واقعات

بادشاہوں کی کھوپڑیاں

حکایت نمبر:331 بادشاہوں کی کھوپڑیاں

حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن عبدا للہ خُزَاعِی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے: ایک مرتبہ عظیم سلطنت کے عظیم بادشاہ حضرتِ سیِّدُناذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃُ ربِّ الکَوْنَیْن ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جن کے پاس دنیوی سازو سامان وغیرہ کچھ بھی نہ تھا۔ انہوں نے ایک جگہ بہت سی قبر یں کھودی ہوئی تھیں، صبح سویرے ان قبروں کے پاس جاتے، انہیں صاف کرتے اور ان کے قریب ہی نماز پڑھتے۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ان کی غذ ا درختوں کے پتے اور گھاس تھی۔ جنگل میں ان کے لئے گھاس اور سبزہ وافر مقدار میں موجود تھا وہ اسے کھا کر اور تالابوں کا پانی پی کر گزارہ کرتے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرتے۔حضرتِ سیِّدُنا ذُوالْقَرْنَیْن علیہ رحمۃ ربِّ الکَوْنَیْن نے ان کے سردار کو پیغام بھیجا کہ ہم سے آکر ملو۔قاصد نے بادشاہ کا پیغام دیا تو سردار نے کہا: ”ہمیں ان سے ملنے کی کوئی حاجت نہیں۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کویہ جواب ملا توخود سردار کے پا س گئے اور کہا:” میں نے تمہاری طر ف پیغام بھیجا کہ ہم سے آکر ملو لیکن تم نے انکار کردیا تو میں خود ہی تمہارے پاس چلا آیا۔”
سردار نے کہا:” اگر مجھے آپ سے کوئی حاجت ہوتی تو میں ضرور آپ کے پاس آتا، نہ مجھے آپ سے کوئی حاجت تھی نہ میں آیا ۔” حضرتِ سیِّدُناذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃ ربِّ الکَوْنَیْن نے کہا:” کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں ایسی خستہ حالت میں دیکھ رہاہوں کہ کسی
قوم کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا؟” سردار نے کہا :” آپ نے ہمیں کس حالت میں دیکھا۔” کہا :” تمہارے پاس دنیوی ساز وسامان میں سے کچھ بھی نہیں، تم لوگ سونا وچاندی حاصل کر کے اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟” سردار نے کہا: ”ہمیں دنیوی مال ودولت سے نفرت ہے کیونکہ جب بھی کسی شخص کو یہ چیزیں ملیں اس کے نفس نے لالچ کیا اور ان سے بھی اچھی چیزوں کا مطالبہ شروع کردیا ۔”حضرتِ سیِّدُناذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃ ربِّ الکَوْنَیْن نے کہا:” میں نے دیکھا کہ تم لوگو ں نے قبریں بنا رکھی ہیں، روزانہ وہاں جھاڑو دے کر نماز پڑھتے ہو ، تمہارے اس عمل کی کیا وجہ ہے؟” کہا:” ان قبروں کودیکھ کرہم عبرت حاصل کرتے ہیں ، انہیں دیکھ کر ہماری لمبی لمبی امید یں ختم ہوجاتی ہیں اور یہ ہمیں سامانِ عبرت مہیا کرتی ہیں ۔”
حضرتِ سیِّدُنا ذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃ ربِّ الکَوْنَیْن نے کہا:” کیا وجہ ہے کہ تم لوگ گھاس اورپَتّے بطورِ غذا استعمال کرتے ہو؟تم جانور کیوں نہیں پالتے کہ ان کا گو شت کھاؤ، دودھ پیؤاور دیگر فوائد حاصل کرو ؟” سردارنے کہا:”ہم وہ نہیں کہ ہمارے پیٹ ان کی قبر بنیں، ہم نے زمین پر گھاس اور سبزہ دیکھا تو اسی کو اپنی غذا بنالیا ۔ ابن آدم کو جینے کے لئے اس قدر غذا کافی ہے ، لذیذ وعمدہ کھانوں کا مزہ صرف زبان کی حد تک ہوتا ہے جیسے ہی غذا حلق سے نیچے جاتی ہے تمام مزہ ختم ہوجاتا ہے ۔”پھر سردار نے قبر سے ایک بوسیدہ کھوپڑی نکالی اور کہا :” اے عظیم بادشاہ! کیاآپ جانتے ہیں کہ یہ کون ہے ؟”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” نہیں۔”

سردار بولا:” یہ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے حکومت وطا قت عطا فرمائی ، لوگوں پر اسے حاکم بنایا لیکن اس نے مخلوقِ خدا پر ظلم کیا اور بلاوجہ انہیں تنگ کیا۔ جب اس کی سرکشی بڑھی تو موت کے ذریعے اس کی گرفت ہوئی پھر یہ پھینکے ہوئے بے جان پتھر کی طر ح بے بس ہوگیا ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے تمام کاموں سے واقف ہے، اب اس کے ہر عمل کا بدلہ قیامت کے دن دیا جائے گا ۔”

؎ جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُونے
کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تو نے
جو آباد تھے وہ مکاں اب ہیں سُونے
جگہ جی لگانے کی دُنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے لا مکاں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشان کیسے کیسے
زمین کھا گئی نوجوان کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

سردار نے ایک اور کھوپڑی اٹھائی اور کہا :” اے عظیم بادشاہ!کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کس کی کھوپڑی ہے ؟” حضرتِ سیِّدُناذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃ ربِّ الکَوْنَیْن نے کہا :” بتاؤ! یہ کون ہے ؟” کہا:” یہ بھی ایک بادشاہ تھا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے حکومت وبادشاہت عطا فرمائی اس نے جب دیکھا کہ مجھ سے پہلے جن بادشاہوں نے ظلم وستم سے کام لیا اور سر کشی اختیار کی وہ ذلیل وخوار ہوئے ، تو اِس نے ان سے عبرت حاصل کی ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عاجزی وانکساری اختیار کی ، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرا، اپنے ملک میں عدل وانصاف قائم کیا اور شریعت کی پابندی کرتے ہوئے اس دنیائے ناپائیدار سے رخصت ہوگیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے تمام اعمال سے باخبر ہے۔ وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّین بر وزِ قیامت اسے اس کے اعمال کا بدلہ عطا فرمائے گا ۔ پھر سردار نے حضرتِ سیِّدُنا ذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃ ربِّ الکَوْنَیْن کے سرکی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا: ” یہ بھی ان دونوں (کھوپڑیوں )کی طرح ہے۔ اے ہمارے عظیم بادشاہ! غور فرمالیں کہ آپ کا عمل اپنی رعایا کے ساتھ کیسا ہے ؟”
؎ قبر میں میت اُترنی ہے ضرور
ہیں۔” سردار نے کہا : ”اے عظیم بادشاہ! دنیوی مال ومتاع ، حکومت وسلطنت کی وجہ سے ،اوراسی دنیوی دولت کے حصول کی خاطر وہ آپ کے دشمن ہو گئے ہیں ۔ اور میرے پاس ایسی کو ئی چیزنہیں جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے دشمنی کریں ۔ نہ لوگو ں سے مجھے واسطہ پڑتاہے اور نہ ہی وہ میرے دشمن بنتے ہیں۔ مجھے میری یہی زندگی پسند ہے۔”
سمجھ دار ومخلص سردارکی یہ باتیں سن کر عظیم بادشاہ حضرتِ سیِّدُنا ذُو الْقَرْنَیْن علیہ رحمۃُ ربِّ الکَوْنَیْن وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اعمالِ صالحہ کی تو فیق عطا فرمائے ،دنیوی غموں اور پریشانیوں سے نجات اور فکرِ آخرت عطا فرمائے۔
( میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت میں ہمارے لئے عبرت کے بے شمار مدنی پھول ہیں ، انسان کو گر دو پیش کے ماحول سے عبرت حاصل کرتے رہنا چاہے، سمجھدار وہی ہے جو موت سے پہلے اُس کی تیاری کرلے ، دنیوی زندگی بے حد مختصر ہے۔ ہر سانس موت کو ہم سے قریب کرتا جارہا ہے ، جیسے ہی سانس کی مالا ٹوٹی ہمارا سلسلۂ عمل منقطع ہوجائے گا ،پھر حسرت وافسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا ، اتنی بھی مہلت نہ دی جائے گی کہ ایک مرتبہ”سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ” کہہ کر اپنی نیکیوں میں اضافہ کرلیں۔ بس پھر ہم ہوں گے اور ہمارے اعمال ۔ ہر ذی شعور پر یہ بات روزِ روشن کی طر ف عیاں ہے کہ وقت کا ضیاع باعث ِ ندامت ہے، سمجھ دار لوگ کبھی بھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں موت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)
؎ کچھ نیکیاں کما لے جلد آخرت بنا لے
کوئی نہیں بھر وسہ اے بھائی زندگی کا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! فکرِ آخرت کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ”دعوتِ اسلامی” کے مدنی ماحول سے وابستگی بھی ہے۔ اپنے اپنے شہروں میں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وارسنتو ں بھرے اجتماع میں پابندیئ وقت کے ساتھ شرکت فرما کر خوب خوب سنتوں کی بہاریں لُوٹئے۔ سنتوں کی تربیت کے بے شمار مدنی قافلے شہر بہ شہر،گاؤں بہ گاؤں سفر کرتے رہتے ہیں،آپ بھی سنتوں بھرا سفر اختیار فرما کراپنی آخرت کے لئے نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں۔ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ اپنی زندگی میں حیرت انگیز طور پر مدنی انقلاب برپا ہوتا دیکھیں گے۔ )
؎ اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو !
( آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم)جیسی کرنی ویسی بھرنی ہے ضرور
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب اس سردار کی فکر ِ آخرت سے مَمْلُو(یعنی بھری ہوئی) حکیمانہ گفتگو سنی تو کہا:”کیا تم میرے ساتھ رہنا پسند کر و گے ، میں تمہیں اپنا وزیر بناؤں گا ، میرے تمام معاملات میں تم میرے ساتھ رہوگے ، جو مال ودولت میرے پاس ہے اس میں تم میرے برابر کے شریک رہوگے۔” سردار نے کہا :” اے ہمارے عظیم بادشاہ! آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں اورمیں اپنی جگہ۔ ہم دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” آخر اتنے بڑے عہدے سے تم اِعراض کیوں کررہے ہو ؟” سردار نے کہا : ”اس لئے کہ تمام لوگ آپ کے دشمن اور میرے دوست ہیں۔”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا : ” لوگ میرے دشمن کیوں

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!