اسلام
تواضع
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ تواضع بھی سارے عالم سے نرالی تھی، اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ اختیار عطا فرمایا کہ اے حبیب!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آپ چاہیں تو شاہانہ زندگی بسر فرمائیں اور اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمچاہیں تو ایک بندے کی زندگی گزاریں، تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بندہ بن کر زندگی گزارنے کو پسند فرمایا۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ تواضع دیکھ کر فرمایا کہ یا رسول اﷲ !(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ کی اس تواضع کے سبب سے اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ جلیل القدر مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام اولاد آدم میں سب سے زیادہ بزرگ اور بلند مرتبہ ہیں اورقیامت کے دن سب سے پہلے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی قبر انور سے اٹھائے جائیں گے اور میدانِ حشر میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے۔ (1) (زرقانی جلد۴ ص۲۶۲ و شفاء جلد۱ ص۸۶)
حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے عصاء مبارک پر ٹیک لگاتے ہوئے کاشانہ نبوت سے باہر تشریف لائے تو ہم سب صحابہ تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے یہ دیکھ کر تواضع کے طور پر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس طرح نہ کھڑے رہا کرو جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے رہا کرتے ہیں میں تو ایک بندہ ہوں بندوں کی طرح کھاتا ہوں اور بندوں کی طرح بیٹھتا ہوں۔(2) (شفاء شریف جلد۱ ص۸۶)
حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ حضور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی کبھی اپنے پیچھے سواری پر اپنے کسی خادم کو بھی بٹھا لیا کرتے تھے۔ ترمذی شریف کی روایت ہے کہ جنگ قریظہ کے دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سواری کے جانور کی لگام چھال کی رسی سے بنی ہوئی تھی۔(3) (زرقانی جلد۴ ص۲۶۴)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم غلاموں کی دعوت کو بھی قبول فرماتے تھے۔ جوکی روٹی اور پرانی چربی کھانے کی دعوت دی جاتی تھی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس دعوت کو قبول فرماتے تھے۔ مسکینوں کی بیمارپرسی فرماتے، فقراء کے ساتھ ہم نشینی فرماتے اور اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے درمیان مل جل کر نشست فرماتے۔ (1)(شفاء شریف جلد۱ ص۷۷)
حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے گھریلو کام خود اپنے دستِ مبارک سے کر لیا کرتے تھے۔ اپنے خادموں کے ساتھ بیٹھ کر کھاناتناول فرماتے تھے اور گھر کے کاموں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے خادموں کی مدد فرمایا کرتے تھے۔ (2) (شفاء شریف جلد۱ ص۷۷)
ایک شخص دربار رسالت میں حاضر ہوا تو جلالت نبوت کی ہیبت سے ایک دم خائف ہو کر لرزہ براندام ہو گیا اورکانپنے لگا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم بالکل مت ڈرو۔ میں نہ کوئی بادشاہ ہوں، نہ کوئی جبار حاکم، میں تو قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کی بوٹیاں کھایا کرتی تھی۔(3)
(زرقانی ج۴ ص۲۷۶ و شفاء جلد۱ ص۷۸)
فتح مکہ کے دن جب فاتحانہ شان کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے لشکروں کے ہجوم میں شہر مکہ کے اندر داخل ہونے لگے تو اس وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر تواضع اور انکسار کی ایسی تجلی نمودار تھی کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اونٹنی کی پیٹھ پر اس طرح سر جھکائے ہوئے بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاسر مبارک کجاوہ کے اگلے حصہ سے لگاہوا تھا۔(4) (شفاء جلد۱ ص۷۷)اسی طرح جب حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک لاکھ شمع نبوت کے پروانوں کے ساتھ اپنی مقدس زندگی کے آخری حج میں تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اونٹنی پر ایک پرانا پالان تھا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم انور پر ایک چادر تھی جس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی اسی اونٹنی کی پشت پر اور اسی لباس میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خداوند ذوالجلال کے نائب اکرم اور تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت سے اپنا شہنشاہی خطبہ پڑھا جس کو ایک لاکھ سے زائد فرزندان توحید ہمہ تن گوش بن کر سن رہے تھے۔(1) (زرقانی جلد۴ ص۲۶۸)
حضرت عبداﷲ بن عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نعلین اقدس کا تسمہ ٹوٹ گیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے اس کو درست فرمانے لگے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے دیجئے میں اس کو درست کر دوں، میری اس درخواست پر ارشاد فرمایا کہ یہ صحیح ہے کہ تم اس کو ٹھیک کر دو گے مگر میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں تم لوگوں پر اپنی برتری اور بڑائی ظاہر کروں، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو کسی کام میں مشغول دیکھ کر بار بار درخواست عرض کرتے کہ یارسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ خود یہ کام نہ کریں اس کام کو ہم لوگ انجام دیں گے مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہی فرماتے کہ یہ سچ ہے کہ تم لوگ میرا سب کام کر دو گے مگر مجھے یہ گوارا نہیں ہے کہ میں تم لوگوں کے درمیان کسی امتیازی شان کے ساتھ رہوں۔(2)
(زرقانی جلد۴ ص۲۶۵)