بادشاہ کی توبہ
حکایت نمبر460: بادشاہ کی توبہ
حضرتِ سیِّدُنا ابو بَکرْقُرَشِی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: میں نے حضرتِ سیِّدُناعَبَّادبن عَبَّاد مُہَلَّبِی کو ارشاد فرماتے سنا: ”بصرہ کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے امورِ سلطنت کو خیر باد کہہ کر زُہدوتقویٰ کی راہ اختیار کرلی مگر پھر دوبارہ سلطنت وحکومت کی طرف مائل ہوا اور دنیا کا عیش وعشرت طلب کرنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ، اس نے ایک شاندار محل بنوایا اس میں اعلیٰ قسم کے قالین بچھوائے اور ہر طرح کے سازوسامان سے اس عظیم ُالشان محل کو آراستہ کرایا،اور ایک کمرہ مہمانوں کے لئے خاص کر دیا،
وہاں عمدہ بستر بچھائے جاتے، انواع واقسام کے کھانے چُنے جاتے۔ بادشاہ لوگوں کو بلاتاتووہ عظیم ُ الشان محل اور بادشاہ کی ٹھاٹ باٹ(یعنی شان وشوکت) دیکھ کر تعریف وخوشامد کرتے ہوئے واپس چلے جاتے ۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رہا، بادشاہ مکمل طور پر دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو چکا تھااس کے اس عظیم الشان محل میں ہر طرح کے آلاتِ موسیقی اور لہوو لعب کا سامان تھا۔وہ ہروقت دنیوی مشاغل میں مگن رہتا۔ ایک دن اس نے اپنے خاص وزیروں ،مشیروں اور عزیزوں کو بلاکر کہا: ”تم اس عظیم الشان محل میں میری خوشیوں کو دیکھ رہے ہو، دیکھو! میں یہاں کتنا پُر سکون ہوں،میں چاہتا ہوں کہ اپنے تمام بیٹوں کے لئے بھی ایسے ہی عظیم الشان محلات بنواؤں، تم لوگ چند دن میرے پاس رُکو، خوب عیش کرو اور مزید محلات بنانے کے سلسلے میں مجھے مفید مشورے دو، تاکہ میں اپنے بیٹوں کے لئے بہترین محلات بنانے میں کامیاب ہوجاؤں ۔”
چنانچہ، وہ لوگ اس کے پاس رہنے لگے۔ دن رات لہو ولعب میں مشغول رہتے اور بادشاہ کو مشورہ دیتے کہ اس طرح محل بنواؤ، فلاں چیز اس کی آرائش کے لئے منگواؤ، فلاں معمار سے بنواؤ، الغرض روزانہ اسی طرح مشورے ہوتے اور عظیم ُالشان محلات بنانے کی ترکیبیں سوچی جاتیں۔ ایک رات وہ تمام لوگ لہوولعب میں مشغول تھے کہ محل کی کسی جانب سے ایک غیبی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ کوئی کہنے والا کہہ رہاتھا :
یَا اَیُّہَا الْبَانِیُّ النَّاسِیُّ مَنِیَّتَہ،
لَا تَاْمُلَنْ فَاِنَّ الْمَوْتَ مَکْتُوْبُ
عَلَی الْخَلَائِقِ اِنْ سَرُّوْا وَاِنْ فَرِحُوْا
فَالْمَوْتُ حَتْفٌ لِذِی الْآمَالِ مَنْصُوْبُ
لَا تَبْنِیَنْ دِیَارًا لَسْتَ تَسْکُنُہَا
وَرَاجِعِ النُّسْکَ کَیْمَا یُغْفَرُ الْحُوْبُ
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔اے اپنی موت کو بھول کر عمارت بنانے والے! لمبی لمبی امیدیں چھوڑ دے کیونکہ موت لکھی جاچکی ہے ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ لوگ خواہ خود ہنسیں یا دوسروں کو ہنسائیں، بہرحال موت ان کے لئے لکھی جاچکی ہے اور بہت زیادہ امید رکھنے والے کے سامنے تیار کھڑی ہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ایسے مکانات ہرگز نہ بنا جن میں تجھے رہنا ہی نہیں تو عبادت وریاضت اختیار کر، تا کہ تیرے گناہ معاف ہوجائیں۔
؎ دِلا غافل نہ ہو یکدم، یہ دُنیا چھوڑ جانا ہے
باغیچے چھوڑ کر خالی، زمین اندر سمانا ہے
تو اپنی موت کو مت بھول، کر سامان چلنے کا
زمیں کی خاک پر سونا ہے، اینٹوں کا سرہانا ہے
جہاں کے شَغْل میں شاغل، خدا کے ذکر سے غافل
کرے دعوی کہ یہ دنیا، مِرا دائم ٹھکانا ہے
غلامؔ اک دَم نہ کر غفلت، حیاتی پر نہ ہو غُرَّہ
خداکی یاد کر ہر دم، کہ جس نے کام آنا ہے
اس غیبی آواز نے بادشاہ اور اس کے تمام ہمراہیوں کو خوف میں مبتلا کر دیا۔ بادشاہ نے اپنے دوستوں سے کہا:” جو غیبی آواز میں نے سنی کیاتم نے بھی سنی؟”سب نے یک زباں ہوکر کہا:”جی ہاں! ہم نے بھی سنی ہے ۔”بادشاہ نے کہا:” جو چیز میں محسوس کر رہا ہوں کیاتم بھی محسوس کر رہے ہو ؟”پوچھا:” آپ کیا محسوس کر رہے ہیں ؟” کہا:” میں اپنے دل پر کچھ بوجھ سا محسوس
کر رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ میری موت کا پیغام ہے۔” لوگوں نے کہا:” ایسی کوئی بات نہیں، آپ کی عمردرازاور اقبال بلند ہو! آپ پریشان نہ ہوں۔” پھر بادشاہ نے لوگوں کی طرف توجہ نہ دی، اس کا دل چوٹ کھا چکا تھا۔ غیبی آواز نے اس کا ساراعیش ختم کر دیا تھا، وہ روتے ہوئے کہنے لگا:” تم میرے بہترین دوست اور بھائی ہو، تم میرے لئے کیا کچھ کر سکتے ہو ؟” لوگوں نے کہا: ”عالی جاہ! آپ جو چاہیں حکم فرمائیں، آپ کا ہر حکم مانا جائے گا۔” بادشاہ نے شراب کے تمام برتن توڑ ڈالے ۔اس کے بعد بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں اس طرح عرض گزار ہوا:
” اے میرے پاک پروردگارعَزَّوَجَلَّ ! میں تجھے اور یہاں موجودتیرے بندوں کو گواہ بناکر تیری طرف رجوع کرتا اور اپنے تمام گناہوں اور زیادتیوں پر نادم ہو کر توبہ کرتا ہوں ۔اے میرے خالق عَزَّوَجَلَّ !اگر تُومجھے دنیامیں کچھ مدت اور باقی رکھنا چاہتا ہے تو مجھے دائمی اطاعت وفرمانبرداری کی راہ پر چلا دے ۔اور اگر مجھے موت دے کر اپنی طر ف بلانا چاہتا ہے تو مجھ پر کرم کر دے اور اپنے کرم سے میرے گناہوں کو بخش دے۔”
بادشاہ اسی طرح مصروفِ التجا رہا اور اس کا درد بڑھتا گیا۔ پھر اس نے ان کلمات کا تکرار شروع کر دی: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ”موت” اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !”موت”۔ بس یہی کلمات اس کی زبان پر جاری تھے کہ اس کا طائر ِ روح قفسِ عُنْصُرِی سے پرواز کر گیا۔ اس دور کے فقہاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین فرمایا کرتے تھے: ”اس بادشاہ کا خاتمہ توبہ پر ہوا ہے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)