اسلام

فضائل طلب علم

فضائل طلب علم
(از حضرت  سید مقبول احمد شاہ قادری مدظلہٗ تعالیٰ )
اللہ عزوجل نے ہر مسلمان عاقل و بالغ پر خواہ مرد ہو یا عورت عبادت فرض کی ہے ، مگر یہ عبادت موقوف ہے علم دین سیکھنے پر بندوں علم دین عبادت کیونکر ہوسکتی ہے ؟ لہٰذا علم دین سیکھنا فرض ہوا، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے،
ماکان المومنین لینفروا کافۃ فلولا نفرمن کل فرفۃ طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا لعلھم یحدزون۔
ترجمہ:  یعنی مسلمانوں کو زیبا نہیں کہ سب کے سب باہر جاویں ، پس کیوں نہیں ہر فرقہ میں سے ایک ٹکڑا جاتا اور فقہ دین حاصل کرتا تاکہ عذاب الٰہی کا ڈر سنائیں اپنی قوم کو جب وہ لوٹ کر اپنے پاس آئے ،
اس امید سے کہ سب اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے پرہیز کریں ، اس آیۂ کریم کے درمیان اللہ پاک نے بعضے مسلمانوں کو باہر جانا فرض کردیا خواہ جہاد کے لئے ہو یا علم دین سیکھنے کے لئے ، اور جہاد میں بھی علم دین سیکھتے تھے ، کیونکہ قرآن مجید کے نزول کا زمانہ تھا،

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس آیۂ کریم سے ظاہر ہے کہ طلب علم میں دین ہی کے لئے باہر جانا ہوا ، اللہ پاک نے بعضے مسلمانوں پر باہر جاکر علم دین حاصل کرنا فرض کردیا، جب یہ علماء اپنی قوم کی طرف لوٹ آئیں تو ان لوگوں پرجو وطن اور گھروں میں مقیم ہیں ان علماء کی اتباع ، اوقتداء اور تقلید فرض کردیا، یعنی یہ علماء جو مسائل شرعی ان لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں ان پر ان کو عمل کرنا فرض ہوا اور اس سیکھنے اور سکھانے سے اللہ پاک کی وہ عبادت جو سب پر فرض ہے کمال خوبی کے ساتھ ادا ہوجائے گی
، مذکورئہ بالاآیۂ کریم میں علم دین سیکھنا اور مجتہیدیں کی تقلید کرنا فرض کردیا ، دوسری جگہ اللہ تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں:  فاسئلوا ھل الذکر ان کنتم لا تعلمون ۔

یعنی پوچھو یاد رکھنے والوں سے اگر تم کو معلوم نہیں ، یاد رکھنے والوں سے مراد مجتہدین عظام ہیں، جو قرآن و حدیث کے ماہراور جاننے وا لے ہیں ، نہ یہ مذہب جو مشکوٰۃ شریف کے ایک جزوی ترجمہ سے 
بھی پوری طرح واقف نہیں ۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم طلب علم کے فضائل کے متعلق

فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے : 
من سلک طریقاً یطلب فیہ علماً سلک اللہ بہ طریقاً الی الجنۃ ۔ (مسلم )
یعنی جو شخص چلے ایک راستہ کہ طلب کرے اس میں علم ، اللہ پاک چلادے اس کو جنت کی راہ ، اور فرمایا فرشتے طلب علم کے کام سے خوش ہوکر اپنے بازوؤں کو اس کے لئے بچھاتے ہیں ۔ ( مسند امام احمد و حاکم )۔
اور فرمایا اگر تو کوئی علم کا باب سیکھے تو اس سے بہتر ہے کہ (100)سو رکعت نفل پڑھے ، ( ابن عبدالبر )، اور فرمایا آدمی کو علم کا کوئی باب سیکھنا اس کے حق میں دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے ، ( ابن حبان ) ، فرمایا:
طلب العلم فریضۃٌ علی کل مسلمٍ ۔ ( ابن ماجہ )

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، اور فرمایا علم طلب کرو اگر چین میں ہو یعنی بہت دور ، اور فرمایا کہ علم وہ خزانہ ہے کہ جس کی کنجیاں سوال ہیں ، پس علم کا سوال کرو ، کہ اس میں چار اشخاص کو ثواب ملتا ہے ، اول سوال کرنے والے کو ، دوسرے عالم کو ، تیسرے سننے والے کو ، چوتھے اس کو جو ان سے محبت رکھتا ہو ، (ابونعیم ) ، فرمایا جاہل کو نا چاہئے کہ اپنے جہل پر خوموش بیٹھے رہے اور نہ عالم کو اپنے علم پر خاموش رہنا چاہئے ، یعنی جاہل کو رفع جہالت کے لئے سوال کرنا چاہئے اور عالم کو اس کا جواب دینا چاہئے ، ( طبرانی و ابو نعیم ) حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ کی حدیث میں ارشاد ہے کہ مجلس علم میں حاضر رہنا ہزار رکعتیں پڑھنے سے اور ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں میں شرکت کرنے سے بہترہے، پس کسی نے عرض کیا کہ قرآن تلاوت کرنے سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا قرآں بدوں علم کے کب مفید؟ ( ابن جوزی ) اور فرمایا جس شخص کو موت آئے کہ وہ اسلام کو زندہ کرنے کے لئے علم سیکھتا ہے تو اس کا اور انبیاء کا درجہ جنت میں ہوگا ، ( دارمی )

آثار طلب علم کے فضائل کے متعلق 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں طالب علم تھا ذلیل تھا ، اب جو میرے پاس لوگ سیکھنے لگے تو عزت والا ہوگیا ، اور اسی طرح ابن ملیکہ نے کہا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مثل کسی کو نہیں دیکھا ، صورت کو دیکھو تو سب سے اچھی ، اگر گفتگو کریں تو سب سے فصیح اور فتویٰ دیں تو سب سے زیادہ علم والا معلوم ہوتا ہے، ابن مبارک فرماتے ہیں مجھ کو تعجب ہوتا ہے اس شخص پر جو علم کا طالب نہ ہو کہ اس کا نفس اس کو کسی بزرگی کی طرف کیسے بلاتا ہے ؟ بعض حکما کا قول ہے کہ ہم جتنا دو شخصوں پر ترس آتا ہے اور کسی پر نہیں آتا ایک تو اس پر کے علم کا طلب کرتا ہے اور سمجھتا نہیں ، اور ایک اس پر کہ علم سمجھتا ہے مگر اس کی طلب نہیں کرتا، حضرت ابو دردا ء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں ایک مسئلہ سیکھوں تو میرے نزدیک تمام رات کی شب بیداری سے اچھا ہے ، اور یہ بھی انہی کا قول ہے کہ عالم اور طالب علم خیر میں شریک ہیں اور دوسرے لوگ بے سود ہیں ، ان میں کسی کی بہتری نہیں ، اور یہ بھی انہی کا ارشاد ہے ، عالم ہو یا طالب علم یا سننے والا ان تین کے سوا چوتھا مت ہو، ورنہ ہلاک ہوجائے گا ، اور حضرت عطاء کا قول ہے ایک علم کی مجلس ستر مجلس لہو کا کفارہ ہوتی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہزار شب بیدار و ہزار روزہ وار عابدوں کا مرجانا ایسے عالم کے مرنے سے کم ہے جو خدائے تعالیٰ کے حلال و حرام کا ماہر ہو۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

حضرت امام شافعی فرماتے ہیں : علم کا طلب کرنا نفل پڑھنے سے افضل ہے ، اور ابن عبد الحکم نے کہا ہے کہ میں حضرت امام مالک رضی اللہ کے پاس سبق پڑھتا تھا کہ ظہر کا وقت آیا ، میں نے اپنی کتاب نماز پڑھنے کے لئے تہ کی ، آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے فلاں جس کے لئے تو اٹھا ہے وہ اس سے بہتر نہیں ہے ، جس میں تو تھا ، بشرطیکہ نیت درست ہو، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس کی یہ تجویز ہو کہ طلب علم جہاد نہیں ہے ، وہ اپنی عقل اور تجویز میں ناقص ہے۔

لوگوں کو علم دین سیکھانے کے متعلق

اللہ عزوجل کا ارشاد :
ولینذر واقوقھم اذا رجعو الیھم لعلھم یحذرون ، 
یعنی ڈرائیں اپنی قوم کو جب وہ ان کی طرف لوٹ آئیں تاکہ وہ بچتے رہیں ، وہ علماء جب علم حاصل کر کے اپنی قول اور وطن کو لوٹ آئیں گے تو لوگوں کو علم دین کے تعلیم دیں گے ، اللہ پاک کی عبادت کی ترغیب دیں گے، اللہ پاک کے قہر و عذاب سے ڈرائیں گے ، علماء پر لوگوں کو علم دین سکھانا اور تبلیغ فرض ہوا ، ارشاد ہے :
واذا اخذ اللہ میثاق الذین اوقو الکتب لیتبیۃ للناس ولا تکتموانہ،
یعنی اللہ پاک نے ان لوگوں سے جن کو کتاب دی وعدہ لیا کہ لوگوں میں اس کو بیان کریں اور نہ چھپائیں اسکو لوگوں سے ، اس آیۂ کریم میں علم دین لوگوں کو سکھا اور اس کا فرض ہونا مذکور ہے پھر ارشاد ہوتا ہے:
وان فریقاً منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون۔
البتہ ان میں ایک فرقہ جان بوجھ کر حق کو چھپاتا تھا، اس آیۂ کریم میں اللہ عزوجل نے علم دین چھپانے کی حرمت بیان فرمائی ، پھر ارشاد ہوتا ہے:
ومن یکتمھا فانہ اثم قبلہ۔
یعنی جو کوئی اس شہادت کو چھپائے بے شک اس کا دل گناہ گار ہے، اور فرمایا :
ومن احسن قولاً ممن ۔۔۔۔۔الی اللہ وعمل صالحاً۔
یعنی اس سے بہتر قول کس کا ہوسکتا ہے جس نے بلایا اللہ کی طرف اور کیا نیک کام ، پھر فرماتے ہیں۔
ادع الی الاسبیل ربک بالحکمت والمواعظۃ الحسنہ۔
یعنی بلاؤ لوگو ں کو اپنے رب کی طرف حکمت اور نصیحت کے ساتھ ، اور فرمایا:
ویعلمھم الکتٰب والحکمت۔
یعنی سکھانا ان کو کتاب اور عقلمندی ۔

احادیث نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم تعلیم علم کے متعلق فضائل 

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے : اللہ تعالیٰ نے جب کسی عالم کو تو اس سے وعدہ بھی لے لیا ہے جو نبیوں سے لیاہے، کہ اس لوگوں میں بیان کرو اور نہ چھپاؤ اس کو لوگوں سے ، ( ابو نعیم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا:

لان یھدی اللہ بک رجالاً واحداً خیراً لک من الدنیا وما فیھا۔
( مسند امام احمد اور بخاری مسلم نے بھی یہی مضمون حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت کیا ہے) یعنی اگر تیرے سبب سے خدا تعالیٰ ایک آدمی کو ہدایت کرے تو یہ تیرے حق میں دنیا اور اس کے درمیان کے چیزوں سے بہترہے ، اور فرمایا جو شخص علم کا ایک باب اس لئے سیکھے کہ لوگوں کو سکھاوے تو اس کو ستر نبیوں ، صدیقوں کا ثواب دیا جائے گا۔ ( ابو منصور دیلمی )
اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ السلام نے ارشاد فرمایا : جو شخص عالم ہو علم کے بموجب عمل کرتا ہو اور لوگوں کو علم سکھائے وہ آسمان اور زمین کے ملکوت میں عظیم کہلاتا ہے ۔ ( ابوالعباس )
نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا ارشاد ہے ، جب قیامت کا دن ہوگا اللہ تعالیٰ عبادت کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں سے ارشاد فرمائے گا کہ جنت میں جاؤ ، عالم عرض کریں گے کہ الٰہی انہوں نے ہمارے علم کے طفیل سے عبادت اور جہاد کیا یعنی شایان اکرام ہم ( علماء ) ہیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا تم میرے نزدیک میرے بعض فرشتوں کے مثل ہو ، تم شفاعت کرو ، تمہاری شفاعت منظور ہوگی ، پس وہ سفارش کریں گے پھر جنت میں داخل ہوں گے ، اور یہ رتبہ اس علم کا ہے جو تعلیم سے دوسروں کو پہنچے ، اور اس علم کا نہیں جو فقط اس شخص کے ساتھ رہے دوسروں کو نہ پہنچے، اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے :
ان اللہ عزوجل لاینزع العلم انزاعاً من الناس بعد ان یوتھم ایاہ ولکن یذھب بذھاب العلماء ذھب عالم ذھب بما معہ من العلم حتیٰ اذالم یبق الارؤساء جھالا ان سئلوا افتوا 
بغیر علم فیضلون ویضلون ، ( بخاری ، مسلم )
یعنی اللہ اللہ پاک لوگوں سے علم چھین نہیں لیتا ، مگر علماء کو لے جانے سے علم بھی چلاجاتا ہے ، پس جب کوئی عالم چلا جاتا ہے تو اس کے ساتھ علم بھی چلا جاتا ہے ، یہاں تک بجز جاہل سرداروں کے اور کوئی نہیں رہتا ، اور ان سے لوگ پوچھتے ہیں تو بے علمی ہے فتویٰ دیتے ہیں خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔
فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے :
من علم علماً فکتمہ الجمہ اللہ یوم القیامت بلجام من نار۔
یعنی جو شخص کوئی علم سیکھے اس کو چھپائے اللہ تعالیٰ اس کو آگ کی لگام قیامت کے دن دیگا ، اور فرمایا خوب عطا عمدہ ہدیہ کلمہ حکمت ہے ، کس کو تو سنے اور یاد رکھے تو ایک سال کی عبادت کے برابر ہے، ( طبرانی ) اور فرمایا:
الدنیا ملعونۃ ملعون مافیھا لاذکر اللہ سبحانہ وما والاہ او معلماً او متعلماً۔
یعنی دنیا ملعون ہے اور جو چیز اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے ، مگر ذکر اللہ پاک کا اور کو اس کے قریب ہو ، علم دین کی تعلیم دینے والا اور علم دین سیکھنے والا ، اور فرمایا:
ان اللہ سبحانہ ملائکتہ واھل السمواتہ وارضہ حتٰی النملہ فی حجرھا و حتٰی الحوت فی البحر یصلون علیٰ معلم الناس الخیر ۔ 
یعنی اللہ سبحان تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور اس کے آسمان زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی دریا میں رحمت بھیجتے ہیں ، اس پو جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دے ۔ ( ترمذی )
اور فرمایا مسلمان اپنے بھائی کو اس سے بڑھ کر کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا ہے جو عمدہ بات اس نے سنی ہو وہ دوسرے کو بھی سنادے ۔ ( ابن عبد البر )
اور فرمایا ایماندار اگر ایک کلمہ خیر سنے اور اس کے موجب عمل کرے تو اس کے حق میں ایک برس کی عبادت سے بہتر ہے ۔ ( ابن مبارک )

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم باہر تشریف لائے ، دومجلسوں کو دیکھا ایک اللہ تعالیٰ سے دعا چاہتی تھی اور اس کی طرف راغب تھی دوسری لوگوں کو کچھ تعلیم دیتی تھی ، آپ نے ارشاد فرمایا : مجلس اول کے لوگ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں اگر وہ چاہے تو ان کو دے اور چاہے نہ دے، مگر دوسری مجلس والے لوگوں لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں اور مجھ کو بھی اللہ پاک نے تعلیم دینے والا ہی بناکر بھیجا ہے ، پھر آپ تعلیم دینے والی مجلس میں بیٹھ گئے ، ( ابن ماجہ ) فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے :

مثل ما بعثنی اللہ عزوجل بہ من الھدی والتعلیم کمثل الغیث اصاب ارضاً وکانت منھا بقعتہ قبلت المائء فانبتت الکلاء والعتب الکثیر وکانت منھا بقعتہ امسکت الماء فینفع اللہ عزوجل بھا الناس فشربوا منھا و ستعوا وزرعوا وکانت منھا بقعۃ قیعان لا تمسک الماء ولا تنیت کلاء۔
یعنی مثال اس چیز کی کہ خدائے تعالیٰ نے مجھے دیکر بھیجا ہے ، یعنی ہدایت اور تعلیم کی ایسی مثال ہے کہ بہت سی بارش کسی زمین پر برسی اور اور اس میں ایسا ایک ٹکڑا ہے کہ پانی کو جذب کرتا ہے اورگھاس اور لکڑی بہت اگاتا ہے ، اور ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ پانی کو روکے رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس پانی سے نفع پہنچاتا ہے کہ خود پئے اور زراعت کرے اور ایک ٹکڑا ایسا ہے نہ پانی کو روکتا ہے نہ اس میں گھاس یا اور کوئی چیز پیدا ہوتی ہے ، ( بخاری ، مسلم )اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علماء کو تین قسم پر تقسیم فرمائی ہے ،ایک جماعت وہ ہے جو اپنے علم کے مطابق خود عمل کریمگر دوسروں کو تعلیم نہ دے ، دوسری جماعت وہ ہے جو خود اپنے علم کے مطابق عمل بھی کرے اور دوسروں کو تعلیم بھی دے ، یہ جماعت سب سے بہتر ہے ، تیسری جماعت وہ ہے جو نہ خود اپنے علم کے مطابق عمل کرے نہ دوسروں کو تعلیم حق دے ، یہ سب سے بدتر ہے ، اور فرمایا:
اذا مات ابن آدم انقطع عملہ الامن ثلٰث علم ینتفع بہ اوصدقہ جاریہ اودلد صالح یدعو لہ بالخیر۔
یعنی جب مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ، مگر تین چیزیں باقی رہتی ہیں ، ایک علم کہ اس 
سے فائدہ اٹھایاجاتا ہے یاصدقہ جاریہ یا اولاد صالحہ جو ماں باپ کے لئے دعائے خیر کرے ۔ ( مسلم ) اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ زندوں کی طرف سے مردوں کو ایصال ثواب پہنچتا اور نفع کرتا ہے، ورنہ ترغیب دلانے سے کیا فائدہ؟ بلکہ اس بارے میں نض صریح ہے ، ابوداؤد ، ترمذی شریف کی حدیث ، چنانچہ حضرت سعید بن عبادہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ میری ماں کا انتقال ہوا ہے ، اس نے کچھ وصیت نہیں کی ان کے لئے کیا صدقہ بہتر ہے ؟ ارشاد ہوا : الماء ، یعنی پانی تب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کنواں کھدوایا اور فرمایا ھذا البیرلام سعد
یعنی یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے، یہ کنواں مدینہ طیبہ کے اندر بہت زمانے تک موجود تھا ، اس کنوئیں کا پانی صحابہ اور تابعین  پئے ، یہ کنواں غیر اللہ کے نام سے پکارا گیا ، العیاذ باللہ صحابہ اور تابعین بد مذہب مرتد وہابیہ کے نزدیک حرام و ناپاک اور نجس پانی پیا ، خدا اس مرتد فرقہ کو غارت کرے ، یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ہوا اگر اس کنوئیں کا پانی حرام ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کنویں کا پانی پینے سے منع فرماتے ، منع فرمانا تو درکنار بلکہ ایسے کا رخیر کے لئے بہت ترغیب دلائے ، یہاں پر اس کا ذکر اتفاقاً آیا ہے ، یہ وقت اس کی ذکر کا نہیں ہے حلال خدا کو حرام کرنا اپنے طرف سے ، بدمذہب وہابیہ کا کام ہے ، اس لئے ان کو مسجدوں سے کتّوں کی طرح نکال دیتے ہیں ، یہ ذلت اور رسوائی ان کے لئے دنیا میں ہے ، آخرت میں وہابیہ جہنمیوں کے کتّے بن کر رہیں گے ۔
فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے :
ادال الخیر کفا علہٖ
نیک کام بتانے والا ، نیک کام کرنے کے برابر ہے ۔
 لا یحسدا لافی اثنین رجل آتاہ اللہ عزوجل حکمتا نھو یقضی بھا ویعلمھم الناس ورجل آتاہ اللہ مالا فسلطہ علٰی تھلکۃ فی الخیر ۔ ( ترمذی ، مسلم )
یعنی دوشخصوں پر حسد کیا جاتا ہے ،ایک وہ جو اللہ پاک نے علم وحکمت عطا کیا ہے اور وہ اس کے 
مطابق عمل کرتا اور لوگوں کو سکھاتا ہے دوسراوہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے اور وہ اس کو نیک کاموں میں خرچ کرتا ہو اور فرمایا میرے نائبوں پر خدا تعالیٰ کی رحمت ہو،لوگوں نے ریض کیا کہ آپ کے نائب کون ہیں ؟ وہ لوگ جو میرے طریقہ کو پسند کرتے ہیں ، اور خدا کے بندوں کو سکھاتے ہیں ۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!