اسلام

دعا کے معانی اوران کی پہچان

    الف: جب ”دعا” کے بعد دشمنِ خدا کا ذکر ہو یا دعاکا فاعل کافر ہو یا دعا پر رب تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہو یا دعا کرنے والو ں کو رب تعالیٰ نے کا فر، مشرک، گمراہ فرمایا ہو تو دعا سے مراد عبادت ،پوجنا وغیرہ ہوگا نہ کہ محض پکارنا یا بلانا ۔
     ب: جب” دعا” کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو تو وہاں اس کے معنی پکارنا ، پوجنا، دعا مانگنا ہوگا حسب موقع معنی کئے جائیں گے ۔
”الف” کی مثال یہ ہے :
(1) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ
اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو خدا کے سواایسوں کو پوجے جو اس کی قیامت تک نہ سنیں ۔(پ26،الاحقاف:5)
(2) وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾
بے شک مسجد یں اللہ کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پوجو۔(پ29،الجن:18)
(3) ہُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادْعُوۡہُ
وہ ہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں بس اسے پوجو ۔(پ24،المؤمن:65)
    ان جیسی تمام آیات میں ”دعا” کے معنی پوجنا ہیں پکارنا یا بلانا نہیں۔معنی یہ ہوں گے کہ خدا کے سوا کسی کونہ پوجو۔ یہ مطلب نہیں کہ کسی کو نہ پکارویا نہ بلاؤ۔
”ب” کی مثال یہ آیات ہیں :
(1) اُدْعُوۡا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً
اپنے رب سے دعا مانگو عاجزی سے پوشیدہ ۔(پ8،الاعراف:55)
(2)  اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
دعا کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگتے ہیں ۔(پ2،البقرۃ:186)
    ان جیسی آیات میں دعاسے مراد دعا مانگنا بھی ہوسکتا ہے اور پوجنا بھی ، پکارنابھی، ایک ہی لفظ مختلف موقعوں پر مختلف معانی میں ہوتا ہے اگر بے موقع معنی کئے جاویں تو کبھی کفر لازم آجاتا ہے اس کی تحقیق پہلے باب میں دعا کے
بیان میں گزرچکی۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!