اسلام

اِن حروف کا استعمال

۱۔ اِنَّ:(بے شک)
     یہ مضمونِ جملہ(۱) کی تاکید اور اسے پختہ کرنے کے لیے لایاجاتاہے۔ جیسے: اِنَّ زَیْداً قَائِمٌ  (بے شک زید کھڑاہے) اسے” حرفِ تاکید”بھی کہتے ہیں۔
۲۔ أَنَّ:(کہ، بے شک)
     یہ جملے کو مفرد کی تاویل میں کرنے کے لیے لایاجاتاہے۔ عَلِمْتُ أَنَّ زَیْداً قَائِمٌ  (میں نے جان لیا کہ زید کھڑاہے)اسے ”موصولِ حرفی”بھی کہتے ہیں۔
فائدہ:
    أَنَّ اپنے اسم وخبر سے ملکر چونکہ مفرد کی تاویل میں ہوتاہے اس لیے یہ ترکیب میں اپنے اسم وخبر سے ملکر کبھی فاعل، کبھی نائب الفاعل اور کبھی مفعول وغیرہ بنتاہے۔ جیسے: بَلَغَنِیْ أَنَّ زَیْداً شَاعِرٌ  (مجھے (خبر)پہنچی ہے کہ زید شاعر ہے) أُعْلِنَ أَنَّ زَیْداً
نَاجِحٌ(اعلان کردیاگیاکہ زید کامیاب ہے) ظَنَنْتُ أَنَّ زَیْداً جَاہِلٌ  (میراگمان تھاکہ زید جاہل ہے) ۔
۳۔ کَأَنَّ:(گویا کہ)
    یہ ایک شیئ کو دوسری شیئ کے ساتھ تشبیہ دینے کے لیے لایاجاتاہے۔ جیسے: کَأَنَّ زَیْداً قَمَرٌ  (گویا کہ زید چاند ہے) اسے ”حرفِ تشبیہ” بھی کہتے ہیں ۔
۴۔ لٰکِنَّ:(لیکن) 
    یہ استدراک کے لیے لایاجاتاہے۔ یعنی سابق کلام سے پیدا ہونے والے وہم کو دور کرنے کے لیے آتاہے۔ جیسے : غَابَ زَیْدٌ لٰـکِنَّ صَدِیْقَہ، حَاضِرٌ  ( زید غائب ہے لیکن اس کا دوست حاضر ہے)اسے ”حرف ِ استدراک”بھی کہتے ہیں۔
۵۔ لَیْتَ:(کاش)
    یہ کسی چیز کی تمنا (آرزو)ظاہر کرنے کے لیے آتاہے ۔ جیسے: لَیْتَ زَیْداً مَوْجُوْدٌ  (کاش! زید موجود ہوتا) اسے ”حرف تمنی” بھی کہتے ہیں۔
۶۔ لَعَلَّ: (شاید)
    یہ کسی چیز کی امید ظاہر کرنے کے لیے لایاجاتاہے۔جیسے: لَعَلَّ الْمَطَرَ یَنْزِلُ  (شاید با رش ہو )اسے ”حرف ِ ترجی” بھی کہتے ہیں ۔
1۔۔۔۔۔۔کسی جملے کے مسند کے مصدرکو مسند الیہ کی طرف مضاف کر دینے سے جو معنی حاصل ہوتاہے اسے ”مضمون جملہ”کہتے ہیں ۔جیسے:زَیْدٌ قَائِمٌ کامضمون جملہ ہے قِیَامُ زَیْدٍ۔ اگر مسند اسم جامد ہو تو اس کا مصدر جعلی بنا کر اسے مسند الیہ کی طرف مضاف کردیں گے۔ جیسے:زَیْدٌ سِرَاجٌ کا مضمون جملہ ہے:سِرَاجِیَّۃُ زَیْدٍ (زیدکا چراغ ہونا)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!