انوکھی قناعت
حکایت نمبر488: انوکھی قناعت
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن شَبِیْب علیہ رحمۃ اللہ الحسیب کا بیان ہے: ” ہر جمعہ کو ہمارا علم کا مَدَنی مذاکرہ ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے ہماری محفل میں کوئی مسئلہ پوچھا۔ہم اس بارے میں بحث کرتے رہے لیکن جواب نہ دے سکے ۔ا گلے جمعہ وہ پھرآیاتوہم نے جواب بتایا اور اس کی رہائش گاہ کے بارے میں پوچھا۔اس نے کہا:”میں”حَرْبِیَّہ”میں رہتا ہوں۔” ہم نے کہا:” تمہاری کُنْیَت کیا ہے ؟” کہا: ” ابو عبداللہ۔” ہمیں اس کے ساتھ بیٹھنے سے خوشی ہوتی ۔وہ ہر جمعہ ہماری محفلِ فقہ میں شرکت کرتا ،اس کاآنا ہمیں بہت اچھا لگتا۔ پھر اچانک اس نے آنا چھوڑ دیا،اس طرح اچانک غیرحاضری کی وجہ سے ہم پریشان ہوگئے۔ہم نے مشورہ کیاکہ ہمارا ایک رفیق ہم سے جدا ہوگیا ہے اس کے بارے میں ضرور معلومات کرنی چاہے، کیا معلوم اسے کوئی بڑی پریشانی لاحق ہوگئی ہو؟ اگلی صبح ہم ”حَرْبِیَّہ”گئے اور بچوں سے پوچھا :”کیا تم ”ابو عبد اللہ ”کو جانتے ہو ؟” بچوں نے کہا:” شاید! آپ ابو عبداللہ شکاری کے متعلق پوچھ رہے ہو ؟” ہم نے کہا:” ہاں! ہم اسی کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔” کہا:” بس وہ آنے والے ہیں، آپ یہیں انتظار فرمائیں۔”
ہم وہیں ٹھہر گئے،کچھ دیر بعدہم نے دیکھا کہ ایک موٹے کپڑے کاتہبندباندھے ایک چادر کندھوں پراوڑھے وہ ہماری جانب چلا آ رہا تھا۔اس کے پاس کچھ ذبح کئے ہوئے اورکچھ زندہ پرندے تھے۔وہ مسکراتا ہوا ہمارے پاس آیا اورپوچھا:”خیرت تو ہے آج اس طرف کیسے آنا ہوا ؟ ” ہم نے کہا : ” تم ہمارے دوست تھے کئی دنوں تک مسلسل ہمارے پاس علمِ دین سیکھنے آتے
رہے، اب کچھ دنوں سے تم نہیں آرہے، اس کی وجہ کیا ہے؟” کہا :”میں آپ لوگوں کو سچ سچ بتاتاہوں، میں جو کپڑے پہن کر آپ کی محفل میں حاضر ہوتا تھا وہ میرے ایک دوست کے تھے، جو مسافر تھا۔جب وہ اپنے وطن واپس چلا گیا تو میرے پاس دوسرے کپڑے نہ تھے جنہیں پہن کر آپ کے پاس آتا،میرے نہ آنے کی وجہ یہی ہے ، اچھا! ان باتوں کو چھوڑ یں یہ بتائیے،آپ کیا پسند فرمائیں گے، میرے ساتھ گھر چلیں اور اس رزق سے کھائیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں عطا فرمایاہے۔” ہم نے کہا:” ٹھیک ہے! ہم چلتے ہیں ۔”پس ہم اس کے ساتھ چل دیئے،اس نے ایک مکان کے قریب رک کر سلام کیا اور اندر داخل ہوگیا۔ کچھ دیر بعد ہمیں اندربلاکر بوریوں سے بَنی ہوئی ایک چٹائی پر بٹھایا۔ ذبح کئے ہوئے پرندے اپنی زوجہ کے حوالے کئے، زندہ پرندے بازار لے جاکر بیچے اوران سے ملنے والی رقم سے روٹیاں خرید لایا، اتنی دیر میں اس کی زوجہ سالن تیا ر کرچکی تھی۔ اس نے روٹی اور پرندوں کا گوشت ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نام لے کر کھائیے ۔”
ہم نے کھاناکھاتے ہوئے آپس میں کہا :”دیکھو! ہمارے اس دوست کی معاشی حالت کیسی ہے ! ہمارا شمار بصرہ کے معززین میں ہوتا ہے، افسوس ! ہمارے ہوتے ہوئے اس کی یہ حالت!” یہ سن کر ہمارے ایک دوست نے کہا: ”پانچ سو (500) درہم میرے ذمہ ہیں ۔”دوسرے نے کہا:” تین سو(300) درہم میں دوں گا۔” اس طرح ہم سب نے حسبِ حیثیت درہم دینے اور دوسرے اہلِ ثروت سے دِلوانے کی نیتیں کیں۔ جب حساب کیا تو تقریباً پانچ ہزار(5000)درہم ہو چکے تھے ۔ہم نے کہا: ”ہم یہ ساری رقم اکٹھی کرکے اپنے اس دوست کی خدمت کریں گے۔”
چنانچہ، ہم اپنے میزبان کا شکریہ اداکر کے شہر کی جانب چل دیئے۔ جب ہم کھجور سُکھانے کے میدان کے قریب سے گزرے توبصرہ کے امیر محمد بن سلمان نے اپنا ایک غلام بھیج کرمجھے بلوایا۔مَیں اس کے پاس پہنچا تو اس نے ہمارا حال پوچھا۔ میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا اور بتایاکہ ہم اس غریب دوست کی امداد کرنا چاہتے ہیں ۔ امیرِ بصرہ محمد بن سلمان نے کہا:” میں تم سے زیادہ نیکی کرنے کا حق دار ہوں۔” پھر اس نے دراہم سے بھری تھیلیاں منگوائیں اور ایک غلام سے کہا:” یہ ساری تھیلیاں اٹھا لو اور جہاں رکھنے کا حکم دیا جائے، وہاں رکھ کرآجانا۔” میں بہت خوش ہوا اپنے دوست ابو عبداللہ کے مکان پر پہنچ کر دستک دی ، دروازہ خود ابو عبداللہ نے کھولا۔ غلام اور رقم کی تھیلیاں دیکھ کراس نے میری طرف یوں دیکھا جیسے میں نے اس پر بہت بڑی مصیبت توڑ دی ہو۔ اس کا انداز ہی بدل چکا تھا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا:”یہ سب کیا ہے ؟کیاتم مجھے مال کے فتنے میں ڈالنا چاہتے ہو؟”میں نے کہا : ” اے ابو عبداللہ !ذرا ٹھہرو! میں تمہیں سب بات بتاتا ہوں۔” یہ کہہ کر میں نے اسے ساری بات بتائی اور یہ بھی بتایا کہ یہ مال بصرہ کے امیر محمد بن سلمان نے بھجوایا ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ وہ مجھ پر بہت غضبناک ہوا اور گھر میں داخل ہو کر دروازہ بند کردیا، میں باہر بے چینی کے عالم میں ٹہلتا رہا، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ امیرِ بصرہ کو کیا جواب دوں۔ بالآخر یہی فیصلہ کیا کہ سچ ہی میں نجات ہے
اور مجھے سب کچھ سچ سچ بیان کردینا چاہے۔ یہی سوچ کر میں امیرِ بصرہ کے پاس آیا اور سارا واقعہ کہہ سنایا۔ میری بات سن کر امیرِ بصرہ غصے سے کانپتا ہو ا بولا: ” میرے حکم کی نافرمانی کی گئی۔ اے غلام!جلدی سے تلوار لاؤ۔” غلام تلوار لے کر حاضر ہوا تو امیر نے مجھ سے کہا: ”اس غلام کا ہاتھ پکڑ کر اس شخص کے پاس لے جاؤ، جب وہ باہر آئے تو اس کی گردن اُڑا دو اور سر ہمارے پاس لے آؤ۔” میں یہ حکمِ شاہی سن کربڑاپریشان ہوا، لیکن مجبورتھا، انکار نہ کر سکا، میں بادِل نخواستہ (یعنی نہ چاہتے ہوئے) واپس آیا اور دروازے پر پہنچ کر سلام کیا۔ اس کی زوجہ نے روتے ہوئے دروازہ کھولا اور ایک جانب ہٹ کر مجھے اندر بلا لیا ۔ میں نے گھر میں داخل ہو کر پوچھا :”تمہار ا اور ابو عبداللہ کا کیا حال ہے ؟” کہا:” آپ سے ملاقات کے بعد اس نے کنوئیں سے پانی نکال کر وضو کیااور نماز پڑھی۔ پھر میں نے اس کی یہ آواز سنی :
”اے میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ !اب مجھے مہلت نہ دے اور اپنی بارگاہ میں بلالے ۔” یہ کہتے ہوئے وہ زمین پر لیٹ گیا، میں قریب پہنچی تو اس کی روح عالَمِ بالا کی طرف پرواز کر چکی تھی، یہ دیکھیں اب گھر میں اس کا بے جان جسم پڑا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا تو واقعی ایک جانب اس کی میت رکھی ہوئی تھی۔ میں نے اس کی زوجہ سے کہا:” اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی!ہمارا قصہ بہت عجیب ہے ۔ یہ کہہ کر میں امیرِ بصرہ محمدبن سلمان کے پاس آیا اور ساری بات بتائی ۔” اس نے کہا: ” میں اس کی نماز جنازہ ضرور پڑھوں گا۔” کچھ دیر بعد اس کی موت کی خبر پورے بصرہ میں پھیل گئی ۔امیرِ بصرہ اور دوسرے بے شمار لوگوں نے اس کے جنازہ میں شرکت کی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم)