اسلام

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی دکن کا مینارہ ٔ نور

شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی 
دکن کا مینارہ ٔ نور

بقلم : مولانامحمد فرحت علی صدیقی اشرفی صاحب

{اللھم صل علی سید نا ومولانا محمد وعلی آل سید نا ومولانا محمد کما تحب وترضی بأن تصلی علیہ}
اللہ تبارک وتعالی بہ زبان مصطفیﷺ ارشادفرماتاہے کہ اول ماخلق اللہ القلم ۔ سب سے پہلے خدانے قلم پیدا فرمایا ۔ اس نوعیت کا ایک اور فرمان مذہبی کتب میں ملتا ہے کہ اول ماخلق اللہ العقل ۔ سب سے پہلے خدانے عقل پیداکیا ، حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ (۱) نے اس کو حدیث مرسل لکھاہے جبکہ اس کو بعض نے روایت بالمعنی میں شمارکیاہے، اس طرح ایک مشہورومعروف حدیث پاک ہے ’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ سب سے پہلے خدانے نورنبی  ﷺ کو پیدا فرمایا(۲)۔ تینوں احادیث میں قلم ، عقل، اورنور کو پہلے پیدا کرنے کا ذکرموجود ہے ان تینوں بیانوں میں صوفیاء عظام اسطرح تطبیق کرتے ہیں کہ سب سے پہلے تو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے نور سے نور مصطفی ﷺ ہی کی تخلیق فرمائی ، چنانچہ اسی نورمحمدی ﷺ کے جلوہ کو کہیں عقل سے تعبیر فرمایا، کہیں نور قلم سے ۔ انتہاء یہ کہ نور محمدی ﷺ کی تخلیق کے بعد سبھی جلوے خداکے حبیب ﷺ ہی کے ہیں
اس سے یہ اشارہ ملاکہ عقل ہی وہ صفت ہے جس کی وجہ سے ہمیں ہرقسم کا ادراک وعرفان حاصل ہوتاہے۔ قلم ہی وہ نورہے جس سے عرفان ونورانی تحریریںاور علمی صفات عالم وجود میں آکرصفحہ قرطاس ، صفحہ ہستی وصفحہ ذہن پر ابھرتی ہیں۔ اور نور مصطفی ہی وہ عظیم نعمت ہے جن کے فیض سے عقل، قلم اور علوم کے انوار کوسمجھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ’’نور محمدی‘‘ خداکے صفات سے متصف ہے۔ چنانچہ محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ الباری (سن۱۰۵۲ھ) اس خصوص میں ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا کے حبیب ولبیب اللہ تبارک تعالیٰ کی تمام صفات سے متصف ہیں(۳)۔ 
محدث دہلوی رحمۃ اللہ الباری کی اس وضاحت کی روشنی میں خداتعالیٰ کی صفت ’’علیم‘‘ سے بھی یقیناً رحمت عالم وعالمیاں ﷺ نہ صرف نوازے گئے ہیں بلکہ سارے جہاں کو یا مخلوقات میں جس کسی کوجو بھی علم ملے گا بواسطہ محمد عربی  ﷺ ہی  ملے گا۔ 
چنانچہ رحمت للعالمین  ﷺ سے علم کا نور پانے اور علوم شریعہ سے اکتساب کرنے والے حضرات ’’علماء کرام‘‘ ہی کی مقدس جماعت ہے چاہے وہ دور رسالت میں ہوں جنہیں صحابی کہا جاتا ہے چاہے بعد ازوصال رسول ﷺ علم کا نور پانے والے علماء ہوں سب اسی علم نبوی کی ضیاء میں نور مصطفی کا پر تو ہیں جنہیں نائبین رسول عربی ﷺ کے مبارک لقب سے نوازگیاہے۔ یعنی ہمارے علماء کرام ’’علوم نبویہ‘‘ میں نبی کے نائب ہیں(ﷺ)۔
انہیں علماء ربانین میں نور علم سے منور ایک شخصیت کا نام نامی مولانا حافظ محمدانوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ جنہیںباقی باللہ شیخ الاسلام و فضیلت جنگ جیسے رفیع القاب سے دنیائے علم وعرفان جانتی ہے ۔ جس کا شرف حیدرآباد دکن کو حاصل ہے۔ 
حضرت فضیلت جنگؒ نے اپنی تمام عمردرس وتدریس کے علاوہ تصنیف وتالیف میں گزاری ، تحقیقی مضامین وعلمی کتب ا نکے تبحرعلمی وفقہی نیزان کی علمی گہرائی وگیرائی کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔ مگر آپ کی خدمات ، کارناموں وشہکاروں میں حیدرآبادمیں ’’جامعہ نظامیہ‘‘ اور دائرۃ المعارف کا قیام ہے۔ 
جامعہ نظامیہ حیدرآبادپچھلے ایک سوپینتیس سال (۱۳۵)سے ساری دنیا بالخصوص دکن ہندوستان میں ضیاء علم سے لوگوں کے دلوں کو منور اور ان کی زندگیوںکی تطھیر کررہاہے۔ اس مدت میں اس مادر علمی سے ہزاروں علماء لاکھوں دانشور، حفاظ وفقیہ فیضیاب ہوکرمخلوق خدا میں علم کی روشنی پھیلاتے آئے ہیں جو حیدآباد دکن کے مسلمانوںکے لئے ایک علمی امتیاز کا حامل ہے۔ 
اس خصوص میں وہ نفوس بھی یقینا قابل مبارکبادہیں جو پچھلے سوا صدی سے اس جامعہ کی مالی امداد اورہر قسم کے استحکام نیز اس کی ترقی وترویج میں للہیت سے حصہ لیتے آئے ہیں۔ کیونکہ علماء کی خدمت اور علوم دینیہ کے طلباء کی اعانت کرنا خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا موثر ذریعہ اور برکتوں سے لبریز ہونے کا بہترین طریقہ ہے۔ 
علماء اعلام ودینی طلباء کے وقار کوظاہر کرنے اوران کے مقام ومرتبہ پر رشک کرنے کے لئے یہ حدیث کافی ہے جس کو حضرت علامہ بخاری (۲۵۶ھ) اور حضرت مسلم (۲۶۱ھ)رحمۃ اللہ علیھما اپنی اپنی صحیح میں نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالی جس شخص کے ساتھ بھلا ئی کا ارادہ فرماتاہے اس کو دین کا فقیہ ( عالم )بنادیتاہے۔ بالفاظ دیگرایک ’’عالم دین ‘‘خداکی بخشش وعطااور اس کے کرم فرمائی وبھلائی کا جیتا جاگتا ثبوت ہوتاہے۔ 
اس مقام پر وہ لوگ اپنے احساس دین کوذرا تیزفرماکر سونچیں جو علماء عظام کی ظاہری کسمپرسی اور مادّی احوال کی ابتری کو دیکھ کر اس سے دوری اختیار کرتے ہیں’’مادی طمطراق‘‘ نہ دیکھ کر ان کے مقام ومرتبہ کو خود ہی متعین کرلینا ہرگزدانشمندی کی علامت نہیںہے۔ 
عام طور پر یہ بھی دیکھا گیاکہ عوام علماء سے زیادہ عابدین سے رغبت رکھتے ہیں وہ عباد جو علم شریعت سے کورے اور علوم طریقت سے معری ہوتے ہیں۔ یعنی جو فرائض کے بعد نوافل میں وقت گزارتے ہیں۔ فرائض کے بعد نوافل پڑھنا یقینا عمدہ عمل اور خدا کی قربت کا ذریعہ ہے، مگر ایسے عابدوں کو علماء ربانین وپابنددین متین پر فوقیت دینا ہرگز صحیح نہیں۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے ترمذی شریف ومشکوۃ شریف کی اس حدیث شریف کو نگاہوں کے مضافات اور ذھن ودل کے دائروں میں محفوظ فرمالیں ۔ رسول رحمت شافع امت ﷺ فرماتے ہیںکہ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میر ی فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح غیرنبی ۔ نبی کے برابر ہرگزہرگزنہیں۔ اسی طرح ثواب ومرتبہ میں عابد ایک عالم کے مثل ہر گزنہیں ۔ ایک عابد محض اپنی عبادت سے کبھی بھی عالم دین کے مرتبہ کو ہر گز نہیں پہنچ سکتا نہ ثواب میں نہ مقام میں ۔ کیوں۔ اسلئے کہ عالم دین صفت خدا وندی سے متصف ومشرف ہے ’’علم صفت خدا علیم‘‘ہے۔ تو علم وتعلیم صفت خداوندی ہے، نماز وعبادت صفت خدانہیں۔ 
جب ہمارے علماء ربانین خدا کی بھلائی پاکر خدا کے فضل وعطا سے اسکی صفت کے مظہر بنے تو ہمارا ان علماء کو انہیں کے نام سے پکارنا بغیر القاب کے ان کا نام لینا یقینا بے ادبی ہے ۔ ان علماء کی بھی او ران میں پائے جانے والے علم کی بھی ۔ یوں بھی علماء کرام وبزرگوں کو نام لے کرپکار نے سے رزق میں کمی واقع ہو تی ہے (صوفیاء) پھر تو علماء کرام کو اپنے تعلقات کے بنیاد پر یا عصر وہم عمری کے سبب ان کے نام کے ساتھ بھائی کی اضافت سے بلانا بھی نازبیاہوگا۔ اس کا ہرگزیہ مطلب نہیںکہ ہمارے علماء کو کسی کا لحاظ نہ کرنہ چاہئے ۔ یہ مطلب ہرگزہرگز نہ لیا جائے کہ علماء کو نوافل سے بے رغبت ہو نا چاہئے ۔ بہر حال ہمیں علماء کی بارگاہوں اور ہمارے بزرگوں سے باادب رہنے کی توفیق خدا وندی حاصل ہو (آمین)لیکن عالم دین عابد پر یقینا فضیلت رکھتاہے۔
انتہا ء یہ کہ عالم دین کا خواب بھی کسی عابد کے خواب سے افضل ہے۔ (حضرت ابن سیرینؓ۱۱۰ھ)جب عالم وغیر عالم نیند میں برابر نہیں۔ خواب دیکھنے میں یکساں نہیں تو پھر قیاس کرنا چاہئے کہ باقی معاملوں یا دیگر احوال زندگی میں انہیں کیا کچھ فضیلت حاصل نہ ہوگی۔ 
کسی نہ کسی ذریعہ سے یہ فرما ن رسولﷺ آپ تک پہنچا ہوگا کہ ایک عالم فقیہ کا ایک لمحہ تفکر دین میں گزارنا، جاہل کی رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے(۴)۔
سرکارعالم ماکان ومایکون دراللہ المکنون ﷺ کی اس حدیث کو بھی عشق ومحبت کے سرور ، اورظاہر وباطنی نور سے دیکھیں کہ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور تمام آسمان وزمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں دریا کی مچھلیاں سمندر کی گہرائیوں اور دریاؤں کی وسعتوں میں ’’علماء دین ‘‘ کے لئے دعاء کرتے ہیں۔ ان کی بھلائی کے متمنی رہتے ہیں جوکہ علم دین سیکھاتے ہیں(۵)۔
جن نفوس قدسیہ کی بھلائی اور ان کی زندگی وعمرمیں برکت کے لئے ساری مخلوقات مصروف دعاء ہے انتہاء یہ کہ خود خلاّقِ دوعالم ربِّ کائنات بھی ۔ تو غیر علماء کوعلماء عظام کا کتنا لحاظ رکھنا چاہئے۔ 
علماء ربانین وحامل دین شرع متین کی اس قدرشان اور ایسی عظمت وبرکت بیان ہوئی ہو، ان کی فضیلت میں احادیث مبارکہ دلالت کرتے ہوں ۔ مقام غورہے کہ وہ جگہ کتنی مبارد ومسعود ہوگی جہاں علوم شریعہ کی تعلیم دی جاتی ہے ، ایسے علمائے کاملین بنائے جاتے ہیں، پھر ایسی متبرک جگہ فضیلت وعظمت سے ہمکنار کرنے والے مدرسہ وجامعہ کے بانی کی ذات وشخصیت کتنی اعلیٰ درجہ کی ہوگی کتنی باوقار ہوگی جس جامعہ میں دنیوی واخروی کامیابیوں کی تعلیم ، درس وتدریس کا انتظام وانصرام کیا جاتا ہو، طلباء کے قیام وطعام کا اہتمام کیا جاتا ہو ، یقینا وہ جگہ پوری بستی کے لئے باعث برکت اور اس کی اعانت کرنے والوں کو دونوںجہاں میں بے پناہ کامیابیوں کی ضمانت دلاتی ہے۔ 
ان علماء عظام سے مستفید و مستفیض ہو نے کا ایک اور موثر ذریعہ ان کی کتب وتصانیف کا مطالعہ ہے، ان کی تالیفات پڑھنا ہے۔ 
فضیلت جنگ علیہ الرحمہ نہ صرف درس و تدریس کے ماہر استاذ تھے بلکہ میدان تصنیف کے شہسواربھی۔مقاصدالاسلام، انوار احمدی،  حقیقۃ الفقہ وغیرہا ان کے شہوار قلم کے شہکار ہم کہہ سکتے ہیں ان جیسی دیگر کتب کے مطالعہ کے بعد ان کے تبحر علمی ، شان تحقیق اور عشق نبوی ان کی تحریروں سے مہکتاہے اور قاری کے دل ودماغ نہیں بلکہ جسم وجاں کو معطر کرکے اس کا راست تعلق گنبد خضرا ء سے کروادیتی ہے۔ 
فی زمانہ ضرورت اس بات کی ہے کہ فضیلت جنگ کی کتب کو شائع کیا جائے اور جو شائع شدہ ہیںاس کو نئی زبان سے مزین کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ بلکہ ان کی کتب مع شرح شائع کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کا عقیدہ جو خیرالقرون سے مدلل اور بارگاہ نبوی ﷺ سے وابستہ ہے ہمارے ایمان وعقیدہ کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور اس سے تسکین حاصل کرے۔ 
ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ان کی اور دیگر علماء کرام کی تصنیفات خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں تاکہ ہمارا ایمان عقیدہ محفوظ رہے جس کے لئے یقینا آج بھی ہمیں کافی وقت ہے۔
{اللّٰھم رب زدنی علماً}
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(۱) سن:۱۱۰ھ
(۲)زرقانی ۱۱۲۲ھ، علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی۔ المواہب
(۳) حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؒ؍مدارج النبوت جلداول
(۴) ابن ماجہ۔ پورانا م:ابوعبداللہ محمدابن ماجہ۲۷۳
(۵) ترمذی ۔محمدبن عیسی ترمذی، سن ۲۷۹ھ ومشکوۃ شریف
٭٭٭
حضرت شیخ الاسلام ؒ کا نظریہ تعلیم
دینی مدارس کی خوبیوں اور محاسن سے قطع نظر ہر دور کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن کی پاسداری قوم، قائدین قوم اور ملت کے بہی خواہاں کو کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ بانی جامعہ نظامیہ کا یہ احساس ہے ۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’دنیا میں کوئی دین اور مذہب والی قوم ایسی نہیں کہ اپنے دین و مذہب کی حفاظت میں جان و مال سے کوشش نہیں کرتی۔ جو قومیں دنیوی حیثیت سے مہذب سمجھی جاتی ہیں انہوں نے اس بات میں سب سے زیادہ حصہ لیا ہے۔ چنانچہ پوپ جو دینی صیغہ کا افسر ہوتا ہے بجائے خود ایک مستقل رئیس ہے جس کو قومی رعایتوں کی وجہ سے مالی ضرورتوں میں سلطنت کی طرف کوئی احتیاج نہیں۔ (پادری جودین عیسوی کے علماء ہیں اپنے اقتدار سے کروڑہا روپیہ مذہبی مدارس اور دینی علوم کی اشاعت میں صرف کردیتے ہیں لیکن اس مہذب اور ترقی پسند قوم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ ان پرانے خیالات کا شائع کرنا مانع ترقی قوم ہے اور ان کی قوم میں وہی عزت ہے جو دوسرے کو نصیب نہیں)۔ 
اسی طرح ہندوؤں کی مذہبی تعلیم ہندوستان میں شائع اور ذائع ہے اس مشاہدہ سے ثابت ہے کہ ہر قوم اور ہر سلطنت خواہ مہذب ہو یا غیر مہذب اپنے دین اور مذہب کی قدر داں ہے اور اس کی حفاظت اور اشاعت میں دریغ نہیں کرتی برخلاف ان کے ہمارے حضرات اہل سنت و جماعت سلمہم اللہ تعالیٰ اس کو چنداں ضروری نہیں سمجھتے ‘‘۔ (مقاصد الاسلام حصہ چہارم)
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے
 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!