اسلام

۔۔۔۔۔حال کا بیان۔۔۔۔۔

حال کی تعریف:
     حال وہ اسم ہے جو فاعل یامفعول یا دونوں کی حالت فاعلی یامفعولی کو بیان کرے ۔ جیسے جَاءَ نِیْ زَیْدٌ رَاکِبًا (زید میرے پاس آیا اس حال میں کہ وہ سوار تھا)اس مثال میں رَاکِبًا حال ہے۔ اور یہ زَیْدٌ کی حالت فاعلی کو بیان کر رہاہے۔ ضَرَبْتُ زَیْدًا مَشْدُوْدًا  (میں نے زید کو مارااس حال میں کہ وہ بندھا ہوا تھا) اس مثال میں مَشْدُوْدًا حال ہے اور یہ زید مفعول کی حالت مفعولی کو بیان کر رہا ہے۔ 
نوٹ:
    جس کی حالت بیان کی جائے اس کو ذوالحال کہتے ہیں ، جیسے مذکورہ مثالوں میں زید ذوالحال ہے کیونکہ پہلی مثال میں اس کی حالت فاعلی اور دوسری مثال میں اس کی حالت مفعولی کو بیان کیا گیا ہے۔ 
حال کے چند ضروری قواعد:
    ۱۔ حال ہمیشہ نکرہ اورذوالحال اکثر معرفہ یا نکرہ مخصوصہ ہوتاہے۔ 
    ۲۔ اگر کبھی حال معرفہ ہوتو یہ نکرہ کی تاویل میں ہوگا۔ جیسے اٰمَنْتُ بِاللہِ وَحْدَہٗ  ( میں اللہ عزوجل پر ایمان لایا اس حال میں کہ وہ ایک ہے) اس مثال میں وَحْدَہٗ حال ہے جو کہ
معرفہ ہے لیکن یہ مُنْفَرِدًا کی تاویل میں ہے۔ اور مُنْفَرِدًا نکرہ ہے۔
    ۳۔ اگر ذوالحال نکرہ ہو تو حال کو اس پر مقدم کریں گے۔ جیسے جَاءَ نِیْ رَاکِبًا رَجُلٌ اس مثال میں رَاکِبًا رَجُلٌ کا حال واقع ہو رہا ہے۔ اوررَجُلٌ کیونکہ نکرہ ہے۔ اس لئےرَاکِبًا حال کو ذوالحال پر مقدم کیا گیا۔
    ۴۔ حال عموما اسم مشتق ہوتاہے لیکن کبھی اسم جامد بھی حال واقع ہوتاہے۔ جیسے کَرَّعَلِیٌّ أَسَدًا ۔ (علی نے شیر کی طرح حملہ کیا) اس مثال میں أَسَدًا حال واقع ہو رہا ہے جوکہ اسم جامد ہے۔ 
    ۵۔ کبھی جملہ خبریہ بھی حال واقع ہوتاہے۔ جیسے رَأَیْتُ الأَمِیْرَ وَ ھُوَ رَاکِبٌ  (میں نے امیر کو سواری کی حالت میں دیکھا)۔
    ۶۔ جب جملہ حال بن رہا ہوتو اس صورت میں حال اور ذوالحال کے درمیان تعلق پیدا کرنے کیلئے ایک رابطے کا ہونا ضروری ہے اور یہ رابطہ واؤ یا ضمیر یا دونوں ہوسکتے ہیں ۔ جیسے لاَ تَضْرِبِ الرَّجُلَ وَ ھُوَ مَظْلُوْمٌ  ( آدمی کو نہ مار اس حال میں کہ وہ مظلوم ہے )اس مثال میں تعلق کیلئے واؤ اور ضمير دونوں موجود ہیں ۔ اور کُنْتُ نَبِیًّا وَّآدَمُ بَیْنَ الْمَاءِ وَ الطِّیْنِ  (ميں نبی تھا اس حال ميں کہ آدم پانی اور مٹی کے درميان تھے) اس مثال میں تعلق پیدا کرنے کیلئے واؤ موجود ہے۔ ضَرَبْتُ زَیْدًا ھُوَ قَائِمٌ اس میں ھُوَ تعلق پیدا کرنے کیلئے موجود ہے۔
    ۷۔ حال کبھی جملہ فعلیہ ہوتاہے اورکبھی جملہ اسمیہ۔ اگر حال جملہ فعلیہ ہو اور ماضی ہو تو اس سے پہلے قَدْ کا ہونا ضروری ہے۔ جیسے جَاءَ الْمُصَلِّی وَقَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ  (نمازی آیا اس حال میں کہ جماعت کھڑی ہو چکی تھی)۔
    ۸۔ اگر حال مضارع ہو اور مثبت ہوتو اس میں صرف ضمیر کافی ہے۔ جیسے ذَھَبَ السَّارِقُ یَرْکَبُ (چور گیا اس حال میں کہ وہ سوار تھا) 
    ۹۔ کبھی کبھی حال کا عامل حذف کردیا جاتا ہے۔جیسے رَاشِدًا مَھْدِیًّا اصل میں سِرْ رَاشِدًا مَھْدِیًّا تھا پھر حال کے عامل سِرْکو حذف کردیا گیا۔ 
    ۱۰۔ اگر حال مفرد ہو تو واحد ،تثنیہ اورجمع اور تذکیر وتانیث میں ذوالحال سے مطابقت ضروری ہے۔ جیسے جَاءَ زَیْدٌ رَاکِبًا ،جَاءَ الرجلَانِ رَاکِبَیْنِ، جَاءَ تِ الْمَرْأَتَانِ رَاکِبَتَیْنِ     ۱۱۔ اگرجملہ خبریہ درمیان کلام یا آخر کلام میں معرفہ کے بعد واقع ہو تو وہ حال واقع ہوگا۔ جیسے رَجَعَ الْقَائِدُ ھُوَ مَنْصُوْرٌ  (قائد لوٹا اس حال ميں کہ وہ کامیاب تھا )۔
    ۱۲۔ مِنْ بیانیہ سے پہلے کوئی اسم معرفہ ہوتو وہ ذوالحال اور من بیانیہ اپنے مدخول سے مل کر حال بنے گا۔ جیسے فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ ۔ اس مثال میں أَلرِّجْسَ ذوالحال اور مِنْ الأَوْثَانِ حال ہے۔ 
    ۱۳۔ وَحْدَہٗ ،کا لفظ جہاں بھی آئے گا حال ہی بنے گا۔جیسے نَعْبُدُ اللہَ وَحْدَہٗ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!