کی اندازِ عاشقانہ سے متاثر ہوں ،وہ مساجد عظمتِ اسلام کی گواہی دیں ، مزارات ِاولیاء کی ٹی وی اسکرین پر زیارت سے شاد کام ہوں، مستفیض ہوں، ثنا خوانِ حبیبﷺ کی نعتوں سے اپنے دامن معصیت کو پاک کریں۔ صلوٰۃ وسلام اور ذکر واذکار سے اپنے قلوب کومنور کریں اور عالمِ وجد میں زبانِ حال سے پکار اٹھیں۔ لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ
خدارا عالمِ کفر میں اسلام کی تبلیغ کے لیے ان جدید ذرائع ابلاغ کو حرمت کے فتوؤں میں دفن کرنے کی بجائے حلت کے بم سے غالب آنے کی سعی فرمایئے۔ ہاں کھلی چھٹی نہ دیں بلکہ مشروط طور پر جواز کی صورتیں پیدا فرمائیں۔
تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی فقیہ مثبت عالم نے جدید طریقہ سے خدمتِ اسلام کواپنایا اس کے موقف پر اظہار خیال کی بجائے منفی فتوے شروع ہو گیے ۔ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے جب ہندوستان میں پہلی مرتبہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کیا تو ان پر تحریف قرآن کے فتوے لگائے گیے۔ مگر بعد میں تراجم کی ایسی دوڑ لگی کہ ہر زبان میں کئی کئی ترجمے وجود میں آگیے۔ اسی طرح ہم نے دیکھا کہ حضرت شیخ الاسلام رئیس المحققین علامہ سید محمدمدنی میاں اشرفی جیلانی دامت برکاتہم کی کتاب ’ویڈیو اور ٹی وی کا شرعی استعمال‘ عظیم ماخذ کی حیثیت کا شرف پایا۔غزالیِ زماں مظہر امام احمدرضا راس العلما حضرت علامہ سید احمدسعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کے اس تاریخی و علمی کتاب پر تصدیقی تبرکات کے بعدسبھوں نے سرتسلیم خم کیا سوائے چند کے ۔جب کہ ماننے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔
حضرت اویس رضاقادری کے ٹی وی پرنعتیہ محافل اور تبلیغ اسلام:
حسان العصر شاعر خوش الحان اویس رضا قادری اب عالمِ اسلام کی مشہورترین شخصیتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہندو پاک بلکہ دنیا کے بیشترممالک میں اپنے لحنِ داؤدی کے ذریعہ امام اہل سنت امام احمدرضا خان فاضل بریلوی کا نعتیہ کلام ’حدائق بخشش‘ میں پیش فرماتے ہیں۔ ٹی وی پر حضرت اویس رضا قادری کی نعتیہ محافل سے روحانی کیف وسرور کاسماں پیدا ہوا ہے۔ حضرت اویس رضا قادری کی روح پرور نعت سن کر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے سامعین کے دلوں میں عشق ِ رسالت کے چراغ روشن ہوتے ہیں اور عالمِ تصور میں روضہ رسولﷺ کی زیارت کرتے ہیں۔ حضرت اویس رضا قادری کی شیریں آواز سے غیر متعارف حلقوں میں امام اہل سنت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا کما حقہ تعارف اور حدائق بخشش کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے ۔اب دنیا کے گوشہ گوشہ میںکلامِ رضا کی دھوم مچی جارہی ہے اور سب کی زباں پرکلامِ رضا گنگنایا جا رہا ے ۔ٹی وی پر حضرت اویس رضا کی نعتیہ محافل سے ماحول میں خوشگوار تبدیلی واقع ہوئی ہے جس سے بدمذہب عناصر کے حلقوں میں سنسنی اور کہرام مچ چکا ہے۔ باطل فرقے اب الجھن کا شکار ہو چکے ہیں۔ ٹی وی پر حضرت اویس رضا قادری کوسننے کے بعد وجد کے عالم میں یہ اعتراف کرنا ہی پڑے گا۔
ملک سخن کی شاہی تم کورضامسلم
جس سمت آ گیے سکّے بٹھا دیے ہیں
سائنسی ایجادات خصوصاً ویڈیو اور ٹی وی کے شرعی استعمال کے سلسلے میں حضورشیخ الاسلام والمسلمین علامہ سیدمحمدمدنی اشرفی جیلانی کا فتویٰ اہل سنت و جماعت کی رہنمائی نہ کرتاتو حضرت اویس رضا قادری کی خدمات کا دائرہ تنگ ومحدود ہوکر رہ جاتا۔
حضرت اویس رضا قادری کی مقبولیت یقیناً حضورشیخ الاسلام کی عطا ہے جو انہوں نے فتوے سے بھرپور استفادہ فرماتے ہوئے ٹی وی اورویڈیو کا شرعی استعمال کیا ہے۔
حضرت اویس رضاقادری اگر پردۂ ٹی وی (Screen) پر نظر آ رہے ہیں تو پردۂ ٹی وی کے پیچھے (Background)میں حضور شیخ الاسلام کا فتوی ہے جو ویڈیو اور ٹی وی کا شرعی جواز پیش کر رہا ہے۔ بلاشبی ایک وسیع النظر عالم اور فقیہ کے فتوے سے سارا عالم مستفید ہو رہا ہے۔ یقیناً وہ مخبوط الحواس اور فقہی بصیرت سے محروم ہے جو سائنسی ایجادات سے فائدہ اٹھانے اور ان کے استعمال کو حرام قرار دیتا ہے۔
QTVپر علمائے اہل سنت کے مذہبی بیانات اور شرعی مسائل:
Qtvعصر حاضر میں اسلام اورسنیت کی عظیم خدمات انجام دے رہا ہے ، اخلاقی روحانی ودینی اساس پر پروگرام پیش کر رہا ہے اب لوگ اپنے ٹی وی کے ذریعہ علمائے کرام کے بیانات ‘ شرعی مسائل اور دین ودنیا کی بھلائی کے موضوعات پر سُن رہے ہیں۔ ذہن وفکر‘ دل و دماغ میں اسلامی و اخلاقی اقدار کے لازوال نقوش بھی ابھررہے ہیں۔
بہت سے اکابرین اہل سنت باضابطہ Qtvپروگراموں میں آتے ہیں اور اہل سنت سواد اعظم کی باقاعدہ نمائندگی کا حق ادا کرتے ہیں۔ چند قابلِ ذکر علمائے کرام حسبِ ذیل ہیں:
پروفیسر پیر سیدمظہر سعید کاظمی (شہزادۂ غزالی زماں علامہ سید احمدسعید کاظمی)
علامہ غلام حسن قادری (مفتی دارالعلوم حزب الاحناف لاہور)
مولاناکوکب نورانی اوکاڑوی
مولانا مفتی عباس رضوی
مفتی اعظم پاکستان منیب الرحمٰن صاحب
مفکراسلام علامہ قمرالزماں اعظمی اشرفی
حضرت علامہ مفتی ابراہیم قادری
علامہ مفتی محمدیارخاں قادری اشرفی
حضرت علامہ سیدتراب الحق قادری
حسان العصر حضرت اویس رضا قادری
مفتی محمداکمل قادری عطاری
نبیرۂ صدرالشریعہ مفتی انعام المصطفیٰ اعظمی
مولانا سیدمظفرشاہ صاحب وغیرہا
Qtvکی وجہ سے باطل فرقے اب الجھن کاشکار ہوچکے ہیں دنیاے وہابیت میں Qtvکی وجہ سے تہلکہ مچ چکاہے اور Qtvکے خلاف بدعقیدہ عناصر کے جذبات بھڑک رہے ہیں ۔Qtvقصر وہابیت کی بنیادوں کو ڈھانے والا چینل ثابت ہو گیا ہے۔ وہابیت لرزہ باندام ہے اور اپنا فکری دائرہ تنگ ہوتاہوا محسوس کر رہی ہے۔ Qtvپرعلمائے اہل سنت وجماعت کی دینی خدمار قصروہابیت پربم ثابت ہورہی ہیں۔ نیز اس کے علاوہ کئی سنی چینل منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔ مدنی چینل، نور ٹی وی، حق چینل وغیرہ
دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے کرم سے نوازتا رہے اور علمائے ربانی کے فیوض و برکات سے ہمیشہ بہرہ مندرہیں۔